میں تڑپا کیا , اور گیسوئے ناز
سنورتے گئے، دن گزرتے گئے
میں روتا رھا ، اور بہاروں کے رنگ
نکھرتے گئے، دن گزرتے گئے
مری زیست پر ان کے جلووں کے نقش
ابھرتے گئے، دن گزرتے گئے
گلستاں کے دامن میں ، کِھل کِھل کے پُھول
بکھرتے گئے، دن گزرتے گئے
میں اُن کے تصور میں کھویا رھا
گزرتے گئے ، دن گزرتے گئے
چھلکتے ھوئے جام میں ماہ و سال
اترتے گئے، دن گزرتے گئے
”مجید امجد“