آج بھی
بہت سے گم ہوئے
بہت سے مر گیے
کچھ پس ستم کیے
کچھ عدم معنویت کی صلیب چڑھے
ہاں‘ شاہ نواز
تاریخ کی لوح پر زندہ رہے
وہ ہی وقتوں کے ہیرو ٹھہرے
جن پر ملاں کی مہر ثبت ہوئی
انہیں کون جھٹلائے
سچ کا آئینہ دکھائے
جھوٹ‘
معنویت کے ساتھ زندہ رہا
سکھ کا سانس لیتا رہا
احساس بنا
عزت کی دلیل ہوا
معبدءتوقیر میں پڑا
یہ صدیوں کا ورثہ
طاق میں رکھ کر
کوئی کیوں‘
اس لفظ کو تلاشے
جو معاشی روایت نہیں
سماجی حکایت نہیں
بےسر وادی معاش ہو کہ
شاہ کے صنم کدے
شہوت کی عشرت گاہوں
گنجان آباد صحراؤں میں
اس کا کیا کام
سچ کے شبدوں کی خاطر
فاقہ کی کربلا سے گزر کر
حق کے ہمالہ کی چوٹی
کوئی کیوں منزل بنائے
سپیدی لہو
کب کبھی‘
کسی سرمد کی ہم سفر رہی ہے
حمادی کے فتوے نے
راکھ گنگا کے حوالے نہ کی
شاہ نواز حرف اور نقطے
مظلوموں کی شریعت ہے
آج بھی‘
لوح فہم و احساس کے ایوان پر
ان کی سچائی کا علم لہراتا ہے
11-7-1978