اداسیاں
آج یادوں کے کینوس پر
بکھرے ہے رنگ کئی اداسیوں کے
وہ کھکھلاتی ہنسی، بہت خوب سہی لیکن
آج کی اک اداسی ہے
وہ پکٹنڈی، بہت عزیز سہی لیکن
آج کی اک اداسی ہے
وہ آنکھیں، وہ بال، وہ چہرہ، وہ چہچاہٹ
جن کی رخشندگی وا تابندگی سے
روشن حیات لگتی تھی
وہ بھی آج کی
اداسیاں بن گئی ہے؛
میں اس خوف سے اب جاناں
نہ مسکراتا ہوں، نہ کھلکھلاتا ہوں
نہ گن گناتا ہوں،نہ گیت گاتا ہوں،
کہ کل یہ بھی
پھر میرے یادوں کے کینوس پر
اداس دیوی کے روپ میں
پھیل رہی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔
آج یادوں کے کینوس پر
بکھرے ہے رنگ کئی اداسیوں کے
وہ کھکھلاتی ہنسی، بہت خوب سہی لیکن
آج کی اک اداسی ہے
وہ پکٹنڈی، بہت عزیز سہی لیکن
آج کی اک اداسی ہے
وہ آنکھیں، وہ بال، وہ چہرہ، وہ چہچاہٹ
جن کی رخشندگی وا تابندگی سے
روشن حیات لگتی تھی
وہ بھی آج کی
اداسیاں بن گئی ہے؛
میں اس خوف سے اب جاناں
نہ مسکراتا ہوں، نہ کھلکھلاتا ہوں
نہ گن گناتا ہوں،نہ گیت گاتا ہوں،
کہ کل یہ بھی
پھر میرے یادوں کے کینوس پر
اداس دیوی کے روپ میں
پھیل رہی ہونگی۔۔۔۔۔۔۔