Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

بڑی ہی مدت گزر چکی تھی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • بڑی ہی مدت گزر چکی تھی


    ہوا تہمی تھی ضرور لیکن
    وہ شام جیسے سسک رہی تھی
    کہ زرد پتوں کو آندھیوں*نے
    عجیب قصہ سنا دیا تھا
    کہ جس کو سن کر تمام پتے
    سسک رہے تھے بلک رہے تھے
    نہ جانے کس سانحے کے غم میں
    شجر جڑوں سے اکھڑ چکے تھے
    بہت تلاشا تھا ہم نے تم کو
    ہر ایک رستہ
    ہر ایک وادی
    ہر ایک جنگل
    ہر ایک گھاٹی
    کہیں تیری خبر نہ آئی
    تو کہ کے یہ دل کو ہم نے تھا ما
    ہوا تھمے گی تو دیکھ لیں گے
    ہم اس کے رستوں کو ڈھونڈ لیں گے
    مگر ہماری یہ خوش خیالی
    جو ہم کو بر باد کی گئی تھی
    ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
    بڑی ہی مدت گزر چکی تھی
    ہمارے بالوں کے جنگلوں میں
    سفید چاندی اتر چکی تھی
    فلک پہ تارے نہیں رہے تھے
    گلاب پیارے نہیں رہے تھے
    وہ جن سے بستی تھی دل کی بستی
    وہ لوگ سارے نہیں رہے تھے
    یہ المیہ سب سے بالا تر تھا
    کہ ہم تمہارے نہیں رہے تھے
    کہ تم ہمارے نہیں رہے تھے
    ہوا تھمی تھی ضرور لیکن
    بڑی ہی مدت گزر چکی تھی


    Last edited by pErIsH_BoY; 13 April 2014, 11:12.


Working...
X