Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

یاد رکتی نہیں

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • یاد رکتی نہیں



    یاد رکتی نہیں

    یاد رکتی نہیں
    ٹوٹتی ہے بجھی آنکھ سے
    قطرہ آب بن کر پھسلتی ہے
    رخسار کی نرم ڈھلوان پر
    سسکیوں کی صدا سے
    الجھتی ہے
    گاتی ہے
    دل کے حسیں تار کو
    چھیڑتی ہے
    مچلتے ، سلگتے ہوئے
    گرم جذبوں کو چھوتی ہے دھیرے سے
    لیکن کبھی یاد رکتی نہیں
    مجھ سے کہتی ہے
    چھو لو مجھے ، تھام لو ،
    میں کہیںگُم زمانوں کے اندھے تسلسل
    سے لپٹی ہوئی
    ایک زنجیر ہوں
    اور میں حیرت سے تکتی ہوں
    کیسے مرے سرد پہلو میں
    ہر پل دھڑکتی ہے
    بہتی ہے سانسوں کے دھارے میں
    رہتی ہے جیون سفر میں مرے ساتھ
    میں جو کبھی رک بھی جائوں مگر
    یاد رکتی نہیں
    سرسراتی ہے پتوں کے پیچھے
    حسیں چاند کی اوٹ سے
    جھانکتی ہے ، جھلکتی ہے
    شبنم کی شفاف بوندوں میں
    جھونکوں کی باہوں میں
    ہلکورے لیتی ہوئی
    ڈولتی ہے ، مچلتی ہے
    چھو لے گی جیسے
    کسی ان کہی کو
    مچلتے ہوئے درد کے
    ایک سیلاب میں
    بہتی جاتی ہے ان دیکھے
    برفیلے رستوں پہ
    پلکوں کے پیچھے
    کہیں جھلملاتی ہے
    بجھتی ہوئی راکھ سے
    اک دھواں بن کے اٹھتی ہے
    اور تیرتی ہے کہیں
    ڈبڈبائی ہوئی آنکھ کے پانیوں میں
    سلگتی ہوئی پتلیوں کے تلے
    ڈگمگاتی ہے
    دکھ کی کوئی موج
    اندھا تلاطم ہو
    طوفاں ہو، جھکتی نہیں
    یاد رکتی نہیں۔۔۔

    گلناز کوثر


Working...
X