صبح امید ڈر جائے گی
سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے
اس قدر تیز سانسوں سے ایسا نہ ہو، ہونٹ جلنے لگیں
شیشۂجاں پگھلنے لگے
جسم کا ریشہ ریشہ سلگنے لگے
خواہشوں کا غبار آنکھ سے درد کی راکھ بن کر نکلنے لگے
سانس آہستہ لے
تیز سانسوں کی گرمی رگوں میں لہوکو جلا جائے گی
تیز سانسوں کی حدت بدن میں اتر کر ترے برف جذبوں کو
پگھلا نہ دے
تیز سانسوں سے یہ برف جذبے پگھلنے لگے تو
کسی یاد کی سرسراتی ہوئی لہر تیرے تصور میں آ جائے گی
سرسراتی ہوئی لہر
ہاں، یاد کی سرسراتی ہوئی لہر دل تک اتر جائے گی
رات سوچوں کی گہرائیوں میں ٹھہر جائے گی
آنکھ بھر جائے گی
دن نکلنے کی ساعت سے پہلے ستاروں کے جھرمٹ میں
چاند اپنے منزل بہ منزل سفر میں
تری تیز چلتی ہوئی گرم سانسوں کو زنجیر کرکے
کسی یاد کے اک شکستہ محل میں اتر جائے گا
اور پھر کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس شکستہ محل کے
پرانے در و بام تک غم کا آسیب بن کر ٹھہر جائے گا
صبح امید ڈر جائے گی
اور سورج کی پہلی کرن تو نکلنے سے پہلے ہی مر جائے گی
سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے
سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے
اس قدر تیز سانسوں سے ایسا نہ ہو، ہونٹ جلنے لگیں
شیشۂجاں پگھلنے لگے
جسم کا ریشہ ریشہ سلگنے لگے
خواہشوں کا غبار آنکھ سے درد کی راکھ بن کر نکلنے لگے
سانس آہستہ لے
تیز سانسوں کی گرمی رگوں میں لہوکو جلا جائے گی
تیز سانسوں کی حدت بدن میں اتر کر ترے برف جذبوں کو
پگھلا نہ دے
تیز سانسوں سے یہ برف جذبے پگھلنے لگے تو
کسی یاد کی سرسراتی ہوئی لہر تیرے تصور میں آ جائے گی
سرسراتی ہوئی لہر
ہاں، یاد کی سرسراتی ہوئی لہر دل تک اتر جائے گی
رات سوچوں کی گہرائیوں میں ٹھہر جائے گی
آنکھ بھر جائے گی
دن نکلنے کی ساعت سے پہلے ستاروں کے جھرمٹ میں
چاند اپنے منزل بہ منزل سفر میں
تری تیز چلتی ہوئی گرم سانسوں کو زنجیر کرکے
کسی یاد کے اک شکستہ محل میں اتر جائے گا
اور پھر کوئی آہستہ آہستہ چلتا ہوا اس شکستہ محل کے
پرانے در و بام تک غم کا آسیب بن کر ٹھہر جائے گا
صبح امید ڈر جائے گی
اور سورج کی پہلی کرن تو نکلنے سے پہلے ہی مر جائے گی
سانس آہستہ لے
اے مری جاں ذرا سانس آہستہ لے