چلو ہم فرض کرتے ہیں
وہی باتیں جو دنیا میں نہیں ہوتیں
چلو ہم فرض کرتے ہیں
کہ ہر سو نور پھیلا ہے
نہ دن میں چھایا سناٹا
نہ راتوں میں اندھیرا ہے
نہ سورج شب میں سوتا ہے
نہ دن میں چاند کھوتا ہے
ہے ہر دل روشنی سے پر
اور آنکھوں میں اجالے ہیں
چلو ہم فرض کرتے ہیں
کہ ہرموسم بہاراں ہے
خزاں میں پھول کھلتے ہیں
نگاہیں رنگ سے مہکتی ہیں
گلوں کی خوشبوؤں سے
سب نظارے معطر ہیں
پرندے چہچاتے ہیں
خوشی کے گیت گاتے ہیں
چلو ہم فرض کرتے ہیں
کہ ہر دل میں محبّت ہے
کہیں جھگڑے نہیں ہوتے
نہ بارش دکھ کی ہوتی ہے
نہ آندھی غم کی چلتی ہے
نہ نفرت پھانس بنتی ہے
ہیں سبھی چہروں پے مسکانیں
کہیں جھگڑے نہیں ہوتے
چلو ہم فرض کرتے ہیں
کہ غم خوشیوں سے بہتر ہیں
چلو ہم فرض کرتے ہیں
یہ دنیا تم سے بہتر ہے
ذرا ٹہرو
مگر ہم فرض کیوں کر لیں
یقیں مجھ کو بتاتا ہے
حقیقت تو حقیقت ہے
میں سب کچھ جان سکتا ہوں
نہ سورج شب میں چمکے گا
نہ دن میں چاند نکلے گا
خزاں میں گل نہیں کھلتے
یہ نفرت مر نہیں سکتی
نہ غم خوشیوں سے بہتر ہیں
نہ دنیا تم سے بہتر ہے
ہے دنیا کی حقیقت کیا
فقط ایک تم ہی اچھے ہو
جہانوں سے زمانوں سے
مکانوں لا مکانوں سے
یہ سب کچھ ہے وہی جو
اسی دنیا میں ہوتا ہے
تو پھر ہم فرض کیوں کرلیں
فقط ایک تم ہی اچھے ہو....
(امجد اسلام امجد)