Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

مگر اس نے سنا روٹی

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • مگر اس نے سنا روٹی

    محبت لفظ تھا میرا



    میں اس شہر خرابی میں

    فقیروں کی طرح در در پھرا برسوں

    اسے گلیوں میں،سڑکوں پر

    گھروں کی سرد دیواروں کے پیچھے ڈھونڈتا تنہا

    کہ وہ مل جائے تو تحفہ اسے دوں اپنی چاہت کا

    تمنا میری بر آئی کہ اک دن ایک دروازہ کھلا
    اور
    میں نے دیکھا وہ شناسا چاند سا چہرہ

    جو شادابی میں گلشن تھا

    میں اک شان گدایانہ لیے اس کی طرف لپکا

    تو اس نے چشم بے پروا کے ہلکے سے اشارے سے

    مجھے روکا

    اور اپنی زلف کو ماتھے پہ لہراتے ہوئے پوچھا!

    کہو!اے اجنبی سائل

    گدائے بے سروسامان

    تمہیں کیا چاھیے ہم سے؟

    میں کہنا چاہتا تھا۔۔۔۔۔

    عمر گزری جس کی چاہت میں

    وہی جب مل گیا تو اور اب

    کیا چاہیے مجھ کو

    مگر تقریر کی قوت نہ تھی مجھ میں

    فقط اک لفظ نکلا تھا لبوں سے کانپتا،ڈرتا

    جسے امید کم تھی اس کے دل میں بار پانے کی

    محبت لفظ تھا میرا

    مگر اس نے سنا روٹی


Working...
X