ہم نے سوچ رکھا ہے!
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں
چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا!
کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عزاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا!
گھرگئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں کب عزاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عزابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
ہم نے سوچ رکھا ہے تم سے کچھ نہیں کہنا
چاہے دل کی ہر خواہش
زندگی کی آنکھوں سے اشک بن کے بہہ جائے
چاہے اب مکینوں پر گھر کی ساری دیواریں
چھت سمیت گر جائیں
اور بے مقدر ہم
اس بدن کے ملبے میں خود ہی کیوں نہ دب جائیں
تم سے کچھ نہیں کہنا!
کیسی نیند تھی اپنی کیسے خواب تھے اپنے
اور اب گلابوں پر
نرم خو سے خوابوں پر
کیوں عزاب ٹوٹے ہیں
تم سے کچھ نہیں کہنا!
گھرگئے ہیں راتوں میں
بے لباس باتوں میں
اس طرح کی راتوں میں
کب چراغ جلتے ہیں کب عزاب ٹلتے ہیں
اب تو ان عزابوں سے بچ کے بھی نکلنے کا راستہ نہیں جاناں!
جس طرح تمہیں سچ کے لازوال لمحوں سے واسطہ نہیں جاناں!
ہم نے سوچ رکھا ہے تم سے کچھ نہیں کہنا