واسطہ حُسن سے یا شدتِ جذبات سے کیا
عشق کو تیرے قبیلے یا میری ذات سے کیا
میری مصروفیتیں اُس کو کہاں روک سکیں
وہ تو یاد آئے گا اُس کو میرے دن رات سے کیا
پیاس دیکھوں یا کروں فکر کہ گھر کچا ہے
سوچ میں ہوں کہ میرا رشتہ ہے برسات سے کیا؟
میں تو کہتا رہا مٹ جائےگا تُو بھی اک دن
میرے قاتل کو مگر میرے خیالات سے کیا
اک اثاثہ ہوا کرتے ہیں نقوشِ ماضی
تجھ کو لگتا نہیں بوسیدہ عمارات سے کیا
جس کو خدشہ ہو کہ مر جائیں گے بچے بھوکے
سوچئے! اُس کو کسی اور کے حالات سے کیا
آج اُسے فکر کہ کیا لوگ کہیں گے طاہر
کل جو کہتا تھا مجھے رسم و روایات سے کیا