﷽
تہذیب اور کردار
تہذیب ایک ورثہ ہے، جو کسی فرد یا قوم کو انفرادی یا اجتماعی طور پر ملتا ہے۔ اور انہی سے قومون، خاندانون ، اور قبیلون کی پہچان ہوتی ہے۔ یا انفرادی حیثیت میں فرد کی ، اسکے خاندان و قوم یا قبیلے کی پہچان کا پتہ چلتا ہے۔ بعض قومون کی تہذیب صدیون پر محیط ہے۔ جب کسی قوم کی تہذیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے، تو انکے کردار، اخلاق، عادات و اطور کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اور اسی تہذیب کا اثر کسی فرد پر بھی انفرادی طور پر بڑتا ہے۔
جو قومیں تباہ و برباد ہوگئیں، یا ختم ہوگئیں، انکی تہذیب کا اندازہ ہمین، پرانے دفینون سے یا آثار و کھنڈرات سے ملتا ہے۔ اور ہم اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ یہاں جو قوم آباد تھی، اسکا کس تہذیب سے تعلق ہے۔ اکا معاش کیا تھا، وہ کس کردار و اطوار کے مالک تھے۔ اور اب چونکہ سائینس نے بے حد ترقی کرلی ہے۔ تو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ کتنی پرانی تہذیب کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں۔ انکا مذہب کیا تھا۔
قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے بعض قومون کا ذکر کیا ہے، جو اپنی نافرمانیون ، اور گستاخیون کی وجہ سے عذاب ِ الہی ٰ کا شکار ہوئیں اور صفحہء ہستی سے مٹ گئیں۔ اور تباہ و برباد ہوگئیں۔ انکی تباہی کیو وجوہات کیا تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں ہمیں قوم عاد، قوم ثمود، قوم ِ لوط، اور قوم فرعون، شامل تھیں ، یہ وہ قومین تھیں جو نافرمان، گستاخ، اور حد سے گزر جانے والی تھیں۔ جبکہ اللہ پاک ، نئے انکی ہدایت کے واسطے انبیاء علیہٰ السلام کو بھی بھیجا۔ لیکں جب ان اقوام نے نافرمانی کی حد کردی تو اللہ پاک نے انہیں نیست و نابود کردیا۔
اللہ پاک نے ان قومون کے ذکر کے ساتھ ساتھ، بنی اسرائیل کا ذکر بھی کیا ہے ، اور قرآن پاک میں کئی جگہ ان کا ذکر آیا ہے۔اور بنی اسرائیل واحد وقوم ہے، جسکی کی تہذیب ہزارون سالون پر محیط ہے۔ یہ واحد قوم ہے ، جس پر اللہ پاک نے کئی بار سزاء کے طور پر عذاب نازل فرمائے، اور ہٹا دئے، جبکہ بنی اسرائیل واحد قوم ہے ۔ جو ایک بار نہیں کئی بار اللہ کے عذاب کو شکار ہوئی، لیکن ہر بار اللہ پاک نے انہیں معاف کردیا۔ اور شاید اسی وجہ سے یہ قوم ابتک چلی آرہی ہے۔
قرآن پاک میں انکے ذکر، اور واقعات، کے علاوہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ بھی کرین، تو بنی اسرائیل کی تہذیب بہت پرانی نظر آتی ہے۔ جس سے انکے کردار ، اطور ، اخلاق کا با خوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ کہ یہودی، خودسر، گستاخ ، اللہ کے باغی، اور اخلاق باخطہ قوم نظر آتی ہے۔ جو صدیون سے اللہ پاک کے احکامات سے بغاوت، سرتابی، کرتی چلی آئی ہے،
اس میں کوئی شک نہیں ، کہ یہ قوم اپنی پرانی تہذیبی عادات و اطور کے ساتھ ہر دور میں اللہ پاک کے احکامات سے سر تابی کرنے کے باوجو اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ( یہ اللہ پاک بہتر جانتے ہیں) آئیے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ تہذیب ، کردار کے لحاظ سے اسلام سے کیوں ، خوف ذدہ اور نالان ہیں۔ اللہ پاک کی وحدانیت کے بارے میں ان دونون قومون(یہودیت اور عیسائیت )کے کیا نظریات ہیں۔ جنکی وجہ سے اللہ پاک نے ان دونون شریعتون کو منسوخ کردیا۔
یہودیت:۔
یہودیت ایک توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ جسکے تابعین اسلام میں بنی اسرائیل یا بنی موسیٰ ؐ علیہ لسلام کہلاتے ہیں۔ مگر تاریخی مطالعہ میں یہ دونون نام اُس قوم کے لئے منتخب ہیں، جس کا تورات کے جز (ایکسوڈیس) میں ذکر ہے۔ جس کے مطابق بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے حضرت موسیٰ علیہ لسلام نے آزاد کرایا اور بحیرہ احمر پار کر ا کے جزیرہ نمائے سیناء میں لے آئے۔
یہودیت میں کئی فقہ شامل ہیں، اور سب اسبات پر متفق ہیں، کہ دین کی بنیاد حضرت موسٰی علیہ السلام نے رکھی، مگر دین کا دارومدار تورات اور تلمود کے مطالعہ پر ہے۔ نہ کہ کسی شخص کی پیروی پر۔
2006ۓء میں یہودیون کی آبادی 14 لاکھ تھی، اس وقت یہودی اکثیریت والا واحد ملک اسرائیل ہے۔ جہان انکو حق خودارادیت پوری طرح حاصل ہے۔
توریت اور عہد عتیق:۔
توریت تعلیم و بشارت ہے۔ ایک آسمانی کتاب ہے۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ لیکن یہودیون نے اس کتاب میں تحریف کردی ، اور مختلف خرافات کو اسکا جُز بنادیا۔ جس کا نتیجہ آج ایک مضحکہ خیز تعلیمات پر مشتمل کتاب کی صورت میں موجود ہے۔
" تورات کے جمع کرنے والے مجحول اشخاص ہیں جنکے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے" " وائے ہو ان لوگون پر جو اپنے ہاتھون سے کتاب لکھکر یہ کہتے ہیں۔ کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ تاکہ اسے تھوڑے دام میں بیچ دیں۔ ان کے لئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے ۔ اور اسکی تحریر پر بھی۔( سورۃ بقرہ آیت 79)
خدا یہودیون کی نگاہ میں (نعوذوباللہ):
خداوند عالم یہودیون کی مقدس کتاب میں عجیب و غریب شمایل اور خصائل رکھنے والی ہستی ہے۔ گویا بالکل انسان جیسا۔ (نعوذوباللہ)
1۔لباس پہنتا ہے۔
2۔ اس کے دو پیر ہیں۔
3۔ انسانون کی طرح چلتا پھرتا ہے۔
4۔ آسمانوں سے زمیں پر اُترتا ہے، جہان چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔ کسی جگہ بھی اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے، اور رہنا شروع کردیتا ہے۔
5۔ اس قدر جاہل ہے کہ بغیر علامت کے مومنین کے اور کفار لے مکانوں کی تمیز نہیں کرسکتا۔
6۔ بہت سی چیزون سے بے خبر ہے۔
7۔ اپنے معین کئے ہوئے پیمانون کو توڑ دیتا ہے۔
8۔ اپنے انجام دئیے ہوئے افعال پر پریشان ہوتا ہے۔
9۔ کبھی افسوس کرتا ہے اور کبھی غمگین ہوتا ہے۔
10۔ انسان کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔
11۔ تین ہوتے ہوئے بھی ایک ہے۔ یعنی تین بھی ہے اور یکتا بھی ہے۔
12۔ سانپ اس سے زیادہ سچا ہے۔
13۔ آسمان سے زیادہ زمیں پر اترتا ہے، عوام کے کلام میں افتراق پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ ان کے یک زبان ہونے سے خوف ذدہ رہتا ہے۔ 14۔ ایک بات کہہ کر اس سے پھر جاتا ہے۔
( مندرجہ بالا خیالات یہودی(مذہب) میں اللہ تعالیٰ کئے بارے میں ہیں۔ ( استغفراللہ)
یہودیون کی نگاہ میں بیغمبر:۔
انبیاء اور پیغمبرون کے بارے میں کیا ہیں۔
1۔ نامحرم عورتون سے زناء کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی جانب نسبت دی گئی۔ (نعوذوباللہ)3۔ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور انکو قتل کرکے انکی بیویون کو داشتہ بنا لیتے ہیں۔ اس عمل کو حضرت داؤدؑ سے نسبت دی ہے (نعوذوباللہ)(18)
4۔ خداوند سے کشتی لڑتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤدؑ سے منسوب کرتے ہیں ـ(19)
5۔ خداوند عالم کے نبی کرنے باوجود اسکے منع کئیے ہوئے فعل سرانجام دیتے ہیں، جیسا کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب ہے۔(17)
6۔ انکے قلوب بتون کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ (21) معاذ اللہ۔
7۔ بتون کی پوجا کے لئے بت خانے تعمیر کرتے ہیں۔ جیسا کہہ حضرت سلیمانؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے(32) معاذاللہ۔
8۔ خدا انکو مارے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسکی نسبت حضرت موسٰیؑ کی طرف دی گئی ہے۔ ( 23)
9۔ ظالم ہیں اور بچون کو مصیبت زدہ افراد اور گائے اور بھیڑون کو مار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں۔ (24)
10۔ خداوند عالم کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اسبات کی نسبت بھی حضرت موسیٰؑ سے دی گئی ہے۔
11۔ سالہاسال سروپاء برہنہ عریاں حالت میں عمومی جگہون پر آمدورفعت کرتے ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر ؑ کے پیروکارون کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ (25)
12۔ گردن بند اور مالاؤن سے اپنی زینت کرتے ہیں، اسکی نسبت بھی آرمیائی پیغمبر کی طرف دیتے ہیں۔(27)
13۔ خدا اپنے پیغمبرون کو انسانی نجاست سے آلودہ روٹی کھانے کا حکم دیتا ہے۔
14۔ خداوند عالم نے ان کو حکم دیا، کہ اپنی داڑھی اور مونچھیں منڈوالو۔ یہ دونوں باتین جناب حرفیل سے منسوب کی گئی ہیں۔
15۔ خداوند عالم نے ان کو حکم دیا ہے کہ ناجائز اولاد سے رشتہ ازواج قائم کرو۔ یہودیون کے بقول حضرت یوشعؑنے یہ فعل انجام دیا ہے (29) تعوذوباللہ۔
16۔ لوگون کو بتون کی پوجا کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اور خود بت بناتے ہیں۔ اس واقعہ کو حضرت ہارون ؑ سے منسوب کرتے ہیں۔
17۔ زناء زادے ہیں۔ یہودیون کے بقول معاذاللہ۔ حضرت یفتاحؑ پیغمبر زناء کے ذریعہ متولد ہئے تھے(31)
18۔ شراب پی کر مست ہوجاتے ہیں اسکی نسبت وہ حضرت نوحؑ کی جانب دیتے ہیں۔ (32)
19۔ یہودیون کے عقیدے کے مطابق پیغمبر جھوٹ بھی بولتا ہے۔ جیسا کہ انہون نے حضرت نوحؑ پر الزام لگا دیاہے (33)
توریت کی بعض عبارتین:۔ میں نے کہا کہ تم خدا ہو، اور تم سب حضرت اعلیٰ کے فرزند ہو، لیکن آدمیوں کی طرھ تمھیں بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا۔(34)
۔ اسرائیل کئے علاوہ کوئی قوم خدا کی جماعت سے ملحق نہہیں ہوسکتی اور نہ ان میں سے کوئی خدا کے لمعاشرے میں داخل ہوسکتا ہے۔(35)
۔ شراب بالکل نہ پیؤ اس کو کسی غریب مسافر کو جو تمھارے دروازے کے اند ہو دے دو، یا کسی اجنبی کے ہاتھ بیچ دو، اس لیئے کہ تم اپنے خدا یہودہ کے نزدیک مقدس ہو۔ (36)
۔ اپنی ہیٹیون کو ان کو نہ دو، اور نہ انکی بیٹیون کو اپنے بیٹون اور اپنے لئے لے لو۔ (36)
۔ ہم نے تمھارے حدود اور سرحدیں بحیرہ فلسطین اور صحرا سے نہر فرات تک قرار دی ہیں۔ اس کئے کہ اس سرزمین کے باشندون کو ان کی سرزمین سے شہر بدر کردوگے۔ ان کے لئے خداوند کے ساتھ عہد نہ کرو ۔(38)
۔ کنعانیون کی سر زمین میں نہر فرات تک داخل ہوجاؤ ۔ ہم نے تمھارے سامنے اس سرزمیں کو پیش کردیا ہے۔ پس اس میں داخل ہوکر اس زمین پر جس کو خداوند عالم نے تمھارے آباؤاجداد ابراہیمؑ یعقوبؑ، اسحاقؑ ، کو ان کی ذریت کو دینے کی قسم کھائی ہے۔ تصرف کرو ۔(39)
۔ امتیون کو تمھاری میراث بنادونگا، اور زمین کے اطراف و اکناف کو تمھاری جاگیر قرار دونگا، ان کو اپنے آہنی عصاء سے مار ڈالوگے۔ کوزہ گر کی طرح ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردوگے۔ (30)
۔ گوشت کھاؤ اور خون پیؤ تم صاران کا گوشت کھاؤ گے، اور دنیا کے امیرون اور رئیسون کا خون پیؤ گے ۔(31)
۔ ان لوگون کو ذبح کر ڈالنے کے لیئے بھیڑ بکریون کی طرح باہر کھینچ لو۔ اور ان کو روز قتل کرنے کے لئے آمادہ کرلو ۔ (23)
۔ خداوند عالم یعقوبؑ پر رحم فرماتے ہوئے اسرائیل کو دوبارہ منتخب کریگا، اور ان کو انکی زمینون میں مطمعن بنادے گا۔ نمہرباہ ان سے ملحق ہوکر خاندان یعقوبؑ سے متصل ہوجائین گے۔ اور (غیر یہودی) قومیں انکو اپنے مسکن تک لیجائینگی۔ خاندان اسرائیل ان (غیر یہودیون) کو خداوند کی زمینون پر اپنا غلام اور کنیز بنالینگے۔ اور بنی اسرائیل اپنے اسیرکرنے والون کو اسیر اور اپنے اوپر ظلم ڈھانے والون پر حکمرانی کرینگے۔(33)
(www.ERFAN..IR WWW.ANSARIAN.IR) (اقتصابات و حوالہجات ۔ حضرت استاد انصاریان۔۔
مندرجہ بالا۔ اقتصابات اور حوالہ جات، سے آپکو یہودی ذہنیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا ،کہ یہودیت کس قدر غلیظ اور بدبودار مذہب ہے۔ اور جسکے بارے میں قرآن کریم نے بڑے صاف الفاظ میں تمام مسلمانون کو تاکید و تنبہ کی ہے ۔ کہ یہود اور نصارا کو اپنا دوست نہ سمجھو۔ یہ تمھارے کھلے دشمن ہیں۔
بنی اسرائیل ( یہودی) وہ قوم ہے، جو اپنے آپ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام کا حقیقی وارث سمجھتی ہے۔ اور اسی وجہ سے دیگر تما م الہامی ادیان و شریعتون کی تردید کرتی ہے۔ سوائے توریت کے جو حضرت موسیٰ علیہالسلام پر نازل ہوئی، اور اسمیں اہل یہود نے اسکے ساتھ جو ترامیم ، اور سامنے جو شکل نکل کر ائی وہ آپ کے سامنے ہے۔ جس سے انکی تہذیب اور اخلاقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔
عیسائیت / مسیحیت
مسیحیت ایک توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ جسکے تابعین عیسائی کہلاتے ہیں۔ مسیحیت کے پیروکار حضرت عیسیٰ علیہالسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مسیحیون میں بہت سے فرقے ہیں۔
1۔ کیتھولک۔ 2۔ پروٹیسٹنٹ۔ 3۔ آرتھوڈکس۔ 4۔ مارونی ۔ 5۔ ایونجیلک۔ وغیرہ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛ ۔ JUSES CRIST / JUSSES OF NAZARETH)
مسلمانون اور عیسائیون کے نزدیک ایک مقدس اور بزرگ ہستی ہیں۔ مسلمان انکو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور عیسائیون میں دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو انہیں اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور دوسرا وہ جو انہیں تثلیث کا ایک کردار مانتے ہیں۔ اور خدا کا درجہ دیتے ہیں، یعنی عقیدہ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (نعوذہ باللہ) مگر مسلمان اور کچھ عیسائیون کے مطابق اللہ یا خدا ایک ہے، اور اسکا کوئی اولاد یا شریک نہیں۔ جبکہ یہودی سرے سے انہیں نبی ہی نہیں مانتے، بلکہ یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں، جبکہ مسلمانون اور عیسائیون دونون ، یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بٖغیر باپ کے ایک کنواری مان حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے پیدا ہوئے ( اللہ کی قدرت سے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار دنیا میں دو ارب کے قریب ہیں۔ جبکہ مسلمان انہیں اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور انکی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔
انجیل:
ایک آسمانی کتاب ہے۔ جو کہ قرآن مجید میں بیان کردہ کتابون، تورات، زبور، کے بعد تیسری کتاب ہے۔ یہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے نبیؐ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، موجودہ بائیبل کے عہد نامہ جدید کی پہلی چار کتابیں(اناجیل اربعہ) کہلاتی ہیں۔ جنکے نام یہ ہیں۔
1۔ متی انجیل:۔ کو نتی نے تحریر کیا۔ جو حضرت عیسیٰ ؐ کے شاگرد تھے۔ اسکو 60 تا 70 عیسوی کے درمیان شہر انطاکیہ میں تحریر کیا۔ انجیل میں متی نے صرف وہی واقعات قلمبند کئے ہیں ۔ جنکا وہ چشم دید گواہ تھا۔ یہ کتاب حضرت عیسیٰ ؐ کی پیدائش سے شروع ہو کر آپ کی موت اور آپ کے زندہ ہوجانے کے واقعات پر ختم کی ہے۔
مرقس انجیل؛۔
مرقس کا پورا نام یوحنا مرقس تھا۔ وہ پولس (جسے پولس رسول بھی کہا جاتا ہے) کا ساتھی تھا۔ اس نے اپنی عمر کا آخری حصہ روم میں گزارا۔ اور وہیں اس نے پطرس (جسے پطرس رسول بھی کہا جاتا ہے) کی ان باتون کو جو اسے یاد تھیں تحریر کیا ۔ یہ کتاب 60 تا 65 عیسوی میں تحریر کی گئی۔ اس کے مطالعے سے یون محسوس ہوتا ہے۔ کہ کوئی چشم دید گواہ اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے۔ اس انجیل کا آخری حصہ حضرت عیسیٰؐ کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات پر مشتمل ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ ؐ کی عوامی خدمات کے واقعات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سے شروع ہوتی ہے۔ اسمیں حضرت عیسیٰؐ کی موت کی پیش گوئیان درج ہیں، اور حضرت عیسیٰؐ کے دنیا کے گناہون کی خاطر مصلوب ہونے کا ذکر ہے۔
مرقس اس کتاب میں حضرت عیسیٰؐ کو خدا کے ایسے خادم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جو خدا کی مرضی پوری کرنے آیا تھا، آپ بیمارون کو شفاء دیتے ، بد روحون پر فتح پاتے اور آپ کے مُردون میں سے جی اُٹھنے کو ہی عیسائی آپ کے ابن اللہ کے ثبوت گردنتے ہیں۔ مرقس کی اس انجیل سے یہ بھی مقصد بھی تھا۔ کہ رومی عیسائیون پر رومی بادشاہ اسوقت ظلم و ستم ، تہمت، ایذاء رسانی کے پہاذ تڑ رہے تھے۔ ان دنون میں بندی (قید) رہے۔
لوقا کی انجیل:۔
لوقا ایک طبیب تھا ، جو کئی بار پولس رسول کا ہمسفر رہ چکا تھا۔ ان کی انجیل غالباُ 60 تا 65 عیسوی میں ایک یونانی شخص تھیفلیس کے لیئے تحریر کی۔ لوقا اس انجیل میں حضرت عیسیٰؐ کو ایک منجی اور کامل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک کنواری سے پیدا ہونے کے واقعہ سے ابتداء کرتا ہے۔ اس بارے میں جو معلومات اس نے بہم پہنچائیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ پھر وہ گلیل میں یسوع کی خدمت ، اسکے بعد آپکی یروشلم کی مسافرت کے حالات تفصیل سے لکھتا ہے۔ آخر میں یسوع کی صلیبی موت کے بعد آپ کے زندہ ہوجانے پر آپ کے شاگرد خوشی مناتے اور آسمان لسے نازل ہونے والی پاک روح کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جہان متی آپ کو انجیل میں عیسیٰؐ کو مسیح اور قرمس آپ کو خدا کا خادم کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ وہان لوقا آپ کو ایسے کامل انسان اور خداوند کے طور پر پیش کرتا ہلے۔ جسکا نسب آدم ؐ تک پہنچتا ہے۔(باب3۔آیت 28۔38)یسوع تاریخ عالم کے عظیم افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ لوقا آپ کو واقعات کا محور قرار دیتا ہے۔ یسوع کی تعلیم ۔ آپ کے اعمال ، آپ کی صلیبی موت ، اور آپ نے مردون میں جی اُٹھنے سے آپ کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
یوحنا کی انجیل:۔
اسکا مصنف یوحنا رسول ہے۔ یہ انجیل 90 تا 96 عیسوی میں لکھی گئی۔ اس انجیل کا مقصد پڑھنے والے یسوع پر ایمان لائیں اور آپ کے نام سے زندگی پائیں۔ (باب-20، آیت 31) آپ کے معجزون کا جو دوسری کتابون میں درج نہیں کا ذکر ہے۔ یسوع کی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانے اور شاگردون سے ملنے کے واقعات درج ہیں۔ دوسری انجیلون کی بہ نسبت یسوع کی زندگی کی تفسیر اور تعبیر پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آپکی شخصیت کیلئے کئی استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلا ، نورحق، محبت، اچھا چرواہا، دروازہ، قیامت اور زندگی، اور حقیقی روٹی، وغیرہ (باب-14 تا17) میں جو مواد یہان بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یسوع سے اسکی گہری محبت کا جو آپ ایمان لانے والون سے رکھتے تھے، کا اطمینان جو ایمان لانے سے حاصل ہوتا ہے، کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دور حاضر میں عیسائیت کے پھیلے ہوئے عقائد اجمالا عیسائیون کے تین بڑے فرقے ہیں۔ (1) کئتھولک۔ (2) آرتھوڈک۔ (3) پروٹسٹینسٹ۔ یہ تمام فرقے حضرت عیسیٰؐ علیہ السلام کی الوہیت تثلیث اور عیسیٰؐ کے سولی دیئے جانے کے قائل ہیں۔ اور اعتقاد رکھتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو حکم دیا اس درخت سے نہ کھائے، انہون نے شیطان کے بہکانے پر اس سے کھا لیا، توہ وہ خود اور انکی اولاد تباہی کی مستحق ٹھہری۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندون پر رحم فرمایا۔ پس اپنے کلمہ کو ظاہری جسم بخشاء جو اسکا ازلی بیٹا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے جبرائیلؐ کو کنواری مریم کی طرف بھیجا اور انہیں نجات دہندہ کی بشارت دی، کہ وہ اس ازلی کلمہ کو جنے گی، اور وہ الہٰ کی والدہ بن جائے گی۔ اور وہ سولی کی موت پر راضی ہوگئے، تاکہ پہلی غلطی کا کفارہ بن سکیں، " تثلیث سے مراد ۔ اللہ باپ۔۔۔ اللہ بیٹا۔۔۔۔ اور مریم ؐ (کنواری مان) ۔
جبکہ قرآن پاک اسکی تردید کرتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بتایا گیا۔ کہ عیسائیون میں ایک فرقہ حضرت عیسیٰؐ کو اللہ پاک کا بندہ مانتے ہیں۔ لیکن انکی تعداد کم ہے۔ نسبت انکے جو عیسیٰؐ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ۔ اور کفر پر قائیم ہیں۔ اس فرقے کو بھی یہودیون کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہی نہیں۔
جب انسان ایک غلطی کرتا ہے۔ تو پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے، اور یہی کچھ رتاریخ ِ انسان میں ہوا۔ اور آدم علیہ السلام سے اسکا آغاز ہوا۔ اور آج تک ہوتا چلا آرہا ہے۔ بنی نوع انسان، جسے اللہ پاک کے فیہم و فراست عطاء کی عقل و شعور عطاء فرمایا، اور اپنے بے پناہ علم میں سے علم عطاء فرمایا، نیکی اور بدی کا ادراک دیا۔ زندگی گزارنے اور سنوارنے کا سلیقہ عطاء فرمایا۔ فکر اور غور کرنے کی صلاحیت عطاء فرمائی۔ ایمان اور یقین کی دولت عطاء فرمائی۔ اتنا سب کچھ عطاء کرنے کے باوجود، انسان غلطیان کرتا رہا، حکم عدولیان کرتا رہا۔ نافرمانیان کرتا رہا۔ گستاخیان کرتا رہا۔ اتنی نعمتین مل جانے کے باوجو د ناشکریان ، اور شہزوریان دیکھاتارہا۔ اور اللہ پاک وہ جو علیم و خبیر ہے، رحمان و رحیم ہے، کریم و غفور ہے۔ اپنے بندے کے کرتوت دیکھتا رہا۔ اور ہر دور میں انسان کی فلاح، خیر، ہدایت ، سلامتی، نصیحت کے لئے اپنے انبیاء، رسول، اور پیغمبر بھیجتا رہا۔ اور راہنمائی کے لئے اپنے صحیفے نازل کرتا رہا۔
لیکن انسان، بے اوقات انسان، جسکی تعریف اور اوقات ، صرف خون کا ایک گندہ قطرہ ہے، ایک ناپاک قطرہ اور کچھ بھی نہیں، کبھی، فرعون کی شکل میں کبھی نمرود کی شکل میں کبھی شداد کی شکل میں اپنی اوقات بھول کر خدائی، کے دعوے کرتا رہا۔ اور کر رہا ہے۔ اور اسکے مقابلے پر اترا ہوا ہے۔ کیا یہ نہیں جانتا کہ ایک گڑھا اسکے لئے تیار ہے۔ کیا انسان آج ، فرعون، نمرود، شداد کے انجام سے واقف نہیں، کیا نہیں جانتا، کہ اللہ پاک نے بےحیا، خوسر، اور باغی قومون کا کیا حشر کیا، وہ آج بھی نشان عبرت بنے ہوئے، نظر آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اسبات سے لگائیں۔ کہ دنیا کے کسی ملک میں کسی مذہب میں، کسی قوم میں آپ کو ایک آدمی بھی فرعون، ہامان، نمرود، شداد نام کا نہیں ملے گا۔
یہودی نسل وہ نسل ہے جو صدیون سے اللہ پاک کی ذات کی نفی، بغاوت اور سرکشی کرتی چلی آرہی ہے۔ اور اپنے وجود کو برقرار بھی رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ آبادی اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھی کم ہونے کے باوجود پوری دنیا کے انسانون ، کے معاشی، اخلاقی، ثقافتی، اور تہذیبی اقدار پر حکومت کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ اپنے آپ کو یہ قوم ہر قسم کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے بالاتر سمجھتی ہے۔ جہان تک مجھ جیسے ناقص العقل کی سمجھ میں بات آتی ہے۔ وہ یہ کہ انہون نے اپنے برسون پرانے احداف کو کبھی فراموش نہیں ، کیا۔ مسلسل تحقیق میں لگے ہوئے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عقل اور علم سے کام لیتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں تحقیقی میدان میں ہر وقت مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اور برسون کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اور مسلسل کر رہے ہیں۔ آج امریکہ جیسی طاقت اور ملک کی سیاسی، صنعتی، معاشی، سماجی، اخلاقی، پالیسیان انکی مرہون منت بنتی اور بگڑتی ہیں۔ انکے تھیک ٹینک ادارے مسلسل کام میں لگے ہوئے ہیں۔ انکے ادارے دنیا کی معیشت کو منٹون میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج وہ جس ملک میں چاہیں سیاسی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اپنی اس غاصبانہ اور نہیمانہ کاروائیون کو جب چاہیں بین الاقوامی طور پر منواسکتے ہیں۔ اور پوری دنیا کی اقوام انکا ساتھ دینے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ وہ تہذیب اور کردار کے ہر میعارسے مبرا ہیں۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو انکی نظر میں صرف اور صرف اسلامی دنیا سے خطرہ ہے، جسکے پیچھے وہ گزشتہ چودہ سو سال سے پڑے ہوئے ہیں،
دنیا جانتی ہے۔ بلکہ سب سے زیادہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہر مسلمان اسبات کو جانتا ہے۔ کہ یہودی اسلامی تہذیب ، تمدن، تعلیمات سے خوف ذدہ ہیں۔ گزشتہ مضمون ( فکری اور ثقافتی یلغار اور عالم اسلام) میں، میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اور وضاحت کی تھی، ہم عسکری جنگ امریکہ سے جیت چکے ہیں، لیکن فکری یلغاراور ثقافتی جنگ میں وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔
اگر ہم عرب کے مسلمان حکمرانون اور ریاستون کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو اندھیرے کے سوا ہمیں کچھ نہیں نظر آتا۔ عرب کے حکمران، اور امراء انکے ہاتھون میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ دو دھائیون سے چند عرب ممالک میں ، اسلام پسند تحریکین، یہودیون سے بر سرپیکار ہیں۔ اور اسلامی اقدار کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اسوقت یہودی اور انکے حواری نصارٰ کی نظر یں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستان کے مسلمانون پر اور افغانستان کے مجاہدین بری طرح کھٹک رہے ہیں ۔ اور اسوقت وہ اپنے تمام تر وسائل سرف اسبات پر صرف کررہے ہیں۔ کہ کسی طرح پاکستان کو ختم کردیا جائے۔ یا یہان پر ویسے ہی حکمران مسلط کئے جائیں، جو مشرف جیسے ہون۔
آج پاکستان ، کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ، چاہے وہ سیاست،تعلیم، معیشیت، دفاعی، صنعتی، رفاعی، مذہبی، سماجی، ثقافتی، ترقیاتی، غرض ہر جگہ انکے پالتو ضمیر فروش کتے موجود ہیں۔ جن میں چند تو عیان ہوچکے ہیں، اور کچھ ابھی پوشیدہ ہیں۔ اسکے علاوہ انکی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیمیں، فری میسن، الومناٹی، کے خفیہ کلب اور پاکستان میں کھل چکے ہیں۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق، کراچی کے قریب ایک بڑا فارم ہاؤس انکی سرگرمیون کا مرکز ہے۔ اور کام کر رہا ہے۔
یہ وہ وقت ہے، کہ پاکستان کا ہر شہری، ہر مسلمان پاکستانی اپنے آپ کو ہوش میں لائے، چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اپنے آپ کو اور اپنے رفیقون کو اس راستے پر لائے ، جو ہماری بقاء اور اسلام کی سربلندی کی طرف جاتا ہے۔ ملک میں صرف اور صرف اسلامی شرعی حکومت کے قیام کی کوشش کرے۔ اپنے فروحی اختلافات کو بھلا کر ایک سچے مسلمان کی طرح میدان عمل میں آکر اپنی اپنی ذمہ داریون کا ادراک کرے ، سمجھے اور عمل میں لائے۔
یقین رکھیں اللہ پاک نے اسلام کی دین کی ذمہ داری ہم مسلمانون پر ڈالی ہے۔ اور بحیثیت مسلمان اور ایک زندہ قوم کے ہمیں میدان عمل میں ۔ آکر نبی کریم ﷺ کی اس حدیث ، اور قرآن کی اس آیت پر عمل کرناہے۔ ( ائے محمد ﷺ ان یہود نصاراٰ پر بھروسہ مت کیجئے ، یہ تمھارے سخت دشمن ہیں) (کمی بہشی معاف)
آج وہ وقت آگیا ہے۔ کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں، اور عملی طور پر اپنائیں، اللہ پاک کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کی سنتون پر عمل کریں۔ اور اللہ سے استغفار کریں۔ اور اپنے نظریاتی ، فکری ، تہذیبی دشمن کے خلاف صف آراء ہوجائیں، بے حیائی، کے کامون سے اجتناب کرین۔ اسلامی شعار کو اپنائیں۔ اپنے غیر ضروری سرگرمیان ختم کردین۔ اور زیادہ سے زیادہ ، اپنا وقت دینی تعلیمات حاصل کرنے میں صرف کرین۔
یاد رکھیں عسکری جنگ وہ ہم سے ہار چکے ہیں۔ ہم صرف فکری اور تہذیبی، اور اخلاقی جنگ میں پیچھے ہیں۔ اور یہ جنگ ہم اسی وقت جیت سکتے ہیں۔ کہ اپنے نظریات، اخلاقیات، اور فکری محاذ پر چوکنے ہوکر ڈٹ جائیں۔
آج مجھے جنگ خندق یاد آرہی ہے، جب مدینہ کے تاجدار محمد ﷺ اپنے ہاتھون سے مدینہ کے اطراف میں خندق کھود رہے تھے، اور صحابہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ بھوکے پیاسے، ایک صحابی اضی تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور اپنے پیٹ پر سے قمیض اٹھاکر حضور ﷺ کو دیکھایا۔ بھوک کی وجہ سے انہون نے ایک پتھر پیٹ ہر باندھ رکھا تھا۔ میرے حضورﷺ نے مسکرا کر دیکھا، اور اپنی قمیض اٹھاکر دیکھایا، جہان دو پتھر بندھے ہوئے تھے ( اللہ اکبر) آج ہمارا بھی اسی طرح گھراؤ کیا گیاہے۔ دریاؤن میں پانی کی کمی ہے، زمینن ہماری بنجر ہورہی ہیں۔ بجلی ہمارے پاس نہیں، صنعیتں ہماری بند ہورہی ہیں۔ بے روزگاری اور دہشت گردی، ٹاگٹ کلینگ، بھتہ خوری اغوا برائے تاوان، کیا یہ سب کچھ جنگ خندق کی طرف تو نہں لے جارہے ہمٰیں۔ (میں بھی سوچتا ہوں ۔۔ آپ بھی سوچیں)
وسلام: فاروق سعید قریشی۔
تہذیب ایک ورثہ ہے، جو کسی فرد یا قوم کو انفرادی یا اجتماعی طور پر ملتا ہے۔ اور انہی سے قومون، خاندانون ، اور قبیلون کی پہچان ہوتی ہے۔ یا انفرادی حیثیت میں فرد کی ، اسکے خاندان و قوم یا قبیلے کی پہچان کا پتہ چلتا ہے۔ بعض قومون کی تہذیب صدیون پر محیط ہے۔ جب کسی قوم کی تہذیب کا مطالعہ کیا جاتا ہے، تو انکے کردار، اخلاق، عادات و اطور کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ اور اسی تہذیب کا اثر کسی فرد پر بھی انفرادی طور پر بڑتا ہے۔
جو قومیں تباہ و برباد ہوگئیں، یا ختم ہوگئیں، انکی تہذیب کا اندازہ ہمین، پرانے دفینون سے یا آثار و کھنڈرات سے ملتا ہے۔ اور ہم اندازہ لگا سکتے ہیں، کہ یہاں جو قوم آباد تھی، اسکا کس تہذیب سے تعلق ہے۔ اکا معاش کیا تھا، وہ کس کردار و اطوار کے مالک تھے۔ اور اب چونکہ سائینس نے بے حد ترقی کرلی ہے۔ تو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے۔ کہ کتنی پرانی تہذیب کا ہم مطالعہ کر رہے ہیں۔ انکا مذہب کیا تھا۔
قرآن پاک میں بھی اللہ پاک نے بعض قومون کا ذکر کیا ہے، جو اپنی نافرمانیون ، اور گستاخیون کی وجہ سے عذاب ِ الہی ٰ کا شکار ہوئیں اور صفحہء ہستی سے مٹ گئیں۔ اور تباہ و برباد ہوگئیں۔ انکی تباہی کیو وجوہات کیا تھیں، وغیرہ وغیرہ۔ ان میں ہمیں قوم عاد، قوم ثمود، قوم ِ لوط، اور قوم فرعون، شامل تھیں ، یہ وہ قومین تھیں جو نافرمان، گستاخ، اور حد سے گزر جانے والی تھیں۔ جبکہ اللہ پاک ، نئے انکی ہدایت کے واسطے انبیاء علیہٰ السلام کو بھی بھیجا۔ لیکں جب ان اقوام نے نافرمانی کی حد کردی تو اللہ پاک نے انہیں نیست و نابود کردیا۔
اللہ پاک نے ان قومون کے ذکر کے ساتھ ساتھ، بنی اسرائیل کا ذکر بھی کیا ہے ، اور قرآن پاک میں کئی جگہ ان کا ذکر آیا ہے۔اور بنی اسرائیل واحد وقوم ہے، جسکی کی تہذیب ہزارون سالون پر محیط ہے۔ یہ واحد قوم ہے ، جس پر اللہ پاک نے کئی بار سزاء کے طور پر عذاب نازل فرمائے، اور ہٹا دئے، جبکہ بنی اسرائیل واحد قوم ہے ۔ جو ایک بار نہیں کئی بار اللہ کے عذاب کو شکار ہوئی، لیکن ہر بار اللہ پاک نے انہیں معاف کردیا۔ اور شاید اسی وجہ سے یہ قوم ابتک چلی آرہی ہے۔
قرآن پاک میں انکے ذکر، اور واقعات، کے علاوہ اگر ہم تاریخ کا مطالعہ بھی کرین، تو بنی اسرائیل کی تہذیب بہت پرانی نظر آتی ہے۔ جس سے انکے کردار ، اطور ، اخلاق کا با خوبی اندازہ ہوسکتا ہے۔ کہ یہودی، خودسر، گستاخ ، اللہ کے باغی، اور اخلاق باخطہ قوم نظر آتی ہے۔ جو صدیون سے اللہ پاک کے احکامات سے بغاوت، سرتابی، کرتی چلی آئی ہے،
اس میں کوئی شک نہیں ، کہ یہ قوم اپنی پرانی تہذیبی عادات و اطور کے ساتھ ہر دور میں اللہ پاک کے احکامات سے سر تابی کرنے کے باوجو اپنے وجود کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ( یہ اللہ پاک بہتر جانتے ہیں) آئیے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ کہ تہذیب ، کردار کے لحاظ سے اسلام سے کیوں ، خوف ذدہ اور نالان ہیں۔ اللہ پاک کی وحدانیت کے بارے میں ان دونون قومون(یہودیت اور عیسائیت )کے کیا نظریات ہیں۔ جنکی وجہ سے اللہ پاک نے ان دونون شریعتون کو منسوخ کردیا۔
یہودیت:۔
یہودیت ایک توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ جسکے تابعین اسلام میں بنی اسرائیل یا بنی موسیٰ ؐ علیہ لسلام کہلاتے ہیں۔ مگر تاریخی مطالعہ میں یہ دونون نام اُس قوم کے لئے منتخب ہیں، جس کا تورات کے جز (ایکسوڈیس) میں ذکر ہے۔ جس کے مطابق بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے حضرت موسیٰ علیہ لسلام نے آزاد کرایا اور بحیرہ احمر پار کر ا کے جزیرہ نمائے سیناء میں لے آئے۔
یہودیت میں کئی فقہ شامل ہیں، اور سب اسبات پر متفق ہیں، کہ دین کی بنیاد حضرت موسٰی علیہ السلام نے رکھی، مگر دین کا دارومدار تورات اور تلمود کے مطالعہ پر ہے۔ نہ کہ کسی شخص کی پیروی پر۔
2006ۓء میں یہودیون کی آبادی 14 لاکھ تھی، اس وقت یہودی اکثیریت والا واحد ملک اسرائیل ہے۔ جہان انکو حق خودارادیت پوری طرح حاصل ہے۔
توریت اور عہد عتیق:۔
توریت تعلیم و بشارت ہے۔ ایک آسمانی کتاب ہے۔ جو حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی تھی۔ لیکن یہودیون نے اس کتاب میں تحریف کردی ، اور مختلف خرافات کو اسکا جُز بنادیا۔ جس کا نتیجہ آج ایک مضحکہ خیز تعلیمات پر مشتمل کتاب کی صورت میں موجود ہے۔
" تورات کے جمع کرنے والے مجحول اشخاص ہیں جنکے بارے میں قرآن پاک فرماتا ہے" " وائے ہو ان لوگون پر جو اپنے ہاتھون سے کتاب لکھکر یہ کہتے ہیں۔ کہ یہ خدا کی طرف سے ہے۔ تاکہ اسے تھوڑے دام میں بیچ دیں۔ ان کے لئے اس تحریر پر بھی عذاب ہے ۔ اور اسکی تحریر پر بھی۔( سورۃ بقرہ آیت 79)
خدا یہودیون کی نگاہ میں (نعوذوباللہ):
خداوند عالم یہودیون کی مقدس کتاب میں عجیب و غریب شمایل اور خصائل رکھنے والی ہستی ہے۔ گویا بالکل انسان جیسا۔ (نعوذوباللہ)
1۔لباس پہنتا ہے۔
2۔ اس کے دو پیر ہیں۔
3۔ انسانون کی طرح چلتا پھرتا ہے۔
4۔ آسمانوں سے زمیں پر اُترتا ہے، جہان چاہتا ہے چلا جاتا ہے۔ کسی جگہ بھی اپنا ٹھکانہ بنا لیتا ہے، اور رہنا شروع کردیتا ہے۔
5۔ اس قدر جاہل ہے کہ بغیر علامت کے مومنین کے اور کفار لے مکانوں کی تمیز نہیں کرسکتا۔
6۔ بہت سی چیزون سے بے خبر ہے۔
7۔ اپنے معین کئے ہوئے پیمانون کو توڑ دیتا ہے۔
8۔ اپنے انجام دئیے ہوئے افعال پر پریشان ہوتا ہے۔
9۔ کبھی افسوس کرتا ہے اور کبھی غمگین ہوتا ہے۔
10۔ انسان کے ساتھ کشتی لڑتا ہے۔
11۔ تین ہوتے ہوئے بھی ایک ہے۔ یعنی تین بھی ہے اور یکتا بھی ہے۔
12۔ سانپ اس سے زیادہ سچا ہے۔
13۔ آسمان سے زیادہ زمیں پر اترتا ہے، عوام کے کلام میں افتراق پیدا کرتا ہے۔ کیونکہ ان کے یک زبان ہونے سے خوف ذدہ رہتا ہے۔ 14۔ ایک بات کہہ کر اس سے پھر جاتا ہے۔
( مندرجہ بالا خیالات یہودی(مذہب) میں اللہ تعالیٰ کئے بارے میں ہیں۔ ( استغفراللہ)
یہودیون کی نگاہ میں بیغمبر:۔
انبیاء اور پیغمبرون کے بارے میں کیا ہیں۔
1۔ نامحرم عورتون سے زناء کرتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کی جانب نسبت دی گئی۔ (نعوذوباللہ)3۔ عوام کو دھوکہ دیتے ہیں۔ اور انکو قتل کرکے انکی بیویون کو داشتہ بنا لیتے ہیں۔ اس عمل کو حضرت داؤدؑ سے نسبت دی ہے (نعوذوباللہ)(18)
4۔ خداوند سے کشتی لڑتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت داؤدؑ سے منسوب کرتے ہیں ـ(19)
5۔ خداوند عالم کے نبی کرنے باوجود اسکے منع کئیے ہوئے فعل سرانجام دیتے ہیں، جیسا کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف منسوب ہے۔(17)
6۔ انکے قلوب بتون کی طرف مائل ہوجاتے ہیں۔ جیسا کہ حضرت سلیمانؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ (21) معاذ اللہ۔
7۔ بتون کی پوجا کے لئے بت خانے تعمیر کرتے ہیں۔ جیسا کہہ حضرت سلیمانؑ کی طرف نسبت دی گئی ہے(32) معاذاللہ۔
8۔ خدا انکو مارے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ اسکی نسبت حضرت موسٰیؑ کی طرف دی گئی ہے۔ ( 23)
9۔ ظالم ہیں اور بچون کو مصیبت زدہ افراد اور گائے اور بھیڑون کو مار ڈالنے کا حکم دیتے ہیں۔ (24)
10۔ خداوند عالم کے ساتھ سختی کے ساتھ پیش آتے ہیں۔ اسبات کی نسبت بھی حضرت موسیٰؑ سے دی گئی ہے۔
11۔ سالہاسال سروپاء برہنہ عریاں حالت میں عمومی جگہون پر آمدورفعت کرتے ہیں۔ جیسا کہ پیغمبر ؑ کے پیروکارون کی طرف نسبت دی گئی ہے۔ (25)
12۔ گردن بند اور مالاؤن سے اپنی زینت کرتے ہیں، اسکی نسبت بھی آرمیائی پیغمبر کی طرف دیتے ہیں۔(27)
13۔ خدا اپنے پیغمبرون کو انسانی نجاست سے آلودہ روٹی کھانے کا حکم دیتا ہے۔
14۔ خداوند عالم نے ان کو حکم دیا، کہ اپنی داڑھی اور مونچھیں منڈوالو۔ یہ دونوں باتین جناب حرفیل سے منسوب کی گئی ہیں۔
15۔ خداوند عالم نے ان کو حکم دیا ہے کہ ناجائز اولاد سے رشتہ ازواج قائم کرو۔ یہودیون کے بقول حضرت یوشعؑنے یہ فعل انجام دیا ہے (29) تعوذوباللہ۔
16۔ لوگون کو بتون کی پوجا کی ترغیب دلاتے ہیں۔ اور خود بت بناتے ہیں۔ اس واقعہ کو حضرت ہارون ؑ سے منسوب کرتے ہیں۔
17۔ زناء زادے ہیں۔ یہودیون کے بقول معاذاللہ۔ حضرت یفتاحؑ پیغمبر زناء کے ذریعہ متولد ہئے تھے(31)
18۔ شراب پی کر مست ہوجاتے ہیں اسکی نسبت وہ حضرت نوحؑ کی جانب دیتے ہیں۔ (32)
19۔ یہودیون کے عقیدے کے مطابق پیغمبر جھوٹ بھی بولتا ہے۔ جیسا کہ انہون نے حضرت نوحؑ پر الزام لگا دیاہے (33)
توریت کی بعض عبارتین:۔ میں نے کہا کہ تم خدا ہو، اور تم سب حضرت اعلیٰ کے فرزند ہو، لیکن آدمیوں کی طرھ تمھیں بھی موت کا سامنا کرنا ہوگا۔(34)
۔ اسرائیل کئے علاوہ کوئی قوم خدا کی جماعت سے ملحق نہہیں ہوسکتی اور نہ ان میں سے کوئی خدا کے لمعاشرے میں داخل ہوسکتا ہے۔(35)
۔ شراب بالکل نہ پیؤ اس کو کسی غریب مسافر کو جو تمھارے دروازے کے اند ہو دے دو، یا کسی اجنبی کے ہاتھ بیچ دو، اس لیئے کہ تم اپنے خدا یہودہ کے نزدیک مقدس ہو۔ (36)
۔ اپنی ہیٹیون کو ان کو نہ دو، اور نہ انکی بیٹیون کو اپنے بیٹون اور اپنے لئے لے لو۔ (36)
۔ ہم نے تمھارے حدود اور سرحدیں بحیرہ فلسطین اور صحرا سے نہر فرات تک قرار دی ہیں۔ اس کئے کہ اس سرزمین کے باشندون کو ان کی سرزمین سے شہر بدر کردوگے۔ ان کے لئے خداوند کے ساتھ عہد نہ کرو ۔(38)
۔ کنعانیون کی سر زمین میں نہر فرات تک داخل ہوجاؤ ۔ ہم نے تمھارے سامنے اس سرزمیں کو پیش کردیا ہے۔ پس اس میں داخل ہوکر اس زمین پر جس کو خداوند عالم نے تمھارے آباؤاجداد ابراہیمؑ یعقوبؑ، اسحاقؑ ، کو ان کی ذریت کو دینے کی قسم کھائی ہے۔ تصرف کرو ۔(39)
۔ امتیون کو تمھاری میراث بنادونگا، اور زمین کے اطراف و اکناف کو تمھاری جاگیر قرار دونگا، ان کو اپنے آہنی عصاء سے مار ڈالوگے۔ کوزہ گر کی طرح ان کو ٹکڑے ٹکڑے کردوگے۔ (30)
۔ گوشت کھاؤ اور خون پیؤ تم صاران کا گوشت کھاؤ گے، اور دنیا کے امیرون اور رئیسون کا خون پیؤ گے ۔(31)
۔ ان لوگون کو ذبح کر ڈالنے کے لیئے بھیڑ بکریون کی طرح باہر کھینچ لو۔ اور ان کو روز قتل کرنے کے لئے آمادہ کرلو ۔ (23)
۔ خداوند عالم یعقوبؑ پر رحم فرماتے ہوئے اسرائیل کو دوبارہ منتخب کریگا، اور ان کو انکی زمینون میں مطمعن بنادے گا۔ نمہرباہ ان سے ملحق ہوکر خاندان یعقوبؑ سے متصل ہوجائین گے۔ اور (غیر یہودی) قومیں انکو اپنے مسکن تک لیجائینگی۔ خاندان اسرائیل ان (غیر یہودیون) کو خداوند کی زمینون پر اپنا غلام اور کنیز بنالینگے۔ اور بنی اسرائیل اپنے اسیرکرنے والون کو اسیر اور اپنے اوپر ظلم ڈھانے والون پر حکمرانی کرینگے۔(33)
(www.ERFAN..IR WWW.ANSARIAN.IR) (اقتصابات و حوالہجات ۔ حضرت استاد انصاریان۔۔
مندرجہ بالا۔ اقتصابات اور حوالہ جات، سے آپکو یہودی ذہنیت کا اندازہ ہوگیا ہوگا ،کہ یہودیت کس قدر غلیظ اور بدبودار مذہب ہے۔ اور جسکے بارے میں قرآن کریم نے بڑے صاف الفاظ میں تمام مسلمانون کو تاکید و تنبہ کی ہے ۔ کہ یہود اور نصارا کو اپنا دوست نہ سمجھو۔ یہ تمھارے کھلے دشمن ہیں۔
بنی اسرائیل ( یہودی) وہ قوم ہے، جو اپنے آپ کو ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء علیہ السلام کا حقیقی وارث سمجھتی ہے۔ اور اسی وجہ سے دیگر تما م الہامی ادیان و شریعتون کی تردید کرتی ہے۔ سوائے توریت کے جو حضرت موسیٰ علیہالسلام پر نازل ہوئی، اور اسمیں اہل یہود نے اسکے ساتھ جو ترامیم ، اور سامنے جو شکل نکل کر ائی وہ آپ کے سامنے ہے۔ جس سے انکی تہذیب اور اخلاقیات کا اندازہ ہوتا ہے۔
عیسائیت / مسیحیت
مسیحیت ایک توحیدی اور ابراہیمی ادیان میں سے ایک ہے۔ جسکے تابعین عیسائی کہلاتے ہیں۔ مسیحیت کے پیروکار حضرت عیسیٰ علیہالسلام کی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ مسیحیون میں بہت سے فرقے ہیں۔
1۔ کیتھولک۔ 2۔ پروٹیسٹنٹ۔ 3۔ آرتھوڈکس۔ 4۔ مارونی ۔ 5۔ ایونجیلک۔ وغیرہ۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام ؛ ۔ JUSES CRIST / JUSSES OF NAZARETH)
مسلمانون اور عیسائیون کے نزدیک ایک مقدس اور بزرگ ہستی ہیں۔ مسلمان انکو اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور عیسائیون میں دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو انہیں اللہ کا نبی مانتے ہیں۔ اور دوسرا وہ جو انہیں تثلیث کا ایک کردار مانتے ہیں۔ اور خدا کا درجہ دیتے ہیں، یعنی عقیدہ کے مطابق عیسیٰ علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔ (نعوذہ باللہ) مگر مسلمان اور کچھ عیسائیون کے مطابق اللہ یا خدا ایک ہے، اور اسکا کوئی اولاد یا شریک نہیں۔ جبکہ یہودی سرے سے انہیں نبی ہی نہیں مانتے، بلکہ یہ بھی نہیں مانتے کہ وہ بغیر باپ کے پیدا ہوئے ہیں، جبکہ مسلمانون اور عیسائیون دونون ، یہ عقیدہ رکھتے ہیں۔ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بٖغیر باپ کے ایک کنواری مان حضرت مریم علیہا السلام کے بیٹے پیدا ہوئے ( اللہ کی قدرت سے) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکار دنیا میں دو ارب کے قریب ہیں۔ جبکہ مسلمان انہیں اللہ کا برگزیدہ نبی مانتے ہیں اور انکی تعداد ڈیڑھ ارب ہے۔
انجیل:
ایک آسمانی کتاب ہے۔ جو کہ قرآن مجید میں بیان کردہ کتابون، تورات، زبور، کے بعد تیسری کتاب ہے۔ یہ بنی اسرائیل کی طرف مبعوث ہونے والے نبیؐ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی، موجودہ بائیبل کے عہد نامہ جدید کی پہلی چار کتابیں(اناجیل اربعہ) کہلاتی ہیں۔ جنکے نام یہ ہیں۔
1۔ متی انجیل:۔ کو نتی نے تحریر کیا۔ جو حضرت عیسیٰ ؐ کے شاگرد تھے۔ اسکو 60 تا 70 عیسوی کے درمیان شہر انطاکیہ میں تحریر کیا۔ انجیل میں متی نے صرف وہی واقعات قلمبند کئے ہیں ۔ جنکا وہ چشم دید گواہ تھا۔ یہ کتاب حضرت عیسیٰ ؐ کی پیدائش سے شروع ہو کر آپ کی موت اور آپ کے زندہ ہوجانے کے واقعات پر ختم کی ہے۔
مرقس انجیل؛۔
مرقس کا پورا نام یوحنا مرقس تھا۔ وہ پولس (جسے پولس رسول بھی کہا جاتا ہے) کا ساتھی تھا۔ اس نے اپنی عمر کا آخری حصہ روم میں گزارا۔ اور وہیں اس نے پطرس (جسے پطرس رسول بھی کہا جاتا ہے) کی ان باتون کو جو اسے یاد تھیں تحریر کیا ۔ یہ کتاب 60 تا 65 عیسوی میں تحریر کی گئی۔ اس کے مطالعے سے یون محسوس ہوتا ہے۔ کہ کوئی چشم دید گواہ اپنا مشاہدہ بیان کر رہا ہے۔ اس انجیل کا آخری حصہ حضرت عیسیٰؐ کی زندگی کے آخری ہفتہ کے واقعات پر مشتمل ہے۔ انجیل میں حضرت عیسیٰ ؐ کی عوامی خدمات کے واقعات اور خدا کی بادشاہی کی خوشخبری سے شروع ہوتی ہے۔ اسمیں حضرت عیسیٰؐ کی موت کی پیش گوئیان درج ہیں، اور حضرت عیسیٰؐ کے دنیا کے گناہون کی خاطر مصلوب ہونے کا ذکر ہے۔
مرقس اس کتاب میں حضرت عیسیٰؐ کو خدا کے ایسے خادم کے طور پر پیش کرتا ہے۔ جو خدا کی مرضی پوری کرنے آیا تھا، آپ بیمارون کو شفاء دیتے ، بد روحون پر فتح پاتے اور آپ کے مُردون میں سے جی اُٹھنے کو ہی عیسائی آپ کے ابن اللہ کے ثبوت گردنتے ہیں۔ مرقس کی اس انجیل سے یہ بھی مقصد بھی تھا۔ کہ رومی عیسائیون پر رومی بادشاہ اسوقت ظلم و ستم ، تہمت، ایذاء رسانی کے پہاذ تڑ رہے تھے۔ ان دنون میں بندی (قید) رہے۔
لوقا کی انجیل:۔
لوقا ایک طبیب تھا ، جو کئی بار پولس رسول کا ہمسفر رہ چکا تھا۔ ان کی انجیل غالباُ 60 تا 65 عیسوی میں ایک یونانی شخص تھیفلیس کے لیئے تحریر کی۔ لوقا اس انجیل میں حضرت عیسیٰؐ کو ایک منجی اور کامل انسان کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایک کنواری سے پیدا ہونے کے واقعہ سے ابتداء کرتا ہے۔ اس بارے میں جو معلومات اس نے بہم پہنچائیں وہ کہیں اور نہیں ملتیں۔ پھر وہ گلیل میں یسوع کی خدمت ، اسکے بعد آپکی یروشلم کی مسافرت کے حالات تفصیل سے لکھتا ہے۔ آخر میں یسوع کی صلیبی موت کے بعد آپ کے زندہ ہوجانے پر آپ کے شاگرد خوشی مناتے اور آسمان لسے نازل ہونے والی پاک روح کا انتظار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
جہان متی آپ کو انجیل میں عیسیٰؐ کو مسیح اور قرمس آپ کو خدا کا خادم کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ وہان لوقا آپ کو ایسے کامل انسان اور خداوند کے طور پر پیش کرتا ہلے۔ جسکا نسب آدم ؐ تک پہنچتا ہے۔(باب3۔آیت 28۔38)یسوع تاریخ عالم کے عظیم افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ لوقا آپ کو واقعات کا محور قرار دیتا ہے۔ یسوع کی تعلیم ۔ آپ کے اعمال ، آپ کی صلیبی موت ، اور آپ نے مردون میں جی اُٹھنے سے آپ کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔
یوحنا کی انجیل:۔
اسکا مصنف یوحنا رسول ہے۔ یہ انجیل 90 تا 96 عیسوی میں لکھی گئی۔ اس انجیل کا مقصد پڑھنے والے یسوع پر ایمان لائیں اور آپ کے نام سے زندگی پائیں۔ (باب-20، آیت 31) آپ کے معجزون کا جو دوسری کتابون میں درج نہیں کا ذکر ہے۔ یسوع کی موت کے بعد دوبارہ زندہ ہوجانے اور شاگردون سے ملنے کے واقعات درج ہیں۔ دوسری انجیلون کی بہ نسبت یسوع کی زندگی کی تفسیر اور تعبیر پر زیادہ زور دیا گیا ہے۔ آپکی شخصیت کیلئے کئی استعارے استعمال کئے گئے ہیں۔ مثلا ، نورحق، محبت، اچھا چرواہا، دروازہ، قیامت اور زندگی، اور حقیقی روٹی، وغیرہ (باب-14 تا17) میں جو مواد یہان بیان کیا گیا ہے۔ اس سے یسوع سے اسکی گہری محبت کا جو آپ ایمان لانے والون سے رکھتے تھے، کا اطمینان جو ایمان لانے سے حاصل ہوتا ہے، کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
دور حاضر میں عیسائیت کے پھیلے ہوئے عقائد اجمالا عیسائیون کے تین بڑے فرقے ہیں۔ (1) کئتھولک۔ (2) آرتھوڈک۔ (3) پروٹسٹینسٹ۔ یہ تمام فرقے حضرت عیسیٰؐ علیہ السلام کی الوہیت تثلیث اور عیسیٰؐ کے سولی دیئے جانے کے قائل ہیں۔ اور اعتقاد رکھتے ہیں، کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو حکم دیا اس درخت سے نہ کھائے، انہون نے شیطان کے بہکانے پر اس سے کھا لیا، توہ وہ خود اور انکی اولاد تباہی کی مستحق ٹھہری۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے بندون پر رحم فرمایا۔ پس اپنے کلمہ کو ظاہری جسم بخشاء جو اسکا ازلی بیٹا تھا۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتے جبرائیلؐ کو کنواری مریم کی طرف بھیجا اور انہیں نجات دہندہ کی بشارت دی، کہ وہ اس ازلی کلمہ کو جنے گی، اور وہ الہٰ کی والدہ بن جائے گی۔ اور وہ سولی کی موت پر راضی ہوگئے، تاکہ پہلی غلطی کا کفارہ بن سکیں، " تثلیث سے مراد ۔ اللہ باپ۔۔۔ اللہ بیٹا۔۔۔۔ اور مریم ؐ (کنواری مان) ۔
جبکہ قرآن پاک اسکی تردید کرتا ہے۔ جیسا کہ پچھلے باب میں بتایا گیا۔ کہ عیسائیون میں ایک فرقہ حضرت عیسیٰؐ کو اللہ پاک کا بندہ مانتے ہیں۔ لیکن انکی تعداد کم ہے۔ نسبت انکے جو عیسیٰؐ کو اللہ کا بیٹا مانتے ہیں ۔ اور کفر پر قائیم ہیں۔ اس فرقے کو بھی یہودیون کی مکمل سرپرستی اور حمایت حاصل ہے۔ کیونکہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبی مانتے ہی نہیں۔
جب انسان ایک غلطی کرتا ہے۔ تو پھر کرتا ہی چلا جاتا ہے، اور یہی کچھ رتاریخ ِ انسان میں ہوا۔ اور آدم علیہ السلام سے اسکا آغاز ہوا۔ اور آج تک ہوتا چلا آرہا ہے۔ بنی نوع انسان، جسے اللہ پاک کے فیہم و فراست عطاء کی عقل و شعور عطاء فرمایا، اور اپنے بے پناہ علم میں سے علم عطاء فرمایا، نیکی اور بدی کا ادراک دیا۔ زندگی گزارنے اور سنوارنے کا سلیقہ عطاء فرمایا۔ فکر اور غور کرنے کی صلاحیت عطاء فرمائی۔ ایمان اور یقین کی دولت عطاء فرمائی۔ اتنا سب کچھ عطاء کرنے کے باوجود، انسان غلطیان کرتا رہا، حکم عدولیان کرتا رہا۔ نافرمانیان کرتا رہا۔ گستاخیان کرتا رہا۔ اتنی نعمتین مل جانے کے باوجو د ناشکریان ، اور شہزوریان دیکھاتارہا۔ اور اللہ پاک وہ جو علیم و خبیر ہے، رحمان و رحیم ہے، کریم و غفور ہے۔ اپنے بندے کے کرتوت دیکھتا رہا۔ اور ہر دور میں انسان کی فلاح، خیر، ہدایت ، سلامتی، نصیحت کے لئے اپنے انبیاء، رسول، اور پیغمبر بھیجتا رہا۔ اور راہنمائی کے لئے اپنے صحیفے نازل کرتا رہا۔
لیکن انسان، بے اوقات انسان، جسکی تعریف اور اوقات ، صرف خون کا ایک گندہ قطرہ ہے، ایک ناپاک قطرہ اور کچھ بھی نہیں، کبھی، فرعون کی شکل میں کبھی نمرود کی شکل میں کبھی شداد کی شکل میں اپنی اوقات بھول کر خدائی، کے دعوے کرتا رہا۔ اور کر رہا ہے۔ اور اسکے مقابلے پر اترا ہوا ہے۔ کیا یہ نہیں جانتا کہ ایک گڑھا اسکے لئے تیار ہے۔ کیا انسان آج ، فرعون، نمرود، شداد کے انجام سے واقف نہیں، کیا نہیں جانتا، کہ اللہ پاک نے بےحیا، خوسر، اور باغی قومون کا کیا حشر کیا، وہ آج بھی نشان عبرت بنے ہوئے، نظر آتے ہیں۔ اس بات کا اندازہ اسبات سے لگائیں۔ کہ دنیا کے کسی ملک میں کسی مذہب میں، کسی قوم میں آپ کو ایک آدمی بھی فرعون، ہامان، نمرود، شداد نام کا نہیں ملے گا۔
یہودی نسل وہ نسل ہے جو صدیون سے اللہ پاک کی ذات کی نفی، بغاوت اور سرکشی کرتی چلی آرہی ہے۔ اور اپنے وجود کو برقرار بھی رکھے ہوئے ہے۔ جبکہ آبادی اور افرادی قوت کے لحاظ سے بھی کم ہونے کے باوجود پوری دنیا کے انسانون ، کے معاشی، اخلاقی، ثقافتی، اور تہذیبی اقدار پر حکومت کرتی نظر آتی ہے۔ جبکہ اپنے آپ کو یہ قوم ہر قسم کی اخلاقی اور تہذیبی اقدار سے بالاتر سمجھتی ہے۔ جہان تک مجھ جیسے ناقص العقل کی سمجھ میں بات آتی ہے۔ وہ یہ کہ انہون نے اپنے برسون پرانے احداف کو کبھی فراموش نہیں ، کیا۔ مسلسل تحقیق میں لگے ہوئے ہیں، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ عقل اور علم سے کام لیتے ہیں۔ تعلیمی میدان میں تحقیقی میدان میں ہر وقت مصروف عمل نظر آتے ہیں۔ اور برسون کی پلاننگ کرتے ہیں۔ اور مسلسل کر رہے ہیں۔ آج امریکہ جیسی طاقت اور ملک کی سیاسی، صنعتی، معاشی، سماجی، اخلاقی، پالیسیان انکی مرہون منت بنتی اور بگڑتی ہیں۔ انکے تھیک ٹینک ادارے مسلسل کام میں لگے ہوئے ہیں۔ انکے ادارے دنیا کی معیشت کو منٹون میں تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آج وہ جس ملک میں چاہیں سیاسی تبدیلی لاسکتے ہیں۔ اپنی اس غاصبانہ اور نہیمانہ کاروائیون کو جب چاہیں بین الاقوامی طور پر منواسکتے ہیں۔ اور پوری دنیا کی اقوام انکا ساتھ دینے کو ہر وقت تیار رہتی ہیں۔ وہ تہذیب اور کردار کے ہر میعارسے مبرا ہیں۔ آج بھی اگر دیکھا جائے تو انکی نظر میں صرف اور صرف اسلامی دنیا سے خطرہ ہے، جسکے پیچھے وہ گزشتہ چودہ سو سال سے پڑے ہوئے ہیں،
دنیا جانتی ہے۔ بلکہ سب سے زیادہ ہم انہیں جانتے ہیں۔ ہر مسلمان اسبات کو جانتا ہے۔ کہ یہودی اسلامی تہذیب ، تمدن، تعلیمات سے خوف ذدہ ہیں۔ گزشتہ مضمون ( فکری اور ثقافتی یلغار اور عالم اسلام) میں، میں نے اپنے ان خدشات کا اظہار کیا تھا۔ اور وضاحت کی تھی، ہم عسکری جنگ امریکہ سے جیت چکے ہیں، لیکن فکری یلغاراور ثقافتی جنگ میں وہ ہم سے بہت آگے ہیں۔
اگر ہم عرب کے مسلمان حکمرانون اور ریاستون کی طرف دیکھتے ہیں۔ تو اندھیرے کے سوا ہمیں کچھ نہیں نظر آتا۔ عرب کے حکمران، اور امراء انکے ہاتھون میں کٹھ پتلی بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ گزشتہ دو دھائیون سے چند عرب ممالک میں ، اسلام پسند تحریکین، یہودیون سے بر سرپیکار ہیں۔ اور اسلامی اقدار کے لئے کام کر رہی ہیں۔ اسوقت یہودی اور انکے حواری نصارٰ کی نظر یں صرف اور صرف پاکستان اور پاکستان کے مسلمانون پر اور افغانستان کے مجاہدین بری طرح کھٹک رہے ہیں ۔ اور اسوقت وہ اپنے تمام تر وسائل سرف اسبات پر صرف کررہے ہیں۔ کہ کسی طرح پاکستان کو ختم کردیا جائے۔ یا یہان پر ویسے ہی حکمران مسلط کئے جائیں، جو مشرف جیسے ہون۔
آج پاکستان ، کے ہر شعبہ ہائے زندگی میں ، چاہے وہ سیاست،تعلیم، معیشیت، دفاعی، صنعتی، رفاعی، مذہبی، سماجی، ثقافتی، ترقیاتی، غرض ہر جگہ انکے پالتو ضمیر فروش کتے موجود ہیں۔ جن میں چند تو عیان ہوچکے ہیں، اور کچھ ابھی پوشیدہ ہیں۔ اسکے علاوہ انکی بدنام زمانہ دہشت گرد تنظیمیں، فری میسن، الومناٹی، کے خفیہ کلب اور پاکستان میں کھل چکے ہیں۔ غیرمصدقہ اطلاعات کے مطابق، کراچی کے قریب ایک بڑا فارم ہاؤس انکی سرگرمیون کا مرکز ہے۔ اور کام کر رہا ہے۔
یہ وہ وقت ہے، کہ پاکستان کا ہر شہری، ہر مسلمان پاکستانی اپنے آپ کو ہوش میں لائے، چاہے وہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو۔ اپنے آپ کو اور اپنے رفیقون کو اس راستے پر لائے ، جو ہماری بقاء اور اسلام کی سربلندی کی طرف جاتا ہے۔ ملک میں صرف اور صرف اسلامی شرعی حکومت کے قیام کی کوشش کرے۔ اپنے فروحی اختلافات کو بھلا کر ایک سچے مسلمان کی طرح میدان عمل میں آکر اپنی اپنی ذمہ داریون کا ادراک کرے ، سمجھے اور عمل میں لائے۔
یقین رکھیں اللہ پاک نے اسلام کی دین کی ذمہ داری ہم مسلمانون پر ڈالی ہے۔ اور بحیثیت مسلمان اور ایک زندہ قوم کے ہمیں میدان عمل میں ۔ آکر نبی کریم ﷺ کی اس حدیث ، اور قرآن کی اس آیت پر عمل کرناہے۔ ( ائے محمد ﷺ ان یہود نصاراٰ پر بھروسہ مت کیجئے ، یہ تمھارے سخت دشمن ہیں) (کمی بہشی معاف)
آج وہ وقت آگیا ہے۔ کہ ہم پورے کے پورے اسلام میں داخل ہوجائیں، اور عملی طور پر اپنائیں، اللہ پاک کے احکامات اور نبی کریم ﷺ کی سنتون پر عمل کریں۔ اور اللہ سے استغفار کریں۔ اور اپنے نظریاتی ، فکری ، تہذیبی دشمن کے خلاف صف آراء ہوجائیں، بے حیائی، کے کامون سے اجتناب کرین۔ اسلامی شعار کو اپنائیں۔ اپنے غیر ضروری سرگرمیان ختم کردین۔ اور زیادہ سے زیادہ ، اپنا وقت دینی تعلیمات حاصل کرنے میں صرف کرین۔
یاد رکھیں عسکری جنگ وہ ہم سے ہار چکے ہیں۔ ہم صرف فکری اور تہذیبی، اور اخلاقی جنگ میں پیچھے ہیں۔ اور یہ جنگ ہم اسی وقت جیت سکتے ہیں۔ کہ اپنے نظریات، اخلاقیات، اور فکری محاذ پر چوکنے ہوکر ڈٹ جائیں۔
آج مجھے جنگ خندق یاد آرہی ہے، جب مدینہ کے تاجدار محمد ﷺ اپنے ہاتھون سے مدینہ کے اطراف میں خندق کھود رہے تھے، اور صحابہ بھی آپ کے ہمراہ تھے۔ بھوکے پیاسے، ایک صحابی اضی تعالیٰ عنہ آپ کے پاس آئے اور اپنے پیٹ پر سے قمیض اٹھاکر حضور ﷺ کو دیکھایا۔ بھوک کی وجہ سے انہون نے ایک پتھر پیٹ ہر باندھ رکھا تھا۔ میرے حضورﷺ نے مسکرا کر دیکھا، اور اپنی قمیض اٹھاکر دیکھایا، جہان دو پتھر بندھے ہوئے تھے ( اللہ اکبر) آج ہمارا بھی اسی طرح گھراؤ کیا گیاہے۔ دریاؤن میں پانی کی کمی ہے، زمینن ہماری بنجر ہورہی ہیں۔ بجلی ہمارے پاس نہیں، صنعیتں ہماری بند ہورہی ہیں۔ بے روزگاری اور دہشت گردی، ٹاگٹ کلینگ، بھتہ خوری اغوا برائے تاوان، کیا یہ سب کچھ جنگ خندق کی طرف تو نہں لے جارہے ہمٰیں۔ (میں بھی سوچتا ہوں ۔۔ آپ بھی سوچیں)
وسلام: فاروق سعید قریشی۔