حوصلہ
کریم بخش نے چالیس برس محنت مزدوری کی۔ بیوی بچوں کا مخلص ساتھ نبھایا۔ کہیں سے شرینی بھنڈارا ملتا‘ تو وہ اسے بھی بڑی دیانت سے‘ گھر لے آتا۔ اس میں سے‘ رائی بھر اپنے منہ میں نہ ڈالتا۔ اس کی کوشش رہی کہ ہر ممکنہ خوشی‘ اپنے بیوی بچوں کو فراہم کرے۔ یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے‘ کہ کوشش کے باوجود انہیں آسودہ‘ خوش حال اور بڑے لوگوں کی سی‘ سہولیات میسر نہ کر سکا۔
سکا ان پڑھ تھا۔ بچپن میں ہی والدین چل بسے تھے۔ لوگوں کے دروازے پر رل خل کر بڑا ہوا۔ ماموں نے‘ محنتی اورمشقتی دیکھتے ہوئے‘ رشتہ دے دیا۔ یہ بھی بہت بڑی بات تھی‘ ورنہ ا س سے لوگوں کو کون پوچھتا ہے۔ الله نے کرم فرمایا اور تین بیٹوں اورایک چاند سی بیٹی سے نوازا۔ اس نے چاروں پر‘ برابر کی محبت اور مشقت نچھاور کی۔ بلاشبہ یہ اس کا فرض اور بچوں کا حق تھا۔ اب وہ بوڑھا‘ کم زور اور بیمار ہو چکا تھا۔ بچے جوان ہو چکے تھے۔ اسے ان کی توجہ کی ضرورت تھی۔ اسے اس کے اپنے ہی گھر میں‘ اس کے ان اپنوں میں سے‘ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اس کی بیوی سعیدہ اسے سارا دن کوسنے دیتی رہتی تھی۔ شام کو تینوں بیٹے کوئی ناکوئی جلی کٹی سنا دیتے۔ ہاں مقبولاں‘ اس کی بیٹی‘ اس سے ہم دردی رکھتی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں‘ اسے بھی رگڑا مل جاتا‘ حالاں کہ وہ سب کی خدت کرتی تھی۔ سگے بھائیوں کی کٹھور دلی پر‘ سسک پڑتی اور بھلا کر بھی کیا سکتی تھی۔
دونوں باپ بیٹی‘ گلی کے کتے سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ اس دن تو تینوں بیٹوں اور سعیدہ نے حد ہی کر دی۔ مقبولاں نے کہا‘ ابا تم کہیں منہ کر جاؤ‘ تمہارے لیے اس گھرمیں گنجائش نہیں رہی۔ کریم بخش کو بیٹی کی بےچینی اور پریشانی نے‘ ساری رات سونے نہ دیا۔ اس نے سوچا‘ کاش وہ مر ہی گیا ہوتا۔ اس نے کوچ کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر سورج چڑھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل گیا۔
اب اس کے حوصلے نے‘ یکسر جواب دے دیا تھا۔ اس سے زیادہ‘ برداشت کرنے کی اس میں ہمت ہی نہ تھی۔ دکھ‘ افسوس اور پرشانی سے وہ نڈھال ہوگیا تھا۔ وہ ان کے لیے جیا تھا۔ اسے ہر لمحہ‘ ان کی بھوک پیاس کی فکر لگی رہتی تھی۔ آج جب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ اس اکیلے کے‘ دو لقمے ان پر بھاری ہو گیے تھے۔ بیٹی بےچاری‘ اس کے لیے کیا کر سکتی تھی۔ وہ تو خود‘ زر خرید غلاموں کی سی زندگی کر رہی تھی۔ کسی دربار پر‘ اسے اس سے کہیں بہتر‘ روٹی مل سکتی تھی۔ ایسے باوارث لاوارثوں کے لیے‘ صوفیا کرام کے دربار‘ کہیں بہتر ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں۔
حاجی صاحب کے پاس‘ الله کا دیا سب کچھ تھا۔ دوست عزیز اور رشتہ داروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ گھر میں ایک چھوڑ‘ دو بیویاں تھیں۔ نوکر چاکر‘ خدمت کے لیے موجود تھے۔ کامیاں اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ان سب کے ہوتے‘ وہ زندگی کو ادھورا اور کھوکھلا محسوس کرتے تھے۔ یہ سب کچھ‘ ان کے لیے بےمعنی اور لایعنی تھا۔ یہ اپنے ان کے لیے غیر تھے۔ اکثر کہتے آج آنکھ بند کرتا ہوں‘ تو یہ سب غیروں کا ہو گا۔ بےاولاد ہونے سے بڑھ کر‘ کوئی اور دکھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی نے مشورہ دیا‘ حاجی صاحب کسی گریب سے‘ بیٹا یا بیٹی گود کیوں نہیں لے لیتے۔ مشورہ معقول تھا۔ انہوں نے بڑا غور کیا۔ پھر فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی بچے کو گود ہی لے لیتے ہیں۔
سجاد آج بہت غمگین سا تھا۔ خاور نے پوچھا‘ یار اتنے پریشان سے کیوں ہو۔ اس نے اداس لہجے میں کہا‘ یار پہلے ہی الله نے تین بیٹیاں دے رکھی ہیں‘ آج رات کو چوتھی بھی ٹپک پڑی ہے۔ سوچا تھا‘ اس بار الله بیٹا دے دے گا‘ مگر ہم گریبوں کی اتنی اچھی قسمت کہاں۔ سجاد نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو‘ ہر کوئی اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے۔ اس نے جوابا کہا‘ قسمت کیا ساتھ لانی ہے‘ مزید بوجھ پڑنا تھا‘ وہ پڑ گیا ہے۔ کس بوتے پر دل کو تسلی دوں۔
خاور حاجی صاحب کے ہاں ملازم تھا۔ اس نے حاجی صاحب کو سجاد کی پریشانی کے متعلق بتایا۔ حاجی صاحب نے‘ سجاد کی نومولود بچی کو گؤد لینے کی ٹھان لی۔ پھر وہ خود‘ بڑی بیگم صاحب کو ساتھ لے کر سجاد کے گھر چلے آئے۔ خاور کو انہوں نے وہاں آ جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ سجاد کو حیرانی کے دورے پڑ رہے تھے۔ گویا چونٹی کے گھر‘ ازخود بن بلائے نرائن چلے آئے تھے۔ حاجی صاحب نے آج تک دیا ہی تھا‘ کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے‘ کہ بات کس طرح سے کریں۔ خاور نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ سجاد نے خوشی خوشی بچی حاجی صاحب کی گود میں ڈال دی۔ ننھی سی جان کو گود میں دیکھ کر‘ حاجی صاحب مسرور ہو گیے اور الله کا شکرادا کیا۔
حاجی صاحب نے سجاد کو رنگ دیا۔ سجاد کے لیے یہ بچی لکشمی دیوی ثابت ہوئی۔ انہوں نے کسی دور دراز علاقہ میں‘ اسےاس کے نام سے‘ مکان خرید دیا۔ ساتھ میں‘ اسے ایک کاروبار بھی شروع کرا دیا۔ سجاد دنوں میں‘ علاقہ کا معزز شہری بن گیا۔ پہلے وہ علاقہ کے معزز شہریوں کو سلام کہتا تھا‘ اب لوگ اسے سلام بولاتے تھے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ وقت کی کروٹ سے‘ کب کوئی آگاہ ہو سکا ہے۔ کب کیا ہو جائے‘ آج تک کسی پر نہیں کھل سکا۔
وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچی‘ جس کا نام راحیلہ رکھا گیا تھا‘ لاڈ پیار اور ان گت آسائشوں میں بڑی ہوئی۔ اچھی درس گاہوں میں پڑھی۔ حاجی صاحب بوڑھے ہو گیے تھے۔ انہیں راحیلہ کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ رشتے تو بہت آتے تھے‘ لیکن ان کی پسند کا معیار بالکل مختلف تھا۔ انہیں لاڈوں پلی راحیلہ کے لیے‘ شاید کوئی فوق الفرت خوبیوں کا حامل لڑکا درکار تھا۔ پھر ایک دن‘ بلند حوصلہ کے مالک حاجی صاحب کے مرنے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ ان کی موت‘ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ راحیلہ بگو حجام کے لڑکے‘ قادر کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ حاجی صاحب یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ بڑی بیگم صاحب‘ اس صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ چند لمحوں میں‘ کچھ کا کچھ ہو گیا۔ جو ہوا‘ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اتنے بڑے جگرے کے مالک بےوجود ہو چکے تھے۔ وہ اپنی اصل میں‘ ان کی کچھ بھی نہ تھی۔ انہوں نے اسے محض پالا پوسا تھا۔ اس کے باوجود‘ وہ ان کا سب کچھ ہو گئی تھی۔
نذیراں ان پڑھ‘ بےسلیقہ اور کچن کے امور میں بالکل کوری اور پیدل تھی۔ خوب صورت ہونے کی غلط فہمی‘ ہمیشہ اس کے سر پر‘ سوار رہتی۔ خاوند کے رشتہ دار‘ اسے کبھی ایک آنکھ بھی نہ بھائے تھے۔ اس پہ طرہ یہ کہ زبان اور کردار بھی‘ صفائی ستھرائی سے بالاتر تھے۔ ایک روایت کے مطابق ایک جگہ سے‘ دوسری روایت کے مطابق دو جگہوں سے‘ اسے ان چار خوبیوں کی بنا پر‘ طلاق ہو چکی تھی۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث‘ ہر کوئی رشتہ کے حوالہ سے‘ ان کے گھر کے قریب سے بھی گزرنے سے ڈرتا تھا۔ اس کا باپ امام مسجد تھا‘ اس ناتے لالچ‘ ہوس‘ آنکھ کی بھوک اور ناشکری گھٹی میں میسر آئی تھی۔ آوارہ فکری‘ ماں کی طرف سے دودھ میں ملی تھی۔
منظور صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی کی یک پسری پر‘ ہر وقت پریشانی رہتی۔ وہ چاہتے تھے‘ چلو زیادہ نہیں‘ جوڑی تو ہو جائے۔ رضی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ تھی۔ رشتے تو بہت تھے‘ لیکن صفدر عقد ثانی کے رپھڑ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ وہ موجود پر قانع تھا۔ آخر منظور صاحب نے‘ بھائی کو قائل کر ہی لیا۔ بہت سے رشتوں میں سے‘ کسی کے کہنے پر‘ نذیراں کو اس لیے پسند کر لیا گیا‘ کہ ٹھکرائی ہوئی ہے‘ غریب اور دیہاتی ہے‘ خدمت کرے گی‘ ساتھ میں الله اولاد بھی عطا فرما دے گا۔
نذیراں کو کوئی زنانہ مرض لاحق تھا‘ جس کا علاج کروایا گیا۔ الله نے‘ منظور صاحب کو ایک بھتیجے سے نوازا۔ الله کے اس احسان پر‘ سب خوش ہوئے۔ دوسری طرف یہ بھی کھلی حقیقت تھی‘ کہ پوتڑوں کے بگڑے کم ہی سنورتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہو جانے کے باعث‘ نذیراں کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔ صفدر نے دوسری سے تیسری بار پانی مانگ لیا‘ تو کہتی مجھ سے یہ سیاپا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہہ دیتی: مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ جب بولتی‘ قیامت ہی توڑ دیتی۔ صفدر کا چہرا دیکھتے ہی‘ جانے اسے کیا ہو جاتا‘ بلاوجہ اور بغیر کسی بات کے لڑنا شروع دیتی۔ حرامدہ‘ کنجر‘ سکھ‘ کافر‘ بےبنیادا وغیرہ ایسے کلمات‘ کہہ جاتی۔ صفدر ننھی سی جان کو دیکھ کر‘ برداشت کر جاتا۔
بھائی کے اس ناہنجار تحفے پر‘ سسک کر رہ جاتا۔ اس نے نذیراں کے سامنے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں پڑا‘ اپنے سر پر جوتے مارے اور کہا‘ اگر میں برا ہوں تو تم ہی اچھی بن کر دکھا دو‘ مگر کہاں۔ صفدر کا اصل قصور‘ شریف اور پڑھا لکھا ہونا تھا۔ اگر کبھی بیمار پڑ جاتا‘ خدمت تو دور کی بات‘ کہتی‘ جاؤ یہاں سے میرے سر نہ چڑھنا۔
بے پوچھے‘ گھر سے چلے جانا اور دیرتک باہر رہنا‘ سب سے زیادہ تکلیف دہ حرکت تھی۔ گھر لوٹنے کے پعد‘ صفدر کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی‘ بکواس کرنا شروع کر دیتی۔ مت مار کر رکھ دیتی۔ ایک بار‘ صفدر نے اپنے سسر کو بلایا اور اس کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر کہا‘ خدا کے لیے اس کو ساتھ لے جاؤ اور اس کو سمجھاؤ۔ تین چار دن بعد‘ ڈنگ مزید تیز کرکے واپس آ گئی۔ آخر وہ امام مسجد تھا‘ تفرقہ نہیں ڈالے گا‘ تو کھائے گا کہاں سے۔ صفدر ابھی تک پاگل نہیں ہوا تھا۔ مرا بھی نہ تھا۔ پہاڑ حوصلے کا مالک ہو کر بھی‘ عارضہءقلب کا شکار ہو گیا۔
عزازئیل اپنے سے برتر سے منحرف ہوا‘ کیوں کہ اس کے ظرف کی وسعت ہی اتنی تھی۔ معافی کی طرف نہ آیا‘ بلکہ منفی رستوں پر چل پڑا۔ آدم کو برتر تسلیم کرنا‘ اس کے حوصلے سے باہر تھا۔ وہ الله کے ظرف سے آگے کیسے نکل سکتا تھا۔ مخلوق اور خالق کے ظرف کا انتر‘ اس سے باخوبی ہو سکتا ہے۔
نمرود اپنے وجود سے باہر ہوا‘ خدا تو بہت آگے کا معاملہ ہے‘ وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی برتری تسلیم کرنے کے لیے‘ تیار نہ تھا۔ کسی کو‘ خود سے برتر تسلیم کرنے کے لیے بھی‘ حوصلہ درکار ہوتا ہے‘ کہاں سے لاتا اور پھر اپنی ہی کرنی میں پکڑا گیا۔ چار سو سال‘ چھتر افشانی برداشت کرتا رہا۔ عبرت پکڑ کر‘ توبہ کے دروازے پر نہ آیا۔
یہ ہی معاملہ‘ فرعون کے ساتھ درپیش تھا۔ تھوڑ ظرفی‘ تکبر اور غصہ نے‘ اس کے حواس معطل کردیے تھے۔ تب ہی تو‘ دریا میں گھوڑے ڈال دیے۔ حواس باقی ہوتے‘ تو یہ غلطی نہ کرتا۔
قارون کے پاس وافر لقمے تھے۔ ان میں سے چند ایک لقمے دے دینے سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اتنا حوصلہ لاتا کہاں سے‘ تھا ہی نہیں۔ الله تو ماننے اور نہ ماننے والوں کو بھی دیتا ہے۔ مقررہ سے‘ ایک سانس بھی‘ منہا نہیں کرتا۔
کوئی کتنا بھی حوصلے والا کیوں نہ ہو‘ دکھ کے میدان میں‘ قدم چھوڑ دیتا ہے۔ مخلوق کا حوصلہ‘ بموجب ظرف حدود میں رہتا ہے۔ حوصلہ جب مجوزہ حدود سے باہر قدم رکھتا ہے‘ تو کٹا یا دیمک زدہ برگد بھی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ انسان اور خدا میں‘ یہ ہی فرق ہے‘ کہ وہ ہر حالت اور ہر صورت میں‘ قائم بذات رہتا ہے۔ ساری مخلوق اس کی تخلیق ہے‘ اور ایسی ان حد مخلوقات بیک جنبش‘ تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ ایسا ان حد مرتبہ کرئے‘ تو بھی کچھ اس کے ظرف سے باہر نہ ہو گا۔ مخلوق اور خدا کی ذات گرامی میں‘ یہ ہی بنیادی فرق ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا ہو جائے‘ ان حد حوصلے اور ظرف کا مالک نہیں ہو پاتا۔ منفی کے ردعمل میں‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یا کر سکتا ہے۔ مجبوری اور بےسی کی حالت میں‘ اسی کی طرف پھرتا ہے۔ متکبر لوگوں کو‘ اپنی کھال میں رہنا چاہیے‘ ورنہ ان کی اپنی ہی بدحوسی کی لاٹھی‘ انہیں برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ لوگ اسے قسمت کے کھیل کا نام دیتے ہیں‘ حالاں کہ یہ قسمت کا کھیل نہیں ہوتا‘ وہ تو اپنے کیے کا پھل‘ اپنے ہی ہاتھوں سے پا رہے ہوتے ہیں۔
یہ کہانی کار خدا بخش‘ جو کسی زمانے میں‘ ڈیرے کی جان ہوا کرتا تھا‘ کی آخری کہانی تھی۔ اس کے بعد اسے‘ چودھری کے ڈیرے پر آنا نصیب نہ ہوا۔ صفدر کی کہانی تک‘ سب کچھ گوارہ تھا‘ اس کے بعد کی کتھا میں‘ اگرچہ چودھری صاحب کا ذکر تک نہ تھا‘ لیکن یہ سب کچھ اس نے‘ چودھری صاحب کی طرف منہ کرکے کہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے‘ نفرت اور بغاوت کی زہریلی شعاعیں نکل رہیں تھیں۔
کریم بخش نے چالیس برس محنت مزدوری کی۔ بیوی بچوں کا مخلص ساتھ نبھایا۔ کہیں سے شرینی بھنڈارا ملتا‘ تو وہ اسے بھی بڑی دیانت سے‘ گھر لے آتا۔ اس میں سے‘ رائی بھر اپنے منہ میں نہ ڈالتا۔ اس کی کوشش رہی کہ ہر ممکنہ خوشی‘ اپنے بیوی بچوں کو فراہم کرے۔ یہ اپنی جگہ پر حقیقت ہے‘ کہ کوشش کے باوجود انہیں آسودہ‘ خوش حال اور بڑے لوگوں کی سی‘ سہولیات میسر نہ کر سکا۔
سکا ان پڑھ تھا۔ بچپن میں ہی والدین چل بسے تھے۔ لوگوں کے دروازے پر رل خل کر بڑا ہوا۔ ماموں نے‘ محنتی اورمشقتی دیکھتے ہوئے‘ رشتہ دے دیا۔ یہ بھی بہت بڑی بات تھی‘ ورنہ ا س سے لوگوں کو کون پوچھتا ہے۔ الله نے کرم فرمایا اور تین بیٹوں اورایک چاند سی بیٹی سے نوازا۔ اس نے چاروں پر‘ برابر کی محبت اور مشقت نچھاور کی۔ بلاشبہ یہ اس کا فرض اور بچوں کا حق تھا۔ اب وہ بوڑھا‘ کم زور اور بیمار ہو چکا تھا۔ بچے جوان ہو چکے تھے۔ اسے ان کی توجہ کی ضرورت تھی۔ اسے اس کے اپنے ہی گھر میں‘ اس کے ان اپنوں میں سے‘ کوئی پوچھنے والا نہ تھا۔ اس کی بیوی سعیدہ اسے سارا دن کوسنے دیتی رہتی تھی۔ شام کو تینوں بیٹے کوئی ناکوئی جلی کٹی سنا دیتے۔ ہاں مقبولاں‘ اس کی بیٹی‘ اس سے ہم دردی رکھتی تھی۔ اس جرم کی پاداش میں‘ اسے بھی رگڑا مل جاتا‘ حالاں کہ وہ سب کی خدت کرتی تھی۔ سگے بھائیوں کی کٹھور دلی پر‘ سسک پڑتی اور بھلا کر بھی کیا سکتی تھی۔
دونوں باپ بیٹی‘ گلی کے کتے سے بدتر زندگی گزار رہے تھے۔ اس دن تو تینوں بیٹوں اور سعیدہ نے حد ہی کر دی۔ مقبولاں نے کہا‘ ابا تم کہیں منہ کر جاؤ‘ تمہارے لیے اس گھرمیں گنجائش نہیں رہی۔ کریم بخش کو بیٹی کی بےچینی اور پریشانی نے‘ ساری رات سونے نہ دیا۔ اس نے سوچا‘ کاش وہ مر ہی گیا ہوتا۔ اس نے کوچ کر جانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر سورج چڑھنے سے پہلے ہی گھر سے نکل گیا۔
اب اس کے حوصلے نے‘ یکسر جواب دے دیا تھا۔ اس سے زیادہ‘ برداشت کرنے کی اس میں ہمت ہی نہ تھی۔ دکھ‘ افسوس اور پرشانی سے وہ نڈھال ہوگیا تھا۔ وہ ان کے لیے جیا تھا۔ اسے ہر لمحہ‘ ان کی بھوک پیاس کی فکر لگی رہتی تھی۔ آج جب وہ بوڑھا ہو گیا تھا‘ اس اکیلے کے‘ دو لقمے ان پر بھاری ہو گیے تھے۔ بیٹی بےچاری‘ اس کے لیے کیا کر سکتی تھی۔ وہ تو خود‘ زر خرید غلاموں کی سی زندگی کر رہی تھی۔ کسی دربار پر‘ اسے اس سے کہیں بہتر‘ روٹی مل سکتی تھی۔ ایسے باوارث لاوارثوں کے لیے‘ صوفیا کرام کے دربار‘ کہیں بہتر ٹھکانہ ثابت ہوتے ہیں۔
حاجی صاحب کے پاس‘ الله کا دیا سب کچھ تھا۔ دوست عزیز اور رشتہ داروں کی بھی کمی نہ تھی۔ ہر کوئی ان کی عزت کرتا تھا۔ گھر میں ایک چھوڑ‘ دو بیویاں تھیں۔ نوکر چاکر‘ خدمت کے لیے موجود تھے۔ کامیاں اپنے فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ان سب کے ہوتے‘ وہ زندگی کو ادھورا اور کھوکھلا محسوس کرتے تھے۔ یہ سب کچھ‘ ان کے لیے بےمعنی اور لایعنی تھا۔ یہ اپنے ان کے لیے غیر تھے۔ اکثر کہتے آج آنکھ بند کرتا ہوں‘ تو یہ سب غیروں کا ہو گا۔ بےاولاد ہونے سے بڑھ کر‘ کوئی اور دکھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کسی نے مشورہ دیا‘ حاجی صاحب کسی گریب سے‘ بیٹا یا بیٹی گود کیوں نہیں لے لیتے۔ مشورہ معقول تھا۔ انہوں نے بڑا غور کیا۔ پھر فیصلہ کر لیا کہ وہ کسی بچے کو گود ہی لے لیتے ہیں۔
سجاد آج بہت غمگین سا تھا۔ خاور نے پوچھا‘ یار اتنے پریشان سے کیوں ہو۔ اس نے اداس لہجے میں کہا‘ یار پہلے ہی الله نے تین بیٹیاں دے رکھی ہیں‘ آج رات کو چوتھی بھی ٹپک پڑی ہے۔ سوچا تھا‘ اس بار الله بیٹا دے دے گا‘ مگر ہم گریبوں کی اتنی اچھی قسمت کہاں۔ سجاد نے سمجھایا کہ فکر نہ کرو‘ ہر کوئی اپنی قسمت ساتھ لاتا ہے۔ اس نے جوابا کہا‘ قسمت کیا ساتھ لانی ہے‘ مزید بوجھ پڑنا تھا‘ وہ پڑ گیا ہے۔ کس بوتے پر دل کو تسلی دوں۔
خاور حاجی صاحب کے ہاں ملازم تھا۔ اس نے حاجی صاحب کو سجاد کی پریشانی کے متعلق بتایا۔ حاجی صاحب نے‘ سجاد کی نومولود بچی کو گؤد لینے کی ٹھان لی۔ پھر وہ خود‘ بڑی بیگم صاحب کو ساتھ لے کر سجاد کے گھر چلے آئے۔ خاور کو انہوں نے وہاں آ جانے کے لیے کہہ دیا تھا۔ سجاد کو حیرانی کے دورے پڑ رہے تھے۔ گویا چونٹی کے گھر‘ ازخود بن بلائے نرائن چلے آئے تھے۔ حاجی صاحب نے آج تک دیا ہی تھا‘ کبھی کسی سے کچھ مانگا نہیں تھا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہے تھے‘ کہ بات کس طرح سے کریں۔ خاور نے ان کی مشکل آسان کر دی۔ سجاد نے خوشی خوشی بچی حاجی صاحب کی گود میں ڈال دی۔ ننھی سی جان کو گود میں دیکھ کر‘ حاجی صاحب مسرور ہو گیے اور الله کا شکرادا کیا۔
حاجی صاحب نے سجاد کو رنگ دیا۔ سجاد کے لیے یہ بچی لکشمی دیوی ثابت ہوئی۔ انہوں نے کسی دور دراز علاقہ میں‘ اسےاس کے نام سے‘ مکان خرید دیا۔ ساتھ میں‘ اسے ایک کاروبار بھی شروع کرا دیا۔ سجاد دنوں میں‘ علاقہ کا معزز شہری بن گیا۔ پہلے وہ علاقہ کے معزز شہریوں کو سلام کہتا تھا‘ اب لوگ اسے سلام بولاتے تھے۔ وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ وقت کی کروٹ سے‘ کب کوئی آگاہ ہو سکا ہے۔ کب کیا ہو جائے‘ آج تک کسی پر نہیں کھل سکا۔
وقت پر لگا کر محو سفر رہا۔ بچی‘ جس کا نام راحیلہ رکھا گیا تھا‘ لاڈ پیار اور ان گت آسائشوں میں بڑی ہوئی۔ اچھی درس گاہوں میں پڑھی۔ حاجی صاحب بوڑھے ہو گیے تھے۔ انہیں راحیلہ کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر لاحق ہوئی۔ رشتے تو بہت آتے تھے‘ لیکن ان کی پسند کا معیار بالکل مختلف تھا۔ انہیں لاڈوں پلی راحیلہ کے لیے‘ شاید کوئی فوق الفرت خوبیوں کا حامل لڑکا درکار تھا۔ پھر ایک دن‘ بلند حوصلہ کے مالک حاجی صاحب کے مرنے کی خبر سارے شہر میں پھیل گئی۔ ان کی موت‘ دل کا دورہ پڑنے سے ہوئی تھی۔ ہوا یہ کہ راحیلہ بگو حجام کے لڑکے‘ قادر کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ حاجی صاحب یہ صدمہ برداشت نہ کر سکے۔ بڑی بیگم صاحب‘ اس صدمے سے ذہنی توازن کھو بیٹھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے‘ چند لمحوں میں‘ کچھ کا کچھ ہو گیا۔ جو ہوا‘ کسی کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا۔ اتنے بڑے جگرے کے مالک بےوجود ہو چکے تھے۔ وہ اپنی اصل میں‘ ان کی کچھ بھی نہ تھی۔ انہوں نے اسے محض پالا پوسا تھا۔ اس کے باوجود‘ وہ ان کا سب کچھ ہو گئی تھی۔
نذیراں ان پڑھ‘ بےسلیقہ اور کچن کے امور میں بالکل کوری اور پیدل تھی۔ خوب صورت ہونے کی غلط فہمی‘ ہمیشہ اس کے سر پر‘ سوار رہتی۔ خاوند کے رشتہ دار‘ اسے کبھی ایک آنکھ بھی نہ بھائے تھے۔ اس پہ طرہ یہ کہ زبان اور کردار بھی‘ صفائی ستھرائی سے بالاتر تھے۔ ایک روایت کے مطابق ایک جگہ سے‘ دوسری روایت کے مطابق دو جگہوں سے‘ اسے ان چار خوبیوں کی بنا پر‘ طلاق ہو چکی تھی۔ اس کی ان خوبیوں کے باعث‘ ہر کوئی رشتہ کے حوالہ سے‘ ان کے گھر کے قریب سے بھی گزرنے سے ڈرتا تھا۔ اس کا باپ امام مسجد تھا‘ اس ناتے لالچ‘ ہوس‘ آنکھ کی بھوک اور ناشکری گھٹی میں میسر آئی تھی۔ آوارہ فکری‘ ماں کی طرف سے دودھ میں ملی تھی۔
منظور صاحب کو اپنے چھوٹے بھائی کی یک پسری پر‘ ہر وقت پریشانی رہتی۔ وہ چاہتے تھے‘ چلو زیادہ نہیں‘ جوڑی تو ہو جائے۔ رضی اولاد پیدا کرنے کے قابل نہ تھی۔ رشتے تو بہت تھے‘ لیکن صفدر عقد ثانی کے رپھڑ میں نہیں پڑنا چاہتا تھا۔ وہ موجود پر قانع تھا۔ آخر منظور صاحب نے‘ بھائی کو قائل کر ہی لیا۔ بہت سے رشتوں میں سے‘ کسی کے کہنے پر‘ نذیراں کو اس لیے پسند کر لیا گیا‘ کہ ٹھکرائی ہوئی ہے‘ غریب اور دیہاتی ہے‘ خدمت کرے گی‘ ساتھ میں الله اولاد بھی عطا فرما دے گا۔
نذیراں کو کوئی زنانہ مرض لاحق تھا‘ جس کا علاج کروایا گیا۔ الله نے‘ منظور صاحب کو ایک بھتیجے سے نوازا۔ الله کے اس احسان پر‘ سب خوش ہوئے۔ دوسری طرف یہ بھی کھلی حقیقت تھی‘ کہ پوتڑوں کے بگڑے کم ہی سنورتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہو جانے کے باعث‘ نذیراں کا ڈنگ اور بھی تیز ہو گیا۔ صفدر نے دوسری سے تیسری بار پانی مانگ لیا‘ تو کہتی مجھ سے یہ سیاپا نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہہ دیتی: مرتا ہے نہ جان چھوڑتا ہے۔ جب بولتی‘ قیامت ہی توڑ دیتی۔ صفدر کا چہرا دیکھتے ہی‘ جانے اسے کیا ہو جاتا‘ بلاوجہ اور بغیر کسی بات کے لڑنا شروع دیتی۔ حرامدہ‘ کنجر‘ سکھ‘ کافر‘ بےبنیادا وغیرہ ایسے کلمات‘ کہہ جاتی۔ صفدر ننھی سی جان کو دیکھ کر‘ برداشت کر جاتا۔
بھائی کے اس ناہنجار تحفے پر‘ سسک کر رہ جاتا۔ اس نے نذیراں کے سامنے ہاتھ جوڑے‘ پاؤں پڑا‘ اپنے سر پر جوتے مارے اور کہا‘ اگر میں برا ہوں تو تم ہی اچھی بن کر دکھا دو‘ مگر کہاں۔ صفدر کا اصل قصور‘ شریف اور پڑھا لکھا ہونا تھا۔ اگر کبھی بیمار پڑ جاتا‘ خدمت تو دور کی بات‘ کہتی‘ جاؤ یہاں سے میرے سر نہ چڑھنا۔
بے پوچھے‘ گھر سے چلے جانا اور دیرتک باہر رہنا‘ سب سے زیادہ تکلیف دہ حرکت تھی۔ گھر لوٹنے کے پعد‘ صفدر کے کچھ پوچھنے سے پہلے ہی‘ بکواس کرنا شروع کر دیتی۔ مت مار کر رکھ دیتی۔ ایک بار‘ صفدر نے اپنے سسر کو بلایا اور اس کے پاؤں کو ہاتھ لگا کر کہا‘ خدا کے لیے اس کو ساتھ لے جاؤ اور اس کو سمجھاؤ۔ تین چار دن بعد‘ ڈنگ مزید تیز کرکے واپس آ گئی۔ آخر وہ امام مسجد تھا‘ تفرقہ نہیں ڈالے گا‘ تو کھائے گا کہاں سے۔ صفدر ابھی تک پاگل نہیں ہوا تھا۔ مرا بھی نہ تھا۔ پہاڑ حوصلے کا مالک ہو کر بھی‘ عارضہءقلب کا شکار ہو گیا۔
عزازئیل اپنے سے برتر سے منحرف ہوا‘ کیوں کہ اس کے ظرف کی وسعت ہی اتنی تھی۔ معافی کی طرف نہ آیا‘ بلکہ منفی رستوں پر چل پڑا۔ آدم کو برتر تسلیم کرنا‘ اس کے حوصلے سے باہر تھا۔ وہ الله کے ظرف سے آگے کیسے نکل سکتا تھا۔ مخلوق اور خالق کے ظرف کا انتر‘ اس سے باخوبی ہو سکتا ہے۔
نمرود اپنے وجود سے باہر ہوا‘ خدا تو بہت آگے کا معاملہ ہے‘ وہ تو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی برتری تسلیم کرنے کے لیے‘ تیار نہ تھا۔ کسی کو‘ خود سے برتر تسلیم کرنے کے لیے بھی‘ حوصلہ درکار ہوتا ہے‘ کہاں سے لاتا اور پھر اپنی ہی کرنی میں پکڑا گیا۔ چار سو سال‘ چھتر افشانی برداشت کرتا رہا۔ عبرت پکڑ کر‘ توبہ کے دروازے پر نہ آیا۔
یہ ہی معاملہ‘ فرعون کے ساتھ درپیش تھا۔ تھوڑ ظرفی‘ تکبر اور غصہ نے‘ اس کے حواس معطل کردیے تھے۔ تب ہی تو‘ دریا میں گھوڑے ڈال دیے۔ حواس باقی ہوتے‘ تو یہ غلطی نہ کرتا۔
قارون کے پاس وافر لقمے تھے۔ ان میں سے چند ایک لقمے دے دینے سے کچھ فرق نہیں پڑنا تھا۔ اتنا حوصلہ لاتا کہاں سے‘ تھا ہی نہیں۔ الله تو ماننے اور نہ ماننے والوں کو بھی دیتا ہے۔ مقررہ سے‘ ایک سانس بھی‘ منہا نہیں کرتا۔
کوئی کتنا بھی حوصلے والا کیوں نہ ہو‘ دکھ کے میدان میں‘ قدم چھوڑ دیتا ہے۔ مخلوق کا حوصلہ‘ بموجب ظرف حدود میں رہتا ہے۔ حوصلہ جب مجوزہ حدود سے باہر قدم رکھتا ہے‘ تو کٹا یا دیمک زدہ برگد بھی زمین بوس ہو جاتا ہے۔ انسان اور خدا میں‘ یہ ہی فرق ہے‘ کہ وہ ہر حالت اور ہر صورت میں‘ قائم بذات رہتا ہے۔ ساری مخلوق اس کی تخلیق ہے‘ اور ایسی ان حد مخلوقات بیک جنبش‘ تخلیق کرنے پر قادر ہے۔ ایسا ان حد مرتبہ کرئے‘ تو بھی کچھ اس کے ظرف سے باہر نہ ہو گا۔ مخلوق اور خدا کی ذات گرامی میں‘ یہ ہی بنیادی فرق ہے۔ کوئی کتنا بھی بڑا ہو جائے‘ ان حد حوصلے اور ظرف کا مالک نہیں ہو پاتا۔ منفی کے ردعمل میں‘ کچھ بھی ہو سکتا ہے‘ یا کر سکتا ہے۔ مجبوری اور بےسی کی حالت میں‘ اسی کی طرف پھرتا ہے۔ متکبر لوگوں کو‘ اپنی کھال میں رہنا چاہیے‘ ورنہ ان کی اپنی ہی بدحوسی کی لاٹھی‘ انہیں برباد کرکے رکھ دیتی ہے۔ لوگ اسے قسمت کے کھیل کا نام دیتے ہیں‘ حالاں کہ یہ قسمت کا کھیل نہیں ہوتا‘ وہ تو اپنے کیے کا پھل‘ اپنے ہی ہاتھوں سے پا رہے ہوتے ہیں۔
یہ کہانی کار خدا بخش‘ جو کسی زمانے میں‘ ڈیرے کی جان ہوا کرتا تھا‘ کی آخری کہانی تھی۔ اس کے بعد اسے‘ چودھری کے ڈیرے پر آنا نصیب نہ ہوا۔ صفدر کی کہانی تک‘ سب کچھ گوارہ تھا‘ اس کے بعد کی کتھا میں‘ اگرچہ چودھری صاحب کا ذکر تک نہ تھا‘ لیکن یہ سب کچھ اس نے‘ چودھری صاحب کی طرف منہ کرکے کہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے‘ نفرت اور بغاوت کی زہریلی شعاعیں نکل رہیں تھیں۔