استحقاقی کٹوتی
صالحہ بلاشبہ‘ زمین پر چاند کا اوتار تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ دل تھام کر رہ جاتا۔ کوئی چیز‘ خواہ کتنی قیمتی اور حسن و جمال میں لاجواب ہو‘ جس کی ہے‘ اسی کی ہی ہے۔ اسے‘ دوسری بار دیکھنے سے‘ پاپ لگتا ہے۔ صالحہ ایک شاہ قریب بندے کی بیوی تھی‘ اسی وجہ سے‘ وہ مغرور اور خودپسند بھی تھی۔ خوب صورت نہ بھی ہوتی‘ تو بھی خاوند کے اعلی منصب کے باعث‘ متکبر اور خودپسند ہوتی۔ اس کی طرف‘ اس کے خاوند سے کم تر منصب کے شخص کا دیکھنا‘ گچی لمی کرانے کے مترادف تھا۔
ایک روز‘ کسی تقریب میں‘ شاہ بھی موجود تھا۔ کرسی قریبوں کی بیگمات‘ رنگ برنگ لباسوں اور بناؤ سنگار کے پورے پہار کے ساتھ‘ تشریف لائی تھیں۔ بعض تو کارٹون لگ رہی تھیں۔
ان میں سے ایک‘ میکی ماؤس کی خالہ زاد لگ رہی تھی۔ نقل وحرکت بھی‘ میکی ماؤس سے مماثل تھی۔ ناز و نخرہ‘ممتازمحل سے کہیں زیادہ‘ دکھا رہی تھی۔ یہ‘ طرلے خاں کی حضرت زوجہ ماجدہ تھیں۔ شوقین حضرات‘ محض تفریخ اور موڈ میں شوخی کے لیے‘ اس کی زیارت سے مستفیذ ہو رہے تھے۔ بعض چمچے‘ اس کے منہ پر اس کے ٹرن آؤٹ‘ شائستگی اور سلیفہ شعاری کی تعریف کر رہے تھے۔ کچھ اس ذیل میں‘ حد میں اور کچھ حد سے باہر‘ نکل رہے تھے۔
عطیہ خانم‘ اپنے ناک نقشہ کے حوالہ سے‘ کچھ کم نہ تھی۔ زبان کی مٹھاس‘ شہد کی مٹھاس کو بھی‘ پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ہر لفظ‘ گلابوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ ہولے ہولے‘ دھیمی آواز میں‘ باتیں کرتی تھی۔ پر کیا کیا جائے‘ فربہ جسمی‘ اس کے شکلی اور لسانی حسن کو‘ غارت کر رہی تھی۔
بیگم عائشہ خاں‘ کسی سے بھی‘ کم نہ تھی لیکن اس کی کرل کرل‘ سر میں سوراخ کیے دے رہی تھی۔ سب بےزار سے ہو رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا خاوند‘ اس کی کرل کرل کو‘ کس طرح ہضم کرتا ہو گا۔
عارفہ جان اوور ایکٹنگ اور آنکھیں مٹکا مٹکا کر باتیں کرکے‘ اپنے حسن کی حقیقی جازبیت کا ستیاناس مار رہی تھی۔
صالحہ کا حسن‘ سنجیدگی کے لباس میں ملبوس تھا۔ کسی بات کے جواب میں‘ محض ایک قیامت خیز مسکراہٹ سے کام لیتی۔ چال میں دیوتاؤں کا سا وقار تھا۔ آنکھوں میں فطری خمار اور لالہ رنگی اپنے عروج پر تھی۔
جوبھی سہی‘ مونچھیں ہوں تو نتھو لال جیسی ہوں‘ ورنہ نہ ہوں‘ کے مصداق حسن اور نازونخرہ ہو تو میڈم صالحہ جیسا ہو‘ ورنہ نہ ہو۔ شاہ شروع سے‘ دین دار طبع کا مالک تھا۔ اس نے ہر سجی اور بنی سنوری گڑیا کو‘ فقط ایک کھوجی اور گوہر شناس نظر سے دیکھا۔ صالحہ کو بھی ایک‘ مگر دیرپا اور فیصلہ کن نظر سے دیکھا۔ نظرشناس‘ شاہ کی اس نظر التفات کو پہچان گیے۔ ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چلو‘ تقریب کو سفلتا میسر آ گئی۔ یہ دن‘ بلاشبہ نوازشوں اور عطاؤں کا دن تھا۔ شاید ہی کوئی نوازشوں کی گنگا کے اشنان سے محروم رہا ہو گا۔
صالحہ کے خاوند کو‘ زبانی حکم موصول ہو گیا‘ کہ وہ صالحہ کو فورا سے پہلے‘ طلاق دے دے۔ شاہ کا فرمان خصوصی تھا‘ فورا سے پہلے تعمیل کیوں نہ ہوتی۔ چوں کہ یہ من منے کا میلہ تھا‘ لہذا عدت کے‘ ختم ہونے کے انتظار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ نکاح کے بعد‘ ملکہ صالحہ صاحب کو‘ بڑی عزت اوراحترام کےساتھ‘ عجلہء عروسی میں پہنچا دیا گیا۔ یہ کوئی اچیرج بات نہ تھی۔ یہ توروٹین ورک تھا۔ مقدر اور نصیبے کی بات تھی۔ سج سجا کر آئی گماشتہ زوجگان‘ کی قسمت میں شاہی عجلہء عروسی نہ تھا۔ صالحہ کو بھی رائی بھر قلق نہ تھا۔ اب وہ گماشتے کی نہیں‘ گماشتہ طراز‘ شاہ کی زوجہ تھی۔ دوسرا یہ غیر شرعی‘ غیراصولی اور غیر فطری‘ کام نہ ہوا تھا۔ باقائدہ اور باضابطہ طور پر‘ طلاق کے بعد نکاح ہوا تھا۔ سلیم نے تو شیرافگن کو مروا‘ کر اس کی بیگم پر تصرف حاصل کیا تھا۔
چند ماہ تصرف میں رکھنے کے بعد‘ حسب معمول‘ صالحہ کو طلاق دے دی گئی۔ بڑی مہربانی فرما تے ہوئے‘ اس کے سابقہ خاوند کو‘ نکاح کر لینے کے زبانی احکامات جاری کر دیے گیے۔ ملکہ معزمہ کا‘ کسی شاہی گماشتے کے تصرف میں آنا‘ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ یہ بھی کہ شیر کا اپنا شکار‘ کسی گیڈر لومٹر کو دے دینا‘ ان ہونی کا ہو جانا تھا۔ دوسرا ملکہ سے گہری مخلصی اور یک جہتی کا اظہار بھی تھا‘ تا کہ بوقت ضرورت راضی بر رضا کام آتی رہے۔ دوسری طرف گماشتے کو‘ اس کی امانت واپس کر دی گئی تھی۔
ہر کمائی سے‘ بہبودی ٹیکس کے نام پر‘ شاہ کا غالب حصہ‘ جبری سہی‘ وصولا جاتا رہا ہے۔ کرسی قریب تو‘ اس کےاپنے ہوتے ہیں۔ ہر دیا‘ شاہ ہی کی‘ خصوصی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لین دین تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس نوع کی کٹوتی‘ بہبودی نہیں‘ استحقاقی ہوتی ہے۔ یہ بھی بلاشبہ‘ خصوصی نظر التفات تھی‘ ورنہ اتنا بڑا اعزاز‘ کسی اور کو بھی حاصل ہو سکتا تھا۔ ہر شاہ کا‘ شروع ہی سے‘ یہ ہی طور اور وتیرا رہا ہے‘ کہ وہ اپنے چہولی چکوں پر‘ کرپا اور دیا کے دروازے بند نہیں کرتا۔
صالحہ بلاشبہ‘ زمین پر چاند کا اوتار تھی۔ جو بھی اسے دیکھتا‘ دل تھام کر رہ جاتا۔ کوئی چیز‘ خواہ کتنی قیمتی اور حسن و جمال میں لاجواب ہو‘ جس کی ہے‘ اسی کی ہی ہے۔ اسے‘ دوسری بار دیکھنے سے‘ پاپ لگتا ہے۔ صالحہ ایک شاہ قریب بندے کی بیوی تھی‘ اسی وجہ سے‘ وہ مغرور اور خودپسند بھی تھی۔ خوب صورت نہ بھی ہوتی‘ تو بھی خاوند کے اعلی منصب کے باعث‘ متکبر اور خودپسند ہوتی۔ اس کی طرف‘ اس کے خاوند سے کم تر منصب کے شخص کا دیکھنا‘ گچی لمی کرانے کے مترادف تھا۔
ایک روز‘ کسی تقریب میں‘ شاہ بھی موجود تھا۔ کرسی قریبوں کی بیگمات‘ رنگ برنگ لباسوں اور بناؤ سنگار کے پورے پہار کے ساتھ‘ تشریف لائی تھیں۔ بعض تو کارٹون لگ رہی تھیں۔
ان میں سے ایک‘ میکی ماؤس کی خالہ زاد لگ رہی تھی۔ نقل وحرکت بھی‘ میکی ماؤس سے مماثل تھی۔ ناز و نخرہ‘ممتازمحل سے کہیں زیادہ‘ دکھا رہی تھی۔ یہ‘ طرلے خاں کی حضرت زوجہ ماجدہ تھیں۔ شوقین حضرات‘ محض تفریخ اور موڈ میں شوخی کے لیے‘ اس کی زیارت سے مستفیذ ہو رہے تھے۔ بعض چمچے‘ اس کے منہ پر اس کے ٹرن آؤٹ‘ شائستگی اور سلیفہ شعاری کی تعریف کر رہے تھے۔ کچھ اس ذیل میں‘ حد میں اور کچھ حد سے باہر‘ نکل رہے تھے۔
عطیہ خانم‘ اپنے ناک نقشہ کے حوالہ سے‘ کچھ کم نہ تھی۔ زبان کی مٹھاس‘ شہد کی مٹھاس کو بھی‘ پیچھے چھوڑ رہی تھی۔ ہر لفظ‘ گلابوں کی خوش بو سے لبریز تھا۔ ہولے ہولے‘ دھیمی آواز میں‘ باتیں کرتی تھی۔ پر کیا کیا جائے‘ فربہ جسمی‘ اس کے شکلی اور لسانی حسن کو‘ غارت کر رہی تھی۔
بیگم عائشہ خاں‘ کسی سے بھی‘ کم نہ تھی لیکن اس کی کرل کرل‘ سر میں سوراخ کیے دے رہی تھی۔ سب بےزار سے ہو رہے تھے۔ پتا نہیں اس کا خاوند‘ اس کی کرل کرل کو‘ کس طرح ہضم کرتا ہو گا۔
عارفہ جان اوور ایکٹنگ اور آنکھیں مٹکا مٹکا کر باتیں کرکے‘ اپنے حسن کی حقیقی جازبیت کا ستیاناس مار رہی تھی۔
صالحہ کا حسن‘ سنجیدگی کے لباس میں ملبوس تھا۔ کسی بات کے جواب میں‘ محض ایک قیامت خیز مسکراہٹ سے کام لیتی۔ چال میں دیوتاؤں کا سا وقار تھا۔ آنکھوں میں فطری خمار اور لالہ رنگی اپنے عروج پر تھی۔
جوبھی سہی‘ مونچھیں ہوں تو نتھو لال جیسی ہوں‘ ورنہ نہ ہوں‘ کے مصداق حسن اور نازونخرہ ہو تو میڈم صالحہ جیسا ہو‘ ورنہ نہ ہو۔ شاہ شروع سے‘ دین دار طبع کا مالک تھا۔ اس نے ہر سجی اور بنی سنوری گڑیا کو‘ فقط ایک کھوجی اور گوہر شناس نظر سے دیکھا۔ صالحہ کو بھی ایک‘ مگر دیرپا اور فیصلہ کن نظر سے دیکھا۔ نظرشناس‘ شاہ کی اس نظر التفات کو پہچان گیے۔ ان کے چہروں پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ چلو‘ تقریب کو سفلتا میسر آ گئی۔ یہ دن‘ بلاشبہ نوازشوں اور عطاؤں کا دن تھا۔ شاید ہی کوئی نوازشوں کی گنگا کے اشنان سے محروم رہا ہو گا۔
صالحہ کے خاوند کو‘ زبانی حکم موصول ہو گیا‘ کہ وہ صالحہ کو فورا سے پہلے‘ طلاق دے دے۔ شاہ کا فرمان خصوصی تھا‘ فورا سے پہلے تعمیل کیوں نہ ہوتی۔ چوں کہ یہ من منے کا میلہ تھا‘ لہذا عدت کے‘ ختم ہونے کے انتظار کی ضرورت ہی نہ تھی۔ نکاح کے بعد‘ ملکہ صالحہ صاحب کو‘ بڑی عزت اوراحترام کےساتھ‘ عجلہء عروسی میں پہنچا دیا گیا۔ یہ کوئی اچیرج بات نہ تھی۔ یہ توروٹین ورک تھا۔ مقدر اور نصیبے کی بات تھی۔ سج سجا کر آئی گماشتہ زوجگان‘ کی قسمت میں شاہی عجلہء عروسی نہ تھا۔ صالحہ کو بھی رائی بھر قلق نہ تھا۔ اب وہ گماشتے کی نہیں‘ گماشتہ طراز‘ شاہ کی زوجہ تھی۔ دوسرا یہ غیر شرعی‘ غیراصولی اور غیر فطری‘ کام نہ ہوا تھا۔ باقائدہ اور باضابطہ طور پر‘ طلاق کے بعد نکاح ہوا تھا۔ سلیم نے تو شیرافگن کو مروا‘ کر اس کی بیگم پر تصرف حاصل کیا تھا۔
چند ماہ تصرف میں رکھنے کے بعد‘ حسب معمول‘ صالحہ کو طلاق دے دی گئی۔ بڑی مہربانی فرما تے ہوئے‘ اس کے سابقہ خاوند کو‘ نکاح کر لینے کے زبانی احکامات جاری کر دیے گیے۔ ملکہ معزمہ کا‘ کسی شاہی گماشتے کے تصرف میں آنا‘ کوئی معمولی اعزاز نہ تھا۔ یہ بھی کہ شیر کا اپنا شکار‘ کسی گیڈر لومٹر کو دے دینا‘ ان ہونی کا ہو جانا تھا۔ دوسرا ملکہ سے گہری مخلصی اور یک جہتی کا اظہار بھی تھا‘ تا کہ بوقت ضرورت راضی بر رضا کام آتی رہے۔ دوسری طرف گماشتے کو‘ اس کی امانت واپس کر دی گئی تھی۔
ہر کمائی سے‘ بہبودی ٹیکس کے نام پر‘ شاہ کا غالب حصہ‘ جبری سہی‘ وصولا جاتا رہا ہے۔ کرسی قریب تو‘ اس کےاپنے ہوتے ہیں۔ ہر دیا‘ شاہ ہی کی‘ خصوصی عنایت کا نتیجہ ہوتا ہے۔ لین دین تو زندگی کا حصہ ہوتے ہیں۔ اس نوع کی کٹوتی‘ بہبودی نہیں‘ استحقاقی ہوتی ہے۔ یہ بھی بلاشبہ‘ خصوصی نظر التفات تھی‘ ورنہ اتنا بڑا اعزاز‘ کسی اور کو بھی حاصل ہو سکتا تھا۔ ہر شاہ کا‘ شروع ہی سے‘ یہ ہی طور اور وتیرا رہا ہے‘ کہ وہ اپنے چہولی چکوں پر‘ کرپا اور دیا کے دروازے بند نہیں کرتا۔