آگ کی بھٹی
"جنگ لمحوں کی ہو یا دنوں کی‘ جہاں توڑ پھوڑ کا سبب بنتی ہے‘ وہاں ذات کا سکون بھی غارت کر دیتی ہے۔ سوچیں ہر لمحہ تذبذب کی صلیب پر چڑھتی ہیں۔ کچھ کر گزرنے کی استعداد بھی متاثر ہوتی ہے۔ سماجی اطوار سے میل کھاتی سوچیں‘ کھیسےمیں کچھ ناکچھ ضرور ڈالتی ہیں۔ سماجی اطوار سے متصادم سوچیں‘ ذات کا استحصال تو کرتی ہی ہیں‘ سماج تو سماج‘ یہاں تک کہ خانگی لعن طعن بھی‘ مقدر ٹھہرتی ہے۔ ستم یہ‘ جن کی بھلائی کے لیے سوچا گیا ہوتا ہے‘ وہ ہی دشمن بن جاتے ہیں۔
علما کی زبانی‘ نار جہنم کی ہولناکی کا سنتے آ رہے ہیں۔ یہ بات اکثر سوچ میں آتی ہے‘ کہ اس کی قہرمانی‘ کیا سوچوں سے بھی بڑھ کر ہو گی! مجھے لوہے کی بٹھی میں لوہے کو ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں لوہے کو‘ جو سخت ترین دھات ہے‘ کو پانی ہوتے دیکھنے کا اتفاق ہوا۔ بلا کی آگ تھی۔ اس کی دور کی تپش سے‘ جسم پسینے میں نہا گیا۔
میں پچھلے پچپن سال سے‘ سوچ کی بھٹی میں پگھل رہا ہوں۔ سب سے بڑا دکھ تو یہ ہے‘ کہ میری سوچوں کو‘ لایعنی اور سماج دشمن سوچیں کہا اور سمجھا جاتا ہے۔ جن کے لیے سوچتا ہوں‘ وہ ہی مجھے اپنے رزق کا دشمن سمجھتے ہیں۔ رشوت لینے والوں سے کہتا ہوں‘ تم جہنم کی آگ جمع کر رہے ہو‘ تو وہ میرے کہے کو بکواس اور دفترشاہی کے خلاف سازش سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں‘ صدیوں سے جاری یہ عمل‘ کس طرح غلط ہوسکتا ہے۔ اگر یہ غلط ہوتا‘ تو یہ اختیار کیوں کیا جاتا۔ کسی روایت یا روٹین میٹر کو‘ کس طرح غلط قرار دیا جا سکتا ہے۔ رشوت دینے والے کو کہتے ہیں‘ تو وہ اسے درست قرار دینے کے لیے تیار نہیں۔ رشوت ہی‘ ڈی میرٹ کو میرٹ میں تبدیل کر سکتی ہے۔ اس حوالہ سے‘ رشوت دینا لایعنی نہیں ٹھہرتا۔ کسی کی حق تلفی کیسی۔ لگانے والے ہی کے کھیسہ میں پھل گرتا ہے۔
ملاوٹ کرنے والے سے بات کرو‘ تو وہ دشمن بن جاتا ہے۔ اس کا کہنا ہوتا ہے‘ جب خریدنے والے کو اعتراض نہیں‘ تو تمہارے پیٹ میں کیوں مروڑ اثھتا ہے۔ میں اس کا خیرخواہ ہوں‘ چاہتا ہوں‘ وہ جہنم کی آگ کا لقمہ نہ بنے۔ میں سوچتا ہوں‘ پاؤ کا خریدار ہو یا کلو کا‘ دین دار تو وہ دونوں کا ہے۔ انسان جو الله کی بہترین مخلوق ہے‘ کی قیمت محض چند ٹکے ہیں۔
چوری کوئی آسان کام نہیں۔ انسان اگر اتنی محنت کرئے‘ تو بھوک مٹانے اور تن ڈھانپنے کے لیے‘ رزق دستیاب ہو ہی جاتا ہے۔ غداری کرنے والے کیوں بھول جاتے ہیں‘ محض چوپڑی کے لیے لوگوں کا خون اپنے سر پر کیوں لیتے ہیں۔ کم تولنے اور بڑی ہنرمندی سے‘ ناقص مال فروخت کرنے والوں کو ضمیر کیوں نہیں ستاتا۔ کیا ان کا ضمیر نہیں ہوتا۔ کیا وہ بلاضمیر زندگی گزار کر دنیا سے‘ رخصت ہو جاتے ہیں۔ ان کے چھوڑے بےضمیر لقمے‘ اگلی نسلوں کو منتقل ہو جاتے ہیں۔
ہزار سال تو بہت زیادہ ہوتے ہیں‘ کوئی یہ نہیں بتا سکتا‘ کہ کسی کی‘ موجودہ رہائش گاہ دو سو سال پہلے کیسی اور کس کی تھی۔ آتے سالوں میں‘ یہ کیسی اور کس کی ہو گی۔ میری میری کا نغمہ بڑا پرانا ہے‘ لیکن اس کا ہر گائیک‘ تہ خاک چلا گیا۔ ایسا گیا‘ کہ اسے دوبارہ آنا نصیب نہ ہوا۔
میں اپنی ذات سے‘ اس معاملے پر بھی الجھتا ہوں‘ کہ ہر دو نمبری لائق عزت کیوں سمجھا جاتا ہے۔ ایک صاحب نے‘ سات لاکھ کی ہیرا پھیری کی۔ اس رقم سے وہ اور اس کے گھر والے‘ حج کرکے آئے۔ سب ان کے ہاتھ چومتے ہیں۔ اس میں وہ بھی شامل ہیں‘ جو اصل حقیقت سے آگاہ ہیں۔ شرافت کا معیار پرتعیش زندگی قرار پایا ہے۔
مجھے اس بات پر قلق ہوتا‘ کہ ہم منافق کیوں ہیں۔ غلط کو غلط‘ منہ پر کیوں نہیں کہتے ۔ ایک طرف حضرت ابراہیم‘ حضرت سقراط‘ حضرت حسین‘ حضرت منصور کا احترام کرتے ہیں۔ حضرت مہاآتما بدھ جی کے فعل پرحیرت زدہ ہوتے ہیں۔ دوسری طرف‘ ان اصحاب باصفا کے ساتھ‘ پیش آنے والے معاملات سے‘ عبرت لیتے ہوئے‘ غلط کو غلط نہیں کہتے۔ ان کی پشت پیچھے پلوتے بولتے ہیں۔ ان کے منہ پر‘ ٹی سی میں کوئی دقیقہ اٹھا نہیں رکھتے۔ ٹی سی خور‘ خوش ہو کر چوری سے نوازتے ہیں۔ جانتے ہوئے بھی‘ وہ خود کو نبی قریب سمجھتے ہیں یا اپنے کیے کو‘ برحق سمجھتے ہیں۔ گویا دونمبری‘ ان کا مرتبی استحقاق ہے۔
آگ کی بھٹی کو دیکھے ہوئے‘ ایک عرصہ گزر گیا ہے۔ اس آگ کا سیکا‘ آج بھی محسوس کرتا ہوں۔ یہ آگ اتنی زبردست تھی۔ جہنم کی کس بلا کی ہو گی۔ میں سوچتا ہوں‘ اتنے سوہنے سوہنے چہرے‘ جو دیکھنے میں نیک پرہیزگار لگتے ہیں‘ جہنم کی آگ میں ڈالے جائیں گے! ان کے دو نمبری حج اور دکھاوے کی نمازیں‘ کام آ سکیں گی۔ کیا چوری خور مورکھ کا لکھا الله درست مان لے گا۔
اس قسم کی سوچیں‘ مجھے بڑی ازیت دیتی ہیں۔ کاش میں انہیں‘ جہنم کی آگ سے بچا سکتا۔۔۔۔۔ کاش۔۔۔۔۔ یہ مجھے حاسد سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال ہے‘ سوکھی اور قلیل نے‘ مجھے یاوہ گو بنا دیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں‘ ان کی آسودگی‘ خوش حالی‘ کوٹھی‘ کاروں کی موجودگی نے پاگل کر دیا ہے اور میں اس پر جلتا ہوں۔ کتنی عجیب بات ہے‘ میں ان کے انجام سے لرزاں ہوں۔ میں اس امر پر بھی لرزاں ہوں‘ کہ میں نے انہیں بتایا کیوں نہیں۔ انہوں نے آگ کی بھٹی میں‘ لوہے کو پگھل کر پانی ہوتے نہیں دیکھا۔ الله پوچھ سکتا ہے‘ تم نے تو دیکھا تھا نا‘ پھر کیوں نہیں بتایا۔ دیکھ کر‘ منافقت کے خول میں کیوں مقید رہا۔
میں اپنی حیثیت‘ حقیقت اور اوقات سے‘ خوب خوب ہوں۔ میں ان کا مجرم ہوں‘ آنکھوں دیکھی چیز کا‘ لفظوں میں نقشہ نہیں کھنچ سکتا۔ یہ تو کوئی مصور ہی کر سکتا ہے‘ یا کوئی باہدایت صاحب اختیار کر سکتا ہے۔ ہر علاقے کے حاکم پر لگائے‘ کہ وہ بدعنوان لوگوں کو ساتھ لے کر‘ دہکتی آگ کی بٹھی کی زیارت کرے اور کرائے۔ اینٹوں کے پھٹے کی آگ بھی‘ اپنی کارگزری میں کچھ کم نہیں۔ بٹھی کی آگ ہو یا اینٹوں والے پٹھے کی آگ‘ جہنم کی آگ کے مقابلہ میں کچھ نہیں۔"
شاہ بابا بولتا رہا‘ ہم سب پتھر کا بت بنے‘ سنتے رہے۔ پھر شاہ بابا کے منہ سے نکلا‘ کلمہءشہادت۔ سب نے یک زبان ہو کر کلمہءشہادت پڑھا۔ اس کے بعد خاموشی چھا گئی۔ سب نے سوچا‘ شاید شاہ بابا دم لینے کے لیے رکے ہیں‘ لیکن بابا تو اپنا فرض ادا کرکے جا چکا تھا‘ اسے چلے جانا ہی چاہیے تھا۔ یہ دنیا‘ اس سے لوگوں کے رہنے کی جگہ نہیں ہے۔ میں نے کئی بار‘ بٹھی دیکھنے کا اردہ کیا ہے‘ شاید کچھ عبرت پکڑوں اور توبہ کے دروازے پر آ جاؤں‘ یقین مانیں‘ دنیا کی ہما ہمی نے‘ مجھے موقع ہی نہیں دیا۔ یا پھر شاید عبرت پکڑنے اور کوئی کارخیر کرنے کے لیے‘ ہمارے پاس وقت ہی نہیں رہا۔