جدید اردو شاعری کے چند محاکاتکر
ہر مستعل لفظ کے معنی ہمارے ذہن میں محفوظ ہوتے ہیں۔ یہ ہی وجہ ہے کہ ہم پر کہی ہوئی بات کو سمجھ جاتے ہیں۔ کچھ لفظ مانوس نہیں ہوتے لیکن دوسرے لفظوں کے سیاق وسباق میں سمجھنا مشکل نہیں ہوتا۔ لفظ کرسی سنتے ہی ہمارے ذہن میں بیٹھنے والی چیز کا تصور گھوم جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے بیٹھیے تو ہم بیٹھ جاتے ہیں۔
برا‘ اچھا‘ سیاہ‘ خوب صورت وغیرہ کی تفہیم‘ ہمارے ذہن میں موجود ہوتی ہے‘ لیکن کسی شے کا تصور ہمارے ذہن میں نہیں ابھرتا۔ یہ تخصیصی یا توصیفی لفظ‘ جب کسی اسم کے ساتھ جڑتے ہیں‘ تو اس کی ذاتی شناخت کا ذریعہ بنتے ہیں۔ یہ ہی نہیں‘ ایک مخصوص ایمیج بھی‘ ان کے ساتھ وابستہ ہو جاتا ہے۔ زبانوں میں‘ اس نوعیت کے مرکبات کا استعمال بکثرت ہوتا آیا ہے۔ یہ تخصیص کے ساتھ‘ دل چسپی اور توجہ کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ ان سے‘ ایک تصویری خاکہ بھی تشکیل پاتا ہے۔
ہر زبان کی شاعری میں مرکبات کا استعمال ہوتا آیا ہے۔ ان مرکبات کے حوالہ سے مختلف نوعیت کے ایمیج تشکیل پائے ہیں۔اردو شاعری اس سے تہی نہیں۔ اردو شاعری میں بھی مختلف طرح کے مرکبات نظر آتے ہیں۔ گویا موجود اور خیالی ٹصاویر کا جہاں آباد ہے۔
مرکبات‘ جہاں شعری حسن اور اختصار کلام کے حوالہ سے اپنی افادیت رکھتے ہیں‘ وہاں کسی ناکسی ایمیج کو بھی‘ تشکیل دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کی تقسیم بھی‘ نکرہ اور معرفہ کی سی ہوتی ہے۔ اسمی تخصیص کے لیے بھی‘ مرکبات کی وجودی حیثیت ناگزیر ہو جاتی ہے۔ نثر میں‘ ان کا استعمال اسلوبی اور تفہیمی حوالہ سے‘ شاعری سے قطعی ہٹ کر ہوتا ہے۔ فکشن اور انشاء پردازی میں‘ یہ کبھی کبھی شاعری کے قریب تر چلے جاتے ہیں اور مختلف نوعیت کے ایمجز کو تشکیل دیتے ہیں تاہم نثری اور شعری مرکبات میں‘ اس کے باوجود فرق رہتا ہے۔
اردو شاعری میں‘ استاد غالب وہ شاعر ہیں‘ جن کا دیوان انتہائی مختصر ہو کر بھی‘ محاکات سے بھرا پڑا ہے۔ ان کے مرکبات‘ دنیا کا خوب صورت ترین عجائب گھر ہے۔ رنگا رنگ‘ عجیب و غریب اور غور وفکر کے حامل‘ تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں۔ کمال کی مصوری کرتا ہے۔ اس ذیل میں‘ ان کے ہاں بڑا تنوع ہے۔ ان کے دیوان کی پہلی غزل کے تین مرکب ملاحظہ ہوں:
جذبہءبےاختیار‘ سینہء شمشیر‘ موئے آتش دیدہ۔۔۔۔۔۔ اب ان مرکبات کو شعر کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں:
جذبہء بےاختیار شوق دیکھا چاہیے
سینہء شمشیر سے باہر ہے‘ دم شمشیر کا
لفظ دم کو سادہ نہ لیجیے گا‘ ذومعنویت اور طرح داری میں‘ بڑے اوج پر ہے اور اسی کی تفہیم پر ہی‘ پورے شعر کا دارو مدار ہے۔
بسکہ ہوں غالب اسیری میں بھی آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے حلقہ مری زنجیر کا
بسکہ ہوں غالب
اسیری میں بھی
آتش زیرپا
موئے آتش دیدہ ہے
حلقہ مری زنجیر کا
اب قرآت کا مزا لیں۔
مرکب موئے آتش دیدہ کا تصویری حسن‘ کھل کر سامنے آ جائے گا۔
استاد غالب کے بعد‘ اردو شاعری میں اقبال بڑی شہرت رکھتا ہے۔ بانگ درا میں اس کا ١٩٠٨ تک کا کلام ہے۔ اس مجموعے کی چوتھی نظم‘ استاد غالب سے متعلق ہے۔ اس میں انہیں گوئٹے کا ہم نوا قرار دیا ہے۔ نظم کا آخری سے پہلا شعری ملاحظہ فرمائیں:
لطف گویائی میں تیری ہمسری ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
اس نظم کے مطالعہ سے‘ واضح ہوتا ہے‘ کہ اقبال نے استاد غالب کی زبان اور فکر سے‘ استفادہ کیا۔ اقبال کا مطالعہ مشرق و مغرب پر محیط تھا۔ اقبال نے اردو شاعری کو نئی زبان دی ہے‘ لیکن اس کے موجود کلیات کو‘ تصویر خانہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کے ہاں تصویری مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں‘ لیکن انہیں غالب کے پایہ کا‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس کی وجہ‘ شاید کس حد تک‘ مقصدی شاعر رہی ہو۔ بطور نمونہ دو مرکب ملاحظہ ہوں۔
عقابی روح
عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں
نظر آتی ہے اس کو اپنی منزل آسمانوں میں
نظم: ایک نوجوان کے نام‘ مجموعہ بال جبریل
رہزن ہمت
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا
بحرتھا صحرا میں تو‘ گلشن میں مثل جوئے ہوا
نظم: شمع و شاعر‘ مجموعہ بانگ درا
فیض نے‘ اپنے مخصوص نظریاتی اور خفیہ قسم کی زبان کے حوالہ سے‘ بڑا نام پایا۔ اس کی بان میں حسن اور مٹھاس ہوتی ہے۔ اپنے عہد کے جبر کو‘ مختلف قسم کے طریقوں سے‘ واضح کرتا ہے۔ اس کی علامیتں اور استعارے‘ درامدہ نہیں ہیں‘ بلکہ اسی معاشرت سے اٹھتے ہیں۔ ان حقائق کے باوجود‘ اس کے ہاں محاکاتی مرکبات کچھ زیادہ نہیں ہیں۔ ہاں جو محاکاتی مرکبات میسر آتے ہیں‘ وہ اپنا ہونا بڑی صراحت سے واضح کرتے ہیں۔ فقط دو مرکب ملاحظہ فرمائیں۔
دوزخی دوپہر
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تنانظر میں دیکھیں‘ ایک ماحول اور کیفیت کو اجاگر کرنے میں‘ اپنا حق ادا کر رہے ہیں۔
بے زباں درد و غیظ و غم کی
اس دوزخی دوپہر کے تازیانے
آج تن پر دھنک کی صورت
قوس در قوس بٹ گیے ہیں
نظم: اے شام مہرباں ہو!
حالات کی ہولناکی کو اس سے بڑھ کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اسی قماش کا ایک اور مرکب ملاحظہ ہو
دکھ کی ندیا
جب دکھ کی ندیا میں ہم نے
جیون کی ناؤ ڈالی تھی
تھا کتنا کس بل باہنوں میں
لہو میں کتنی لالی تھی
نظم: تم ہی کہو کیا کرنا ہے
مرکب ۔۔۔۔۔۔ جیون کی ناؤ۔۔۔۔۔۔۔ خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔ پہلا وصفی‘ جب کہ دوسرا تشبیہی ہے۔ دونوں مرکب‘ ایک مخصوص ایمیج پیش کر رہے ہیں۔ یہ بھی کہ دونوں ایک دوسرے سے انتہائی متعلق ہیں۔
ن م راشد‘ جدید اردو شاعری اپنی الگ سے شناخت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں‘ ذات اور کائنات کے معاملات ملتے ہیں۔ ذات سے کائنات‘ یا کائنات سے ذات کی طرف‘ پھرنے کے رویے‘ بڑی حد تک متوازی نظر آتے ہیں۔ راشد بھی‘ محاکاتی مرکب تشکیل دیتے ہیں‘ لیکن ان کی بہتات نہیں‘ ہاں البتہ‘ ان کی اکثرنظمیں‘ دیگر لوازات شعر کے استعمال سے تصویر تشکیل دیتی ہیں۔ کہیں واضح ہوتی ہیں‘ کہیں دھندلاہٹ کا شکار ہوتی ہیں اور بعض‘ معاملے کے پس منظر میں ہوتی ہیں۔ ان کے دو محاکاتی مرکب بطور ذائقہ ملاحظہ فرمائیں:
روح کے تار
اب اسے‘ مصرعوں کے تناظر میں دیکھیں:
ہوش آیا تو میں دہلیز پہ افتادہ تھا
خاک آلودہ و افسردہ و غمگین و نزار
پارہ پارہ تھے مری روح کے تار
نظم: گناہ
کیا خوب صورت مرکب ہے آپ بھی لطف لیں:
تشنہ سراب
اب اس مرکب کی معنویت مصرعوں کی ترتیب میں تلاشیں:
وقت کے پابند ہاتھ
راہوں کا غمگیں جواب
سنتے رہے‘
سبزے کے تشنہ سراب
رات کا دیوانہ خواب
تکتے رہے
نظم: گزر گاہ
خدا لگتی تو یہ ہی ہے‘ کہ زندگی اپنے پورے وجود سے‘ دکھائی دیتی ہے۔ دیوانہ خواب‘ کمال کا محاکاتی مرکب ہے۔ اسے چشم تخیل میں‘ تجسیم دیں‘ زندگی واضح ہو جائے گی۔ اس کے استعمال میں‘ کمال کی ورفتگی ہے۔ یہ سب غور کرنے پر انحصار کرتا ہے۔
جدید اردو شاعری میں‘ مجید امجد کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کے کلام میں‘ اوروں کی نسبت‘ رنگا رنگی اور گہما گہمی زیادہ ہے۔ غالبا اس کی چار وجوہ ان کی شخصیت کا حصہ رہیں:
ا۔ وہ اردو‘ انگریزی اور فارسی ادب کا مطالعہ رکھتے تھے۔
ب۔ محروم بچپن اور نامراد جوانی ورثہ میں ملی۔
ج۔ سنتے بہت تھے‘ لیکن کہتے کچھ بھی نہ تھے۔ شاعری کو‘ گویا ذات کےانشراع کا ذریعہ بنایا۔ شہرت اور ناموری کا عنصر موجود نہ تھا۔
د۔ ہم درد اور دیانت دار تھے۔
یہ چاروں عناصر‘ کسی ناکسی صورت میں‘ ان کے ہاں نظر آتے رہتے ہیں۔ ان عناصر نے‘ انہیں بڑا شاعر بنانے میں‘ نمایاں کردار ادا کیا۔ ان کے ہاں شخصی اور سماجی تصاویر کی کمی نہیں۔ یہ محاکاتی مرکبات‘ گوناں انفرادیت کے حامل ہیں۔ نمونہ کے دو مرکب ملاحظہ ہوں:
کرنوں کے ریزے
اب اس مرکب کو مصرعوں کے حوالہ سے دیکھیں۔ کیا کمال کی مصوری ہے۔
سدا جو ہم کو اپنے مشبک غرفوں سے دیکھیں
جیسے پورب کی دیوار پہ‘ انگوروں کی بیلوں میں
بڑھتے‘ رکتے‘ ننھے ننھے‘ چمکیلے نقطے
کرنوں کے ریزے
چمکیلے نقطے اور پورب کی دیوار کی اہمیت اپنی جکہ پر موجود ہے۔
مجید امجد کے ہاں‘ ایک سے ایک بڑھ کر‘ محاکاتی مرکب ملتا ہے۔ ہر مرکب گہری معنویت کا حامل ہوتا ہے۔ چشم تصور کہاں سے کہاں‘ لے جاتی ہے۔ ذرا اس مرکب کو بھی دیکھئے:
لمبی دھوپ
اس مرکب کو ان دو مصرعوں کے تحت ملاحظہ فرمائیں:
لمبی دھوپ کے ڈھلنے پر اب‘ مدتوں بعد ایک دن یہ آیا ہے
دن جو ایسے دنوں کی یاد دلاتا ہے جو سدا ہمارے ساتھ ہیں
ہمارے ساتھ ہیں‘ میں بلا کی معنویت پوشیدہ ہے۔
اردو شعر کی دنیا میں‘ ان گنت فکری‘ لسانی اور اسلوبی رنگ ملتے ہیں۔ اہل سخن نے‘ بلاشبہ شعر کو نئے نئے لباس سے آراستہ کیا ہے۔ نئے نئے محاورت دئے ہیں۔ دنیا کی دیگر زبانوں کی شاعری‘ میر اور غالب نہیں دیکھا سکتی۔ میر زبان اور غالب نے اردو کو اپنی فلک بوس فکر سے‘ مالا مال کیا۔ بدقسمتی یہ رہی ہے‘ یہاں ‘اپنا آدمی‘ کے حوالہ سے‘ اہل سخن کو پرموٹ کیا گیا ہے۔ اسی طرح کرسی قریب کے لوگوں کو بھی‘ زمین سے اٹھا کر آسمان پر بیٹھا دیا گیا ہے۔ معتوب تو جہنم رسید کیے گیے ہیں۔ ان کا کلام ردی چڑھا ہے۔
اب میں تین ایسے اہل سخن کا ذکر کرنے جا رہا ہوں‘ جن میں سے‘ دو نظر انداز ہوئے ہیں اور ایک کرسی کی دائیں آنکھ پر رہا ہے۔
علامہ بیدل حیدری کی زبان صاف شفاف اور الجھاؤ سے پاک ہے۔ ان کا انداز اور لہجہ‘ بڑا جان دار ہے۔ وہ زندگی کے ان گنت نشیب و فراز سے گزرے۔ یہ ہی وجہ ہے‘ کہ ان کا اسلوب عصری حیات کے معاملات کو‘ بڑی خوبی سے‘ اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ مضامین کی رنگا رنگی‘ انہیں منفرد بنانے میں‘ اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ وہ زندگی کے عمق میں‘ غوطہ زن ہوتے ہیں۔ یہ بات مبالغے سے باہر ہے‘ کہ غالب کے بعد‘ اردو شاعری کو اتنا بڑا شاعر‘ دستیاب ہوا ہے۔ زندگی نے عسرت دی‘ لیکن اس نے اپنے گلاب سے لفظوں سے‘ زندگی کو سرفراز کیا۔ فقط دو تین محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں۔ ان کے حوالہ سے‘ یہ جاننے میں‘ ہرگز دشواری نہ ہو گی کہ وہ فکری اور لسانی حوالہ سے‘ کس مقام پر فائز تھے۔
چادر مہتاب
اب اس مرکب کو مصرعوں میں دیکھیں۔
کملی بھی اس کی چادر مہتاب کا غرور
اور زلف مشکبار کا حلقہ بھی روشنی
نظم: روشنی
مہتاب کا غرور۔۔۔۔۔۔۔ بھی اہل سخن کی خصوصی توجہ کا طالب ہے۔
سحر کے پاؤں
اب اسے مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔
فضائے امن و محبت کی آرزو ہے اگر
تو آفتاب افق سے اچھالنا ہو گا
سحر کے پاؤں سے کانٹا نکالنا ہو گا
نظم: قصہ پارینہ
سورج کی جوانی
اس مرکب کو مصروں کی دنیا میں ملاحظہ فرمائیں
مخلوق خدا کا وہ پسینے میں نہانا
یاد آ گیا سورج کی جوانی کا زمانہ
نظم: گرمیوں کی پہلی بارش
اختر حسین جعفری‘ معتوب اہل سخن میں سے تھے‘ تب ہی تو‘ نظر انداز ہوئے‘ اور پاریکھوں کے قلم پر نہ آ سکے۔ سچی اور خدا لگتی بات تو یہ ہے‘ کہ وہ عصر جدید کے بہت بڑے شاعر تھے۔ ان کی فکر عصری حوالوں کی عکاس ہے‘ لیکن زبان کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کی زبان کلاسیکل ہے‘ لیکن اس کا استعمال کلاسیکل نہیں۔ انداز اور اسلوب‘ کلاسیکیت سے میل نہیں کھاتا۔ زبان کی تفہیم کلاسیکل پیمانوں کے حوالہ سے‘ ممکن ہی نہیں۔ یہ صورت حال کس جدید شاعر میں دیکھنے کو نہیں ملتی۔ گویا وہ نئی شعری زبان کے موجد ہیں۔ ان کے لفظوں کو‘ سمجھنے کے لیے‘ عصری حیات کا شعور میسر ہونا ضروری ہے۔ عصری حیات کے شعور کے بغیر‘ ان کا کلام سمجھا نہیں جا سکتا۔
لفظ کی تفیم کے بارے میں ان کا موقف ہے۔
کہاں ہے جوہر صورت کہاں زر معنی
جگائیں حرف کو خواب سفر سے اور پوچھیں
کہاں وہ قصر ہے جس کے کھلے دریچے سے
دکھائی دیتا ہے مفہوم کا نیا چہرا
ایک دوسری جگہ کہتے ہیں
بتائے کون کہ کاغذ کی سطح خالی پر
بغیر حرف بھی نقطہ وجود رکھتا ہے
اب ان کے چند اک محاکاتی مرکبات ملاحظہ فرمائیں
فرش سماعت
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔
اٹھائیں فرش سماعت سے لفظ لفظ کی خشت
صدا کے خشک سمندر کو چھان کر دیکھیں
برہنہ آنکھ
اب اس مرکب کو مصرعوں کے تناظر میں ملاحظہ فرمائیں۔
ملے فراغ کبھی جو خمار حاصل سے
برہنہ آنکھ سے وہ نشہء سفر دیکھوں
تین مرکباب اور دیکھ لیں لطف آئے گا۔
بینیوں کے طلسم
طلب کی ہوا
گریز کے پھول
مصرعے دیکھیے
سر نگاہ وہی پیش بینیوں کے طلسم
وہی طلب کی ہوا‘ وہی گریز کے پھول
کمال ہے‘ غالب کا لہجہ‘ غالب کا سا انداز اور تفہیم کے ضمن میں وہ ہی دشواری۔
مقصود حسنی بھی نظرانداز اہل سخن میں سے ہیں۔ ان کی یہ نظم دیکھیے ایک ہی نظم میں سات محاکاتی مرکبات پڑھنے کو ملتے ہیں۔
ممتا
ممتا جب سے
صحرا میں کھوئی ہے
خون میں سوئی ہے
کشکول میں بوئی ہے
سفید پرندہ
خون میں ڈوبا
خنجر دیواروں پر
چاند کی شیشھ کرنوں سے
شبنم قطرے پی کر
سورج جسموں کی
شہلا آنکھوں میں
اساس کے موسم سی کر
کھنڈر ہونٹوں پر
سچ کی موت کا قصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا کے اشکوں سے
لکھ کر
برس ہوئے
مکت ہوا
خنجر دیواریں‘ شیشھ کرنیں‘ سورج جسم‘ شہلا آنکھیں‘ اساس کے موسم‘ کھنڈر ہونٹ‘ جیون کی گیتا
درج بالا معروضات کے تناظر میں‘ یہ کہنا کسی طرح غلط نہ ہو گا‘ کہ جدید شاعری کا مطالعہ‘ فکری اسلوبی اور لسانی حوالہ سے‘ غیر مفید نہیں رہے گا۔ اسی طرح معتوب اور نظر انداز شعرا کو تحقیقی ورثے میں داخل کرنا‘ زبان کو ثروت دینے کے مترادف ہو گا۔ نئے نئے محاورے دستیاب ہوں گے۔ استعارے‘ علامتیں‘ تشبیہات وغیرہ ہاتھ لگیں گی۔ یہ تردد اور توجہ‘ اردو زبان پر بہت بڑی نیکی ہو گی۔