پہلا قدم
نواب غلام حسین مزاجا اور عادتا‘ دوسرے نوابوں سے‘ کسی طرح مختلف نہ تھا۔ پتہ نہیں‘ پیر خدا بخش‘ اس کے ساتھ کیسے چل رہے تھے۔ سچے اور غیرت مند لوگ‘ نواب غلام حسین جیسوں سے‘ کنارہ کشی میں ہی‘ عافیت سمجھتے ہیں۔ آگ اور پانی ایک ساتھ چل رہے تھے۔ پیر خدا بخش کے‘ تقوی‘ پرہیزگاری‘ قناعت اور خدا ترسی سے انکار‘ سراسر بددیانتی کے مترادف ہے۔ انہیں کبھی‘ کسی کے سامنے‘ ہاتھ پھیلاتے نہیں دیکھا گیا۔ کبھی کسی سے‘ مریدانہ وصولتے بھی‘ نہیں دیکھا گیا۔ ہاں بانٹتے‘ بیسیوں بار دیکھا گیا۔ ان کے باپ داد‘ا پیری مریدی کے پیشہ سے‘ وابستہ تھے۔ جو ملتا‘ ہضم کر جاتے تھے۔ فرمائش میں‘ عار محسوس نہ کرتے تھے۔
پیر خدا بخش‘ عجیب نیچر کے شخص تھے‘ ان کے بزرگ‘ ضرورت مندوں سے‘ وصول کر‘ ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ یہ ضرورت مندوں کی‘ ناصرف ضرورت پوری کرتے‘ بلکہ ان کے لیے دعا بھی مانگتے۔ انہوں نے‘ بزرگوں کی جمع پونجی‘ اس طرح لٹا دی تھی۔ ذاتی خرچہ‘ ایک آڑھت پر منشی گیری‘ کرکے پورا کرتے۔ پیروں والا‘ ایک بھی چالا‘ ان میں موجود نہ تھا۔ اس حقیقت کے باوجود‘ لوگ ان کی بڑی عزت کرتے تھے۔ اس کی شاید وجہ یہ تھی‘ کہ وہ سراپا مہر و شفقت تھے۔ کسی کی پریشانی اور دکھ سن کر‘ بےچین وبےکل ہو جاتے۔
پیر صاحب کا یہ انداز‘ میرے لیے حیران کن تھا‘ کہ ایک طرف فقیرانہ زندگی‘ تو دوسری طرف نواب غلام حسین جیسے کرپٹ اور بدقماش شخص سے بھی‘ میل مولاقات رکھتے ہیں۔ دوسرے تیسرے‘ اس کے ہاں چلے جاتے۔ اس سے‘ ان کا کوئی کام بھی نہیں تھا‘ اور ناہی کسی قسم کی‘ مالی غرض وابستہ تھی۔ وہ تو‘ کسی کو‘ جوں مار کر نہیں دیتا تھا۔ ہاں البتہ‘ چھینا اوربٹورنا خوب خوب جانتا تھا۔ پیر صاحب کے ساتھ موڈ اچھا ہوتا‘ تو ہنس ہنس کر باتیں کرتا‘ ورنہ نظرانداز کرتا۔ پیر صاحب تھے‘ ہر دو صورتوں کو‘ برابر لے رہے تھے۔ کوئی ایک بار نظرانداز کرتا ہے‘ تو آدمی‘ دوسری بار‘ ادھر کا رخ بھی نہیں کرتا۔ الله جانے‘ پیر صاحب کس مٹی سے اٹھے تھے‘ کہ اس پلید کا یہ انداز‘ برداشت کر جاتے۔ سامنے کھانے کی پڑی چیزوں کو‘ ہاتھ تک نہ لگاتے۔
ایک دن پتا چلا‘ کہ پیر صاحب نے‘ گلے میں رسی ڈال کر‘ پہایا لے لیا ہے۔ بڑی حیرت کی بات تھی‘ کہ پیر صاحب سموتھ زندگی کر رہے تھے۔ پرہیزگار اور باشرع شخص تھے۔ آخر انہوں نے‘ حرام موت کو‘ اپنا مقدر کیوں ٹھہرایا۔ پورے ایریے میں‘ سوال بن کر ابھرے‘ ہر زبان پر‘ الگ سے داستان تھی‘ لیکن یہ داستانیں‘ محض قیافے سے‘ گھڑی ہوئی تھیں۔ ان پر یقین کرنا‘ زیادتی کے مترادف تھا۔ مائی صاحبہ‘ یعنی اپنی بیگم کے رویے سے‘ دل برداشتہ ہو کر‘ حرام موت کو گلے لگا لیا۔ اس کہانی میں‘ کوئی دم نہ تھا۔ پاس پاس پڑے دو برتن‘ ٹکرا ہی جاتے ہیں۔ ساری عمر‘ مائی صاحب کے ساتھ گزارنے کے پعد‘ اب بڑپے میں‘ گلے میں پہایا ڈال کر‘ خودکشی کرنا یاد آ گئی۔ کیسی احمقانہ کہانی‘ گھڑی گئی تھی۔ دوسری کہانیاں بھی‘ بے سروپا تھیں۔ یہ کہانی چوں کہ نواب ہاؤس سے نکلی تھی‘ اس لیے معتبر خیال کی جا رہی تھی۔
پیر صاحب کے کتب خانے میں‘ جہاں اور بہت سی‘ نایاب کتب موجود تھیں‘ وہاں قلمی نسخے بھی موجود تھے۔ پیر صاحب کی موت کے بعد‘ کسی فاتح کی سی پیروی میں‘ سب جلا‘ یا ضائع کر دیا گیا۔ اتفاق دیکھیے‘ میں علاقے کی روڑی کے قریب سے‘ گزر رہا تھا۔ میں چند لمحوں کے لیے‘ وہاں رکا ۔ جلے کاغذ‘ ہوا میں تیر رہے تھے‘ راکھ اڑ رہی تھی۔ اس پرحسرت منظر نے‘ مجھے افسردہ کر دیا۔ زمانے کا یہ عجب دستور ہے‘ کہ جانے والے کی‘ پلی پلی جمع کی گئی‘ یادوں اور فکری سرمائے کو تباہ و برباد کر دیا جاتا ہے‘ تا کہ سچائی حقیقت اور ماضی کے ورثے کو‘ کفن تک میسر نہ کیا جائے‘ اور ماضی کو‘ اپنی مرضی اور منشا کے مطابق‘ استوار کرکے‘ مستقبل کو منتقل کر دیا جائے۔ میں ان ہی سوچوں میں غرق تھا‘ کہ میری نظر ایک نسواری رنک کے لفافے پر‘ پڑ گئی۔ میں جلدی سے‘ اس کی جانب بڑھا۔ لفافہ خدا معلوم‘ جلنے سے کیسے بچ گیا تھا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا‘ وہاں کوئی نہ تھا۔ میں نے‘ وہ لفافہ جیب میں ڈال لیا۔ پھر میں دبارہ سے‘ اس سامان حسرت پر‘ ایک نظر ڈالی‘ اور وہاں سے چل دیا۔
گھر آ کر‘ چند لمحوں کے لیے‘ ہاجراں اور بچوں کے پاس بیٹھا‘ پھر میں‘ اپنے کمرے میں آ بیٹھا اور بڑی احتیاط سے‘ لفافہ کھولا۔ لفافے میں پیر صاحب کا خط تھا۔ مجھے خط پڑھنے کی‘ ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ میں نے دل مضبوط کرکے‘ خط پڑھنا شروع کر دیا:
میری اس تحریر کو پڑھنے والے‘ تو خوش نصیب بھی ہے‘ اور بدنصیب بھی۔
خوش نصیب اس لیے‘ کہ جو ذمہ داری تیرے سر پرآنے والی ہے‘ وہ الله کے پیاروں کے حصہ میں آتی ہے۔
بدنصیب اس لیے‘ کہ یہ ذمہ داری اتنی آسان نہیں۔
اب تمیہں‘ جہاں دنیا کو نھبانا ہے‘ وہاں الله کی خوشنودی کے لیے‘ یہ فریضہ بھی انجام دینا ہے۔ میں جاتے جاتے‘ اپنی ذمہ داری نبھا رہا ہوں اور مجھے یقین ہے‘ کہ تم بھی نبھاؤ گے۔ یہ خط تمہیں ملا ہے‘ کسی اور کو بھی مل سکتا تھا‘ گویا الله نے تمہیں چن لیا ہے۔
مجھے معلوم تھا‘ کہ جو کام میں کر رہا ہوں‘ اس کے نتیجے میں‘ سدھار آ گیا‘ تو علاقہ جنت نظیر ہو جائے گا‘ اگر نہ آیا‘ تو میری جان جا سکتی ہے۔ میں باوجود تذلیل‘ نواب غلام حسین کے پاس جاتا تھا۔ انسانی بہبود کا کام کرتے‘ عزت اور بےعزتی کوئی معنؤیت نہیں رکھتے۔ اگر عزت‘ جاہ‘ جنت اور مال و منال کے لیے‘ اچھائی کی‘ تو یہ ذاتی غرض کے لیے ہوئی نا۔ انسان‘ پیدا ہی اچھا کرنے کے لیے ہوا ہے۔ اس سے‘ اچھا ہی ہونا چاہیے۔ الله انسان‘ اور اس کے ہر کیے کو‘ زیادہ جانتا ہے۔
نواب غلام حسین‘ زمین پر ایک لعنت ہے۔ وہ انسانی‘ عزت‘ وقار اور خوش حالی کا‘ کھلا دشمن ہے۔ وہ بڑا عیار اور مکار ہے۔ میرے قتل کے سلسلے میں‘ آواز تک‘ منہ سے نہ نکالنا‘ ورنہ تم بھی مارے جاؤ گے۔ تمہیں‘ ابھی بہت کچھ کرنا ہے۔ خیر اور نیکی پھیلاتے‘ مارے جاؤ گے‘ تو شہید ٹھہرو گے۔ مت بھولنا‘ شہید مرتے نہیں‘ وہ الله کے ہاں سے‘ خیر کا رزق پاتے ہیں۔
بیٹا‘ تمہیں غیر محسوس انداز میں‘ نواب غلام حسین‘ اور اس کے قریبیوں کی‘ اصلاح کرنا ہے۔ ہو سکتا ہے‘ تم کامیاب ٹھہرو۔ کامیابی نہ بھی ہوئی‘ اور تم مارے جاؤ‘ تو کوئی بات نہیں‘ تم مرو گے نہیں‘ زندہ رہو گے۔ الله کوئی اور بندوبست فرما دے گا۔ سفر کو‘ بہرصورت جاری رہنا چاہیے۔
میرا مارا جانا‘ ایسی کوئی بڑی بات نہیں۔ پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں‘ ایسا ہوتا آیا ہے‘ ہوتا رہے گا۔ یہ معمول کا مسلہ ہے۔ محسن کشی‘ پہلے سے چلی آتی ہے۔ محسن کشوں سے‘ قدرت سب کچھ چھین لیتی ہے‘ اور زمین و آسمان پر‘ ذلت و رسوائی‘ ان کا مقدر بن جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم‘ نمرود کے خیر خواہ تھے‘ اس نے صلہ میں اذیت دی۔ حضرت موسی‘ فرعون کے ہم درد تھے‘ لیکن وہ محسن کش نکلا۔ سقراط‘ خیر کی چلتی پھرتی علامت تھا‘ اسے زہر پلایا گیا۔ حضرت عیسی‘ کوئی معمولی شخص نہ تھے۔ وہ‘ جن کا وہ بھلا کر رہے تھے‘ وہ ہی انہیں صلیب تک لے آیا۔ حضرت محمد کو‘ اچھا کرنے کے جرم میں‘ پتھر مارے گیے۔ ہر طرح کی ازیت دی گئی۔ حضرت حسین‘ خیر کے رستے پر تھے‘ جن کی بھلائی کر رہے تھے‘ اور انہیں جہنم کی آگ سےبچانے کے لیے‘ کوشش کر رہے تھے وہ ہی پرلے درجے کے بدکردار نکلے۔ منصور خیر کا پرچارک تھا‘ کتنی اذیت ناکی سے‘ اسے قتل کیا گیا۔ سرمد میں‘ ہند سچائی کا سورچ تھا‘ اس کے ساتھ کیا گیا‘ ہند کا بچہ بچہ جانتا ہے۔
شاید تم بھی مارے جاؤ۔ بیٹا‘ ایک دن مرنا تو ہے ہی‘ کیوں نہ‘ انسان کی موت مرا جائے۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں‘ محسن کش‘ ابتر مرتے ہیں۔ قدرت ان سے‘ سب کچھ چھین لیتی ہے۔ نمرود چار سو سال‘ ذلت اٹھاتا رہا اور پھر ذلت کی موت مرا۔ فرعون کو‘ لمحہ بھر کو‘ چین میسر نہ تھا‘ اور برے انجام کو پنچا۔ سقراط کی موت کے بعد‘ یونان کو‘ کوئی زوال سے نہ بچا سکا۔ عیسی کی‘ خیر خواہی کے قاتل‘ بےنام ونشان ہو گیے۔ محمد کی‘ انسان دوستی کے دشمنوں کو‘ محمد ہی کے قدموں میں‘ پناہ ملی۔ حسین کے قاتلوں کو‘ طبعی موت نصیب نہ ہوئی‘ اور پھر بنو امیہ کے اقتدار کو‘ اندر ہی اندر گھن کھانے لگا۔ منصور کے بعد‘ لعنتی مقتدر‘ ارضی اور سماوی لعنتوں کا شکار ہو گیا۔ سرمد کا قاتل‘ سرمد کے قتل کے بعد‘ اڑتالس سال برسراقتدار رہا۔ ایک لمحہ کے سکون ترستا مرا‘ اور پھر‘ مغلیہ اقتدار پر ذلت و خواری مسلط ہو گئی۔ انسانیت کے محسنوں کے قاتلوں کا‘ یہ ہی انجام ہوا کرتا ہے۔
بیٹا‘ یہ سب کچھ اس لیے لکھ گیا ہوں‘ کہ سچائی‘ ہر حال میں سچائی ہے۔ سچے لوگ ہی‘ الله کے ہاں‘ مععتبر ٹھہرتے ہیں۔ گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ تمہیں زندگی کے ہر موسم میں‘ بڑے غیرمحسوس انداز میں‘ نواب غلام حسین کو‘ خیر کی طرف مائل و قائل کرتے رہنا ہے۔ کام شروع کرو گے‘ تو الله کی طرف سے‘ برکت کا‘ نزول ہوتا رہے گا۔ فکر نہ کرو‘ تم یہ سب کر سکو گے۔ میں یقین کے ساتھ‘ کہہ سکتا ہوں کہ الله نے‘ تمہیں چن لیا ہے۔
الله تمہار ہر قدم پر‘ حامی و ناصر ہو۔
فقط
خدا بخش
پیر صاحب‘ مجھے عجب ذمہ داری‘ سونپ رہے تھے۔ مجھے خود ہدایت کی ضرورت ہے‘ میں کسی کو‘ کیا ہدایت دے سکتا ہوں۔ میں پیر فقیر تھوڑا ہوں۔ میرے باپ دادا نے‘ یہ کام نہیں کیا‘ میں کیا کر سکوں گا۔
پھر میں نے سوچا‘ یہ نیکی کیا ہوتی ہے۔ میں دیرتک سوچتا رہا۔ آگہی کے دروازے کھلتے گیے۔ یہ کوئی ایسی پچیدہ بات نہیں‘ سیدھی سادھی بات ہے۔
زنا‘ چوری‘ ہیرا پھیری‘ دغا بازی‘ ظلم‘ زیادتی‘ حق تلفی وغیرہ نہ کرو لوگوں کو اس سے بچنے کی تلقین کرو۔
سچ بولو‘ سچ بولنے کی ہدایت کرو
انصاف کرو‘ انصاف کرنے کے لیے لوگوں کو کہو۔
دکھ درد میں‘ لوگوں کے کام آؤ۔
کسی دوسرے کا‘ مال غصب نہ کرو۔
صبر کرو‘ برداشت سے کام لو‘ اورمعاف کر دو۔
وہ مانیں نامانیں‘ تم انہیں کہتے رہو۔
میں دیر تک سوچتا رہا‘ پھر میں نے‘ یہ داری اٹھانے کا‘ فیصلہ کر ہی لیا۔ میں نے پیر صاحب کے خط کو‘ چوما‘ سینے لگایا۔ سکون‘ اطمنان اور ایک ٹھنڈک سی قلب وجان میں اتر گئی۔
پھر ہاجراں‘ غصے سے بھری‘ کمرے میں داخل ہوئی‘ اور میری غیر ذمہ داریوں کا رونا‘ رونے بیٹھ گئی۔ سچی بات تو یہ ہی ہے‘ کہ وہ سچی تھی‘ اور مجھے میری کوتاہیوں کا‘ آئینہ دے رہی تھی۔ اس کے چیخنے اور چلانے پر‘ میرا غصہ بنتا ہی نہ تھا۔ وہ دیر تک‘ بولتی رہی‘ میں سر جھکا کر‘ اپنی کوتاہیوں پر‘ مر مر مٹی ہوتا رہا۔ اچھی اور سچی بات کرنے والا‘ شاباش کا مستحق ہوتا۔ جب وہ چپ ہوئی‘ تو میں نے‘ اس کی طرف‘ مسکرا کر دیکھا‘ اور سوری کی۔ وہ حیران تھی‘ کہ آج مجھے کیا ہو گیا ہے۔ تھوڑی دیر تک‘ منہ کھولے بیٹھی رہی اور پھر مسکراتی ہوئی ‘ اٹھ کر چلی گئی۔
یقین مانیے‘ اس وقت‘ اس کے چہرے پر‘ گلابوں کا حسن اتر آیا تھا۔ رات کا سماں ہوتا‘ تو چاند‘ اس کے چہرے کی روشنی دیکھ کر‘ شرمندگی کی کھائی میں جا گرتا۔ سچائی کی جیت کا‘ یہ پہلا قدم تھا۔