جواب کا سکتہ
اس دن‘ کوئی سامی نہ آئی۔ یہ میری نوکری کا‘ غالبا پہلا اتفاق تھا‘ ورنہ دو سے زیادہ‘ سامیاں معمول میں شامل تھیں۔ بھوک تھی‘ کہ سر چڑھ کر بول رہی تھی۔ مجھے اپنی اس بےقابو بھوک‘ کا احساس تو تھا ہی‘ لیکن میرا دھیان رقیہ اور اپنے بچوں کی طرف‘ لگا ہوا تھا۔ ان کا کیا حال ہو رہا ہو گا۔ وہ بے چارے تو گھر کے کھانے کے عادی ہی نہ تھے۔ اس کا مطلب یہ نہیں‘ کہ رقیہ کھانا پکانا نہیں جانتی تھی۔ وہ سلائی کڑائی اور کوکنگ میں مہارت رکھتی تھی‘ لیکن وہ اس کام کو‘ غیر شائشتہ اور غیر مہذب قسم کا کام‘ سمجھتی تھی۔ یہ ہنر رکھتے ہوئے بھی‘ اپنے ابا کے گھر میں‘ بہت کم‘ کچن میں داخل ہوتی تھی۔
شادی کے پہلے دن ہی‘ اس نے اپنی اس کمزوری سے‘ آگاہ کر دیا تھا۔ میں نے چند لمحوں کے لیے‘ سنجیدگی اختیار کی اور پھر‘ بڑے افسردہ انداز میں کہا: چلو ٹھیک ہے‘ کچھ کر لیں گے۔ اصل بات تو یہ تھی‘ کہ مجھے بڑی خوشی ہوئی۔ میں نے آج تک‘ گھر سے کھایا ہی نہ تھا۔ مجھے گھر کا کھانا کبھی خوش نہیں آیا ۔ وہ دن اور آج کا دن‘ میں اپنی کھا لیتا اور رقیہ کی‘ نور محمد کے ہاتھ‘ گھر بھیج دیتا۔ یہ ہی روٹین سالوں سے چلا آتا تھا۔
گھر پر نہ کھانے کے سبب‘ گھروں پر جھگڑے ہو جاتے ہیں۔ کھانے کی صورت میں‘ لون مرچ کے کم یا زیادہ ہونے کی صورت میں‘ بھی جھگڑے کا رستہ کھل جاتا ہے۔ اب اس کی کمزوری میرے ہاتھ میں تھی۔ محتاجی بھی نہ رہی تھی۔ اب میرا پاؤں‘ اوپر تھا اور وہ میری محتاج تھی۔ گویا میں بیجھوں گا‘ تو ہی کھائے گی۔
آج چوں کہ کوئی سامی ہاتھ نہ لگی تھی‘ اس لیے میں نے‘ تیسرے درجے کے ہوٹل سے کھایا اور گھر بھی اسی ہوٹل سے بھجوایا۔ سچی بات تو یہی ہے‘ کہ لقمے حلق کے نیچے اترتے ہی نہیں تھے۔ خیر‘ کیا کرتا‘ پیٹ تو بھرنا ہی تھا۔ پیٹ بڑا بےلحاظ ہوتا ہے۔ روکھا سوکھا ہی کیوں نہ ملے‘ اسے ملنا شرط ہے۔ ذائقے کی بات‘ بعد میں آتی ہے۔ آج کے حادثے نے ثابت کر دیا تھا‘ کہ بھوک کی صورت میں‘ گھٹیا سے بھی‘ کام چل سکتا ہے اور ذائقہ ثانوی حیثیت رکھتا ہے۔
میں کھانے سے فراغت کے بعد‘ سیٹ پر آبیٹھا۔ آج پلے سے‘ اور بدمزہ کھانا کھانے کے باعث‘ میرا موڈ بڑا اپ سٹ تھا۔ اوپر سے یہ سوچ کر‘ گھبراہٹ سی ہونے لگی کہ گٹھیا کھانا ملنے کے باعث‘ رقیہ اور بچوں کا موڈ خراب ہو گیا ہو گا۔ اب میں کیا کرتا‘ کوئی سامی‘ ہتھے ہی نہیں چڑھی تھی۔ نور محمد بھی اداس اداس سا تھا۔ اسے یہ تو معلوم تھا‘ کہ میں کھانا کھانے گیا ہوں۔ وہ یہ نہیں جانتا تھا‘ کہ میں نے پلے سے کھایا ہے۔ میں نے‘ کسی دوسرے ذریعے سے‘کھانا گھر بھجوایا تھا۔ اس کی دو وجوہ تھیں۔
نور محمد آگاہ ہو جائے گا‘ کہ میں نے گھٹیا کھانا گھر بھجوایا ہے۔
وہ یہ بھی جان جائے گا‘ کہ رقیہ کی زبان‘ قنچی سے بڑھکر کترنے میں تاک ہے۔
کھانا کھائے‘ ابھی پانچ منٹ ہی ہوئے ہوں گے‘ کہ ایک سامی آ گئی۔ مجھے اس پر بڑا تاؤ آیا۔ کتنے فضول لوگ ہیں‘ وقت کووقت نہیں دیکھتے۔ جب دل چاہتا ‘منہ اٹھا کر چلے آتے ہیں۔ پتہ نہیں‘ ان لوگوں کو کب عقل آئے گی۔ وقت کی قدر نہ کرنے کی وجہ ہی سے‘ یہ خطہ ترقی کی دوڑ میں پیچھے رہ گیا ہے۔ غصے سے‘ میرا بی پی ہائی ہو گیا اور مجھے چکر سے آنے لگے۔ وہ میری حالت دیکھ کر گھبرا گیا۔ جانے لگا‘ پھر جانے کیا سوچ کر‘ پیچھے مڑا اور مجھے ہسپتال لے گیا۔ میری حالت کے پیش نظر‘ مجھے ایمرجنسی میں بھرتی کر لیا گیا۔
سچی بات تویہ ہے‘ اس شخص نے‘ میری بڑی خدمت کی۔ پلے سے‘ دوائیں وغیرہ لا کر دیتا رہا۔ دیگر‘ اس کی بھاگ دوڑ کو بھی‘ شک کی نظر سے‘ نہیں دیکھا جا سکتا۔ میں ہسپتال میں تین دن رہا۔ تشخیص پر‘ معلوم ہوا‘ کہ خرابی ناقص غذا کے باعث ہوئی تھی۔ مجھے سامی پر غصہ آیا‘ کہ کم بخت تھوڑا پہلے چلا آتا‘ تو مجھے ہسپتال کی راہ نہ دیکھنا پڑتی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ پر موجود تھی‘ کہ اس نے میری اپنوں سے بڑھ کر‘ خدمت کی تھی۔
میں نے سیٹ پر آتے ہی‘ اس کی فائل مکمل کی۔ موصولہ میڈیکل بل‘ مروجہ ریٹ سے کم تھا۔ دوسرا تکلیف بھی‘ اس کی تساہل پسندی کی وجہ سے‘ ہوئی تھی‘ اس لیے میں نے‘ اس سے وصولی کو‘ غیر اصولی نہ سمجھا۔
میرے لیے‘ ایک بات حیرت کا سبب بنی رہی‘ کہ آخر رقیہ اور بچوں پر‘ ناقص غذا کا اثر کیوں نہ ہوا۔ آخر ان کے معدوں نے‘ اس گھٹیا خوراک کو‘ کیوں کر برداشت کر لیا۔ وہ تو مجھ سے‘ کہیں بڑھ کر‘ نازک طبع کے مالک تھے۔ بات آئی گئی ہو گئی اور معاملہ روٹین میں آ گیا۔
ایک دن مجھ پر یہ راز کھلا‘ کہ کھانا‘ اس کے ابا اماں کے گھر‘ جاتا تھا اور یہ نیک فریضہ‘ نور محمد انجام دیتا تھا۔ رقیہ خود اور بچوں کو گھر کا کھانا کھلاتی تھی۔ اس بات کو‘ دو سال ہو گیے ہیں اور میں اس گتھی کو‘ آج تک نہیں سلجھا سکا‘ کہ کسی بچے نے‘ بھول کر بھی‘ نہیں بتایا‘ کہ وہ کھانا اپنی ماں کے ہاتھ کا پکا ہوا‘ کھاتا ہے۔ سوچ میں ہوں‘ کہ رقیہ نے آخر کھانا نہ پکانے کا‘ پہلے ہی روز کیوں عذر کیا تھا۔ آخر مجھے ہی کیوں‘ وہ کھانا پکا کر نہ دینا چاہتی تھی۔
میں خوب جانتا ہوں‘ کہ میری کمائی کا بڑا حصہ‘ اس کی اماں ابا کی‘ گرہ میں جاتا ہے۔ یقینا یہ بہت بڑا تیاگ تھا‘ کہ وہ بہترین کھانا‘ جو اس کے‘ اور اس کے بچوں کے منہ کا تھا‘ اپنے ابا اماں کو بھیج دیتی تھی۔
مجال ہے‘ جو نور محمد نے‘ کبھی اس حقیقت کو کھولا ہو۔ بلاشبہ‘ وہ وفادار ملازم تھا۔ میرا ناسہی‘ فریق مخالف کا سہی۔ شاہوں کے‘ گماشتے بھی‘ یہ ہی کرتے آئے ہیں۔ کھاتے شاہ کا ہیں‘ وفاداری شاہ کے دشمنوں سے نبھاتے ہیں۔ اس میں ایک حقیقت یہ بھی موجود تھی‘ کہ افسر کی بیگم سے بنا کر رکھو‘ اس سے ناصرف افسر سیدھا رہتا ہے‘ بلکہ دوہرا حصہ ہاتھ لگتا ہے۔ بہت سے کام نکلواتا تھا۔ مخصوص سامیوں کے کام‘ بیگم‘ نور محمد کے ذریعے‘ نکلواتی تھی۔ اس میں سے بھی‘ نور محمد اپنا حصہ وصولتا تھا۔
یہ باتیں تو ضمنا کہہ گیا ہوں‘ اصل سوالات کا جواب‘ میرے لیے چیلنج بنا ہوا ہے۔ میں کسی کے سامنے اپنا معاملہ نہیں رکھ سکتا۔ بیگمات لین دین میں‘ موثر کردار ادا کرتی آئی ہیں‘ لیکن میرے سوال‘ یقینا اپنی نوعیت کے ہیں‘ اور دفتری تاریخ میں‘ اپنی مثال نہیں رکھتے۔
خدا کے لیے‘ کوئی بتائے‘ یہ سب کیا تھا۔ آخر میں‘ کب تک‘ سوال کے‘ جواب کے سکتے پر‘ حیرت زدہ کھڑا رہوں گا۔
2-4-1972