مقصود حسنی کے کلام میں مشرقی تلمیحات کا استعمال
از
ڈاکٹر محمد محمد ریاض انجم
برصغیر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ وہ یہاں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے۔ اہل یونان کے لیے بھی یہ علاقہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اہل ایران کے بھی اس خطہءارض سے رشتے بڑے مضبوط رہے ہیں۔ ملتان سے گجرات اور وہاں سے گلبرگہ گولکنڈا بیجاپور وغیرہ سے ان کے روابط کافی دیرینہ ہیں۔ برصغیر کے لوگ بھی ایران جاتے تھے۔ جنوبی ہند میں خونی رشتوں کا سراغ ملتا ہے۔ جنگ سلاسل میں ان کی شمولیت بتائ جاتی ہے۔
برصغیر سے بدھ مذہب کے پرچارک برصغیر سے باہر گیے۔ برصغیر کا ان علاقوں کے علاوہ جاپان افغانستان انڈونیشیا ملالیشیا وغیرہ سے بھی واسطہ رہا ہے۔
برصغیر میں تبلیغ اسلام کے لیے عرب یہاں تشریف لاءے۔ صحابہ تابعین اور تبع تابعین یہاں تشریف لاءے۔ بہت سے یہاں کے ہو کر رہ گیے۔ ٤٤ہجری سے پہلے اور ٤٤ہجری میں فوج کشی بھی ہوئ۔ تاہم ٧١٢ میں محمد بن قاسم بطور فاتح وارد ہوا اور اس کے بعد مسلم جرنیلوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مغلیہ سلنطنت کے زوال تک جاری رہا۔ برصغیر پر ترکی خلافت کے حوالہ اثرافرینی رہی۔ یہاں مسلم حکومت کی حکومت کی برقراری کے لیے خلافت کی جانب سے سند بھی اقتداری لازمہ رہی ہے۔
برصغیر سے ان دور نزدیک کے ممالک اور ریاستوں سے تعلق کے نتیجہ میں سماجی معاشی عسکری اور سیاسی روایات اور رویے درآمد ہوءے۔ ان زبان کے الفاظ اصطلاحات اسما کہاوتیں ضرب الامثال محاورے اور تلمیحات وغیرہ بھی وافر درآمد ہوءیں۔ ان کا ناصرف روزمرہ کی بول چال میں رواج ہوا بلکہ تحریروں میں بھی مستعمل ہو گیں۔ گویا ہر بدیسی سوغات مقامی زبانوں کا لسانی ذخیرہ ٹھہری۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناصرف مفاہیم میں تبدیلی آئ بلکہ اجنبیت بھی ختم ہو گئ۔ آج جلوس حور اسامی احوال راشی تماشا سیر اردو والوں کے لیے غیر نہیں رہے۔ جمشید اور محمود کو ہر کوئ جانتا ہے۔ نماز روزہ اور حج کے مفہوم سے غیر مسلم بھی آگاہ ہیں۔ منصف اور محتسب سے کون آگاہ نہیں۔ دعا سلام کے مسلم کلمے ہر کوئ جانتا ہے۔
دوسرے ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والے تعلقات سے جو رسم و رواج معاشرتی معمولات کے تحت جو مواد میسر آیا اس سے زبانوں کو ثروت میسر آئ اور یہ سب یہاں کی زبانوں کا مستقل اثاثہ ٹھہرا۔ بہت ساری درآمدہ اصطلاحات وغیرہ کا استعمال تلمیحی روپ اختیار کر گیا ہے۔
عصری شعرا میں مقصود حسنی کے ہاں مغربی اسلامی ہندی کے علاوہ بہت ساری دوسری مشرقی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں اور یہ دو چار نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اس معاملہ میں غالبا عصری شعرا میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ان تلمیحات میں اچھا خاصا تنوع ملتا ہے۔ ان تلمیحات کے تناظر میں وہ نءے نءے مضامین دریافت کرتے ہیں۔ اس تنوع اور پیغامی شاعری کے تحت شاید آتا کل انہیں اس عہد کے بڑے شعرا کی صف میں کھڑا کرے گا۔ خیر یہ معاملہ آتا کل واضح کرے گا۔ سردست ان کی تلمیحات کی فہرست فراہم کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر سطور میں ان مشرقی تلمیحات‘ مثالوں کے ساتھ درج کر رہا ہوں تا کہ قاری ان کے ہاں موجود مضامین کے نءے نءے انداز و اطوار سے آگاہی حاصل کر سکے
کل
ارضی خداؤں کا منکر
خوف باری سے لبریز
پیام نبی کا نقیب تھا
آج کو
عظیم کر دو
کہ آج‘ کل سے
کم نہیں
آج کو عظیم کر دو
جمشید خبر کے لیے
پیالے میں دیکھتا تھا
ٹوٹ جاتا تو وہ بےبصر ہوتا
حاجت نے ڈبو دیا اس کو
ورنہ خبر تو
مرد حق کی نظر میں ہوتی ہے
نظر
قبر کا در وا ہوا
بولا
قیامت ہو گئ ہے؟
باہر کرخت اندھیرے تھے
اجالوں میں
سرخی ڈوب گئ تھی
نہیں
مجھے یہیں رہنے دو
رہنے دو
عریاں سماج
راہ تکتے ہیں
اک اور خمینی کی
انتظار
کوہ نور کا ہیرا لے گیے تھے وہ
کعبہ بھی لے جاءیں کے اب
رک نہ جاءیں کہیں
شراب وشباب کے
خوشگوار سلسلے
سلسلے
عرش پر فرشتے
آدم کے حضور
سجدہ ریز رہے
زمین پر آدم
غیر معتبر ٹھہرا
غیر معتبر
ٹھہری ٹھہری نظروں سے
سرخ لہو
تم دیکھ رہے ہو
میں دیکھ رہا ہوں
گوتم سے کوئ کہہ دے
سنکھ بجاءے
مسیحا زندہ کر دے
پتھروں کو
حجر اسود سے بالا ہیں
دھڑکنوں سے معمور ہوں
اگر یہ پتھر
پتھر :نظم
ان کو
بوتل کا دودھ پلایا ہو گا
ان کی رگوں میں ترا دودھ نہیں
دودھ‘ فقط تیرا دودھ ہوتا تو
یہ خلافت ارضی کے وارث ہوتے
آخری مانگ :نظم
دیکھتا اندھا سنتا بہرا
سکنے کی منزل سے دور کھڑا
ظلم دیکھتا ہے
آہیں سنتا ہے
بولتا نہیں کہتا نہیں
جہنم ضرور جاءے گا
ایندھن
دن کے اجالے
خاموش اداس
ہمالہ مٹی کا ڈھیر
حرکت سے عاری
تو‘ مٹی کا ڈھیر
حرکت سے عاری
نظم: عاری
آوازوں کی اس بھیڑ میں
سر جھٹک کر بولا
تیز ہوا کا جھونکا ہو گا‘ جو
خلیل جبران کے مجموعوں کےورق
الٹ رہا ہے
نظم:جھونکا
شعلہ سا لپکا
طور‘ طور نہ رہا
راکھ کا ڈھیر ہوا
کیا عروج ہے
پی کے ہستی
مدینے کا وء کمبل پوش
بہلے چپ رہا تھر مسکرا دیا
نظم: کمبل پوش
سنا ہے
یوسف کی قیمت
سوت کی اک انٹی لگی تھی
کہ وہ مجبور تھا
دور حاضر کا مرد آزاد
دھوءیں کے عوض
ضمیر بیچ رہا ہے
نظم: سنا ہے
میز پر پڑا لال آمیزہ
زندگی سے خالی تھا
دامن میں پھر بھی اس کے
مسیحائ کا بھرم تھا
نظم: بھرم
اس نے کہا
میں آپ کا بھائ ہوں
رفعت کیوں لٹ گئ؟
نظم: وعدہ
ڈوبتی سانسوں کو
مسیحا کی ضرورت نہیں
گوشت گدھ کھاءیں گے
ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں
نظم: سورج دوخی ہو گیا تھا
وہ آگ
عزازءیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ کا ایندھن
قارون نے پھر خرید کیا
اس آگ کو فرعون پی گیا
اس آگ کو حر نے اگل دیا
یزید مگر نگل گیا
اس آگ کو
میر جعفر نے سجدہ کیا
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی
اس آگ کے شعلے
پھر بلند ہیں
مخلوق ارضی
ڈر سے سہم گئ ہے
ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے
کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں
صبح ہی سے تو
آسمان نکھر گیا ہے
نظم: صبح ہی سے
1980
مخلوط نسل
میت پر ماتم نہیں کرے گی
گرجوں میں قرآن سجاءے گی
مسجدیں
اصطبل ہوں گے
گھوڑوں کے
نظم: قربت
جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟!
رند ہوں بدر کا
جا مے میں
حیدر کی جرآت
بوزر کا فقر ملا کے لا
ٹیپو کی غیرت
اقبال کی خودی ملا کے لا
لا ساقیا لا
ایسی مے بنا کے لا
نظم: بدر کا رند
کئ بار گری
آخر چڑھ ہی گئ
چونٹی مگر وہ اس دور کی تھی
نظم:المیہ
مجھے اس کی فکر نہیں
کوئ ماں فرعون جنم دے گی
ہاں نیل کا سکوت دیکھ کر
ڈر جاتا ہوں
اب وہ آ کر جاءے گا نہیں
بنی اسراءیل کے بچوں کا قتل
کوئ موسی روکنے نہیں آء گا کہ
نبوت کے سب در بند ہیں
نظم:در بن
ماں‘ ماں ہوتی ہے
اس کی آنکھوں میں
دو عالم کے سکھ
اس کا سایہ
بھگوان کی کرپا
رحمان کی دیا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
ذلیخا کا عشق سچا سہی
وہ برہنہ پا کب چلی تھی
وقت کیسا انقلاب لایا ہے
کہنے لگا: میں خدا ہوں
فرش کا وارث
عرش کا وارث
بڑھ کر میرے قدم لو
.............
لوگوں کی آنکھوں میں بے بسی
ہونٹوں سے لپٹی بے کسی تھی
ہاتھ اٹھے ہوے تھے
کوئ موسی آءے
ساتھ اپنے عصا لاءے
نہ اب کربلا کا کوئ سامان ہو
کہ تدبیر کی
اس کے پاس کب کمی ہے
رحمت خدا کی
پتھر کو موم کر دے
کہ وہ رحمان و رحیم ہے
یا ظلم مٹے
اس کے قہر و غضب سے
کہ وہ قہار و جبار ہے
خوشبو کی تمازت سے
زیست کے ہونٹوں پہ
پیاس رکھ دی
جیون کا نم
خون جکر پی کر
ہستی کی ناتمام آرزوں پر
مسکرایا
آدم سٹپٹایا
حیات کا سفر
موت کی دہلیز تلک لے آیا
ان دیکھے کھیل
بھوک پیاس اور غلامی
آسمان سے کب اترے ہیں
فرعون کا یہ تحفہ
نحیف کندھوں سے
نحیف کندھوں تک
موت کی علامت بن کر
زیست کو
ورثہ میں ملا ہے
جام سقراط کو
جی بسم الله کہہ کر
ہونٹوں سے لگا لو
یا پھر
ہونٹ سی کر
لوسی فر کے چرنوں میں
اپنے کندھے رکھ دو
کہ زیست شانت رہے
ورثہ
میر جعفر نے
مگر لوٹ لیا ہے
کس سے فریاد کریں
جس ہاتھ میں
گلاب وسنبل
اس کی بغل میں خنجر
کمزور کی جیون ریکھا کا
رام بھلی کرے گا
آنکھ میں پانی
آب کوثر
.........
گنگا جل ہو کہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
بے انت سمندر
مرے بولوں کی تڑپت
مرے گیتوں کی پیڑا
مرزے کی کوئ ہیک نہیں
مرے اشکوں کا شرینتر تھا
اس سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوباماہی رب
لکھ رہا ہے
فرات کا دامن
آس کے پنچھی
پون کی کامنا لے کر
صاحب ولایت کے در پر
کھڑے ہیں
غربی ہبل
اساس کے موسم سی کر
کھنڈر ہونٹوں پر
سچ کی موت کا قصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا کے اشکوں سے
لکھ کر
برس ہوءے
مکت ہوا
ممتا
اس کی گردن کا سریا
کس ٹیپو نے توڑا ہے
............
سننے میں آیا ہے
ہم آگے بڑھ گءے ہیں
ترقی کر گءے ہیں
موسی اور عیسی
گرجے اور ہیکل سے
?مکت ہوے ہیں
................
سننے میں آیا ہے
ہم آگے بڑھ گءے ہیں
ترقی کر گءے ہیں
گوءٹے اور بالی
ٹیگور تے جامی
سیوفنگ اور شیلی
سب کے ٹھہرے ہیں?
................
منصف
ایمان قرآن کی کہتتا ہے?
سننے میں آیا ہے
الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا
حاتم سے ہے چھل
...............
مہر محبت سے بھرپور
نیم کا پانی
نہ کڑا نہ کھارا
وہ تو ہے
آب زم زم
اس میں رام کا بل
چل' محمد کے در پر چل
قانون کے رکھوالے
چوراہے پر
ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں
صلیب پر لٹکا دو
مفتی کا فتوی ہے
در وا کر دو
قیس کی بولی تو سب بولیں
ستے کے سب رستے
جعفر کے گھر کو جاتے ہیں
منصور نے جیتے جی
سچ کو
کب بکتے دیکھا تھا
میں تم سے کہتا ہوں
جس مٹی سے
خمیر اٹھا تھا
اس مٹی کا رشتہ
برس ہوءے
ہونٹوں پر
چپ کی مہر ثبت کیے
بوزر کی شکتی
ڈھونڈ رہا تھا
برس ہوءے
کراءے کے قاتل
کیا بھکشا دیں گے؟
کرن ہماری کھا جا ہے
ہم موسی کے کب پیرو ہیں
جو آسمان سے من و سلوی اترے گا
بارود کے موسم
قسمت اچھی ہوتی تو
راکھشش جیون پراس
قرآن راج نہ ہوتاِ؟
قرآن راج
ترے در پر
مرنے کا مزا چھوڑ کر
خلد کی تمنا
جس روسیاہ کوہو گی
ابلیس کا ہمسایہ رہا ہو گا
ابلیس کا ہمسایہ
زیست کے واسطے سارے
سورگ کے دیو
عرش کے فرشتے سارے
مسجد ومحراب
کلیسا و مندر سارے
دیر وحرم
اہل صوف کے
میکدے سارے
کہکشاؤں کے سلسلے
نمو کی شبنم طرازیاں
بہاروں کی زمزمہ پردازیاں
حضور کے عشق کی
مسکانوں کا ثمر ہیں
ثمر
رام اور عیسی کے بول
ناچوں کی پھرتی
بے لباسی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوءے ہیں
دفتری ملاں کےمنہ میں
..................
طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں
سورج ڈوب رہا ہے
دریا کا پانی
بھیگی بلی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جینے کو تو سب جیتے ہیں
اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھا میں جلتے
سہمے سہمے سے بول
مسیحا بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
انارکلی کے
دیواروں میں چننے کا موسم
جب بھی آتا ہے
آس کے موسم مر جاتے ہیں
ہر جاتے ہیں
شاہ کی لاٹھی
پلکوں کی شام
ہر شام پر بھاری ہے
ڈرتا ہے اس سے
حشر کا منظر
پلکوں کی شام
کنگلے عاشق کے آنسو
مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں
میں تو
پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں
آنکھوں دیکھے موسم
تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے
کچھ سی بچا کر
آب زم زم میں ملا کر
امرتا کے ایوانوں میں
خود کو
پھر تم کو کھوجوں گا
تم مرے کوئ نہیں ہو
اسمبلی کے اکھاڑے میں
رقص ابلیس ہوتا ہے
گریب گلیوں میں
مقدر سوتا ہے
بھوک جاگتی ہے
فقیروں کی بستی میں
بینائ کا منبع
آنکھیں کھو بیٹھا
ہر آشا زخمی زخمی
ہر نغمہ عزراءیلی اسرافیلی
خون مں بھیگا
گنگاکا آنچل
پلکوں پر شام
شناخت اداس اداس
کنارے اس سمندر کے
پرسکون سہی
تہہ میںسامری کا ببچھڑا
اور صلیب عیسی
آنکھ سمندر
پریت بت کی شناسئ مانگے
عشق کربلا سی آبلہ پائ مانگے
...............
وہ پیکر فردوس
آنکھ کے سب ترکش
جو ساتھ لایا تھا
کب چلا پایا تھا
بے نوا دستک
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آب زم زم میں دھل کر
حوض کوثر میں کھلا گلاب
الله کی عنایت
محمد کی نظر عطا
حوض کوثر میں کھلا گلاب
ترے سینے میں
مری پیاس کےدیپ جلیں
ماں کے دل کی دھک دھک
خلد کے گیت سناءے
شہد سمندر
چپ
مت بولو
چپ کا روزہ رکھ لو
ہم حسین نہیں جو بولیں
یزید اترا ہے
فاختہ کا اترن لے کر
مت بولو
میں کب کافر رہا ہوں
کہ محبت کی عظمتوں سے انکار کرتا
خدا سے محبت ملی تو
فرشتوں نے سجدہ کیا
زمین کا وارث ہوا
کتابیں آسمان سے اتریں
پھلوں پر استحقاق ٹھہرا
سب پھول میرے ہوءے
آزاد پنچھی
رات اک شخص
ٹیپو کی قبر کی دھول میں
غیرت ایمانی تلاش رہا تھا
ہاءیکو
اندھیروں سے کہہ دو
جلتے دیے جھونپڑوں کے
بننے والے ہیں خمینی
ہاءیکو
آؤ ایک صف میں سب
سجدہ کریں کہ شاید
مہربان ہو جاءے‘
مہربان ہونا اس کی عادت ہے
ہاءیکو
تقلید حسین میں
زندگی آج پھر
جبر سے برسر پیکار ہے
ہاءیکو
انسان قطرے میں سمندر
خدا کا ادنی کمال ہے
تم اپنا ہنر کہو کوئ
ہاءیکو
جبر کا فرات
جوش میں ہے آج
آؤ عمر کا خط تلاش کریں
ہاءیکو
کاٹ شمشر کی فتح کی ضامن نہیں
کار جہاد میں مذاکرات‘ حیلے بیکار
قوت بازو شیر میسور پیدا کر
ہاءیکو
قطرہءندامت تریاق عصیاں
شعلہءنخوت‘ عذاب حشر
دونوں ہم سفر ہوءے ہیں میرے
ہاءءکو
فرات تو اک نقاب تھا ورنہ
ہر اجلے چہرے میں
فرعون کا چہرا ہو گا
ہاءیکو
انسان کی ساری شکتی
اب بھوک کا
تاج محل تعمیر کرے گی
ہاءیکو
ابن آدم اپنے کمال میں
خدا کی طرح
لا زوال ہے
ہاءیکو
مر کر جینے والے
کیسے ہوں گے
آؤ جاپان جا کر دیکھیں
ہاءیکو
جبریل کا اب یہا ں کام نہیں
زمین کا بڑا کہتا ہے
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے
ہاءیکو
میں فرہاد نہیں‘ خود کشی کر لوں گا
محبت اور حساب
دو مضمون رہے ہیں‘ مری نظر میں
ہاءیکو
جب سے بش کو امام کیا ہے
گھر گھر سے
روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے
ہاءیکو
سورج کو روک لو‘ ١٩٩٧
دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا
دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی
اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو
...............
انتخابی پوسٹر دیکھ کر یوں لگا
شہر میں کئ پیغمبر اتر آءے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حجرے میں بیٹھ کر رہ عشق میں
مرنے کی بات تو کرتا ہے وعظ
بڑا مشکل ہے تلوار پر آنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدہ میں جو گر گیے‘ کون جانتا ہے ان کو
میں بھی سجدہ میں گر جاتا اگر
تری کاوشوں میں منفرد ہوتا کیسے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل توڑتے نہیں مرے شہر کے فتوی گر
رقیب تو کافر تھا ہی
مسلمان بھی تو مسلمان نہ رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل اٹھ‘ یہاں کیا رکھا ہے
وعدہءفردا نہیں ہوتا
جن تلوں میں‘ تیل ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس امید پر سچائ پیش کروں
بھوک بڑھ گئ ہو تو
بھیڑ کا بچہ‘ سچا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کارواں کا ہو وہ امیر
وہاں لٹیرے لینے آءیں گے کیا
فرشتہءاجل کو بھی‘ سکوں مل سکے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آنکھ میں نہ بس
کسی ایک کا ہو جا
طواءف ترس جاتی ہے‘ گھر کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی محبت میں سب کچھ ہار دیا
وہ تو باشندہ تھا چاند ستاروں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین دولت سہی‘ میں نہیں مانتا
عیسی کے حواری‘ کب دار تک آءے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن کسے متاثر نہیں کرتا
پھر بھی احتیاط اچھی ہے
گلاب میں چھپا ہوتا ہے سانپ اکثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے زنجیر عدل ہلائ تو
الحاد کا طعنہ ہر زبان پر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر سے خالی ہوتا ہے وہ مکان
جو باہر سے تاج محل دکھائ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگنے سے کیوں ڈرتے ہو؟
برستا نہیں وہ بادل
جو ہر پل گرجتا دکھائ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانا مجھے ہو‘ رستہ حضرت خضر بتاءیں
اس سے بڑھ کر‘ توہین منزل کیا ہو گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدمت کہو
صیاد کی مہربانی
مطلب سے خالی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان برف آنکھوں میں
سورج نہ اتارو
زمین‘ طوفان نوح کی متحمل نہیں
............
اپنے عشق پر تمہیں ناز سہی
مگر اس سے دور رہو
تم مقصود ہو‘ براہیم نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر طواف کیا ترے مے خانے کا
اب لے رہا ہوں اپنے عشق کا امتحان
اب مے خانہ کرے طواف‘ مرے آگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہبل کو تم خدا سمجھو تو سمجھو
شرک اب مجھ سے نہیں ہو گا
مسلمان ہو گیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم و وزیر کو کیوں پڑھتا
غیض و غضب میں اک چہرا
دیوان میر و میزا سے کم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے تو پہاڑ ہوتےہیں
ہواؤں میں اتنی سکت کہاں
پھیر دیں رخ پہاڑوں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب اگر مری دسترس میں ہوتا
بچھا دیتا میں اس کو‘ تیرگی کے در پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو سب رستے فرات کو جاتے ہیں
جو پانی اصغر کا مقدر نہ بن سکا
اس پانی کو میں منہ لگاؤں کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی پانی میں مہتاب اترے
تم من میں اپنے پیاس اتر کر نکلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتوں کو گناہ کی لذت کیا معلوم تھی
اسی لیے ان کو
خلافت ارضی نہیں ملی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیٹ کا جہنم جب بھڑک اٹھا
قدموں کو بیچ کر
بیساکھیاں وہ خرید رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس چونچ میں اک نسل کی بقا ہو
قیامت ہے‘ اس چونچ پر‘ کوئ عقاب اترے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانپ بچے سے عزیز تھا اس کو
اپنے ہاتھوں وہ اس کو
دودھ پلا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نظر کب نظر رہتی ہے
اٹھ جاتی ہے جو سرکار کی جانب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک تسلسل سا ہے قصہ ہاءے عشق میں
آخر کب تک تقلید مجنوں و فرہاد کریں
................
فرشتے سجدہ میں کیوں نہ گرتے
آدم کو اپنے ہونے پر یقین تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو غیرت چمن تھا
صلیب پہ لٹکا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس لہو میں سرخی ہوتی ہے
وہ لہو گبھراتا نہیں
سرنگاپٹم کوچ کرنے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین کرنے ناکرنے سے کیا فرق پڑتا ہے
خدا معمہ ہی رہے گا روبرو آنے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آگ میں کود گیا وہ خلیل تھا
مرے لیے آگ؛ آگ رہے گی‘ یقین آنے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی پڑا رہنے دو مرا جنازہ ان کے در پر
جا نہ سکیں گے وہ مرے رقیب کے در پر
...........
جلاد! خاک ترا یہ کمال ہے
امن پسندوں کو
مرنے والوں کی سسکیاں‘ سونے نہیں دیتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشہ شراب کا ہو کہ شباب کا
معبود بنا دیتا ہے انسان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ ہو جا‘ اپنی نصیحت پاس ہی رکھ
اگر وہ جلنا ترک کر دیں گے
انھیں پروانہ کون کہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت سے جب کوئ مرا نام لیتا ہے
سمجھ جاتا ہوں میں
امتحان کی پل صراط سے‘ گزرنے والا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھوڑے بیچ کر سوتا رہا
ادھر رات کھا گئ روشنی کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر محفل جھوٹ کھول دیتا مگر
مروت کی قبا تھی
مرے بدن پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توڑ آیا وہ فاختاوں کے انڈے
یہ بول‘ پتھر کا جسم بول رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے انکار کی داستان تو لکھ دی
اس کے ہاتھ پر لہو‘ مورخ لکھ نہ سکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کب عیسی اسمان سے اترے
کربلا کی خاک سے نمود صبح ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں جو ہر کسی پر پتھر برساتی ہیں
لوگ ہیں کہ بدھ کے بھکشو ہوں جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریت کے دریا میں پیاس اگ آئ ہے
پھر کوئ زینب ننگے سر آگئ ہو جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درس صداقت سے پہلے وعظ
جا کربلا سے جا کر
صداقت کی قیمت تو پوچھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لے لیا تھا اس نے مرے فرشتوں سے قلم
لکھ دیا اپنا حساب‘ مرے حساب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بیوی سے کب ڈرتا ہوں
کانپ جاتا ہوں
جب کوئ تحفہ پکار اٹھتا ہے
میں تو ترے جوتے ترا سر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری نادانی تو ذرا دیکھو
جو بےکسی کے کیچڑ میں پڑا تھا
میں ڈھونڈھتا رہا اسے ستاروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری قبر پہ چراغاں نہ کرو
روشنی بچا لو
ادھر آ رہا ہے محبوب تمہارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہر سو موت کا منظر ہو
ابابیلوں کے پر کاٹ کر
حسن کی رکھشا کیسے ہو گی٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مرے اپنے ہو
کیسے یقین کر لوں
شناختی کارڈ جعلی بننے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از
ڈاکٹر محمد محمد ریاض انجم
برصغیر میں عربوں کی آمد کا سلسلہ صدیوں پرانا ہے۔ وہ یہاں تجارت کی غرض سے آتے رہتے تھے۔ اہل یونان کے لیے بھی یہ علاقہ دلچسپی کا باعث رہا ہے۔ اہل ایران کے بھی اس خطہءارض سے رشتے بڑے مضبوط رہے ہیں۔ ملتان سے گجرات اور وہاں سے گلبرگہ گولکنڈا بیجاپور وغیرہ سے ان کے روابط کافی دیرینہ ہیں۔ برصغیر کے لوگ بھی ایران جاتے تھے۔ جنوبی ہند میں خونی رشتوں کا سراغ ملتا ہے۔ جنگ سلاسل میں ان کی شمولیت بتائ جاتی ہے۔
برصغیر سے بدھ مذہب کے پرچارک برصغیر سے باہر گیے۔ برصغیر کا ان علاقوں کے علاوہ جاپان افغانستان انڈونیشیا ملالیشیا وغیرہ سے بھی واسطہ رہا ہے۔
برصغیر میں تبلیغ اسلام کے لیے عرب یہاں تشریف لاءے۔ صحابہ تابعین اور تبع تابعین یہاں تشریف لاءے۔ بہت سے یہاں کے ہو کر رہ گیے۔ ٤٤ہجری سے پہلے اور ٤٤ہجری میں فوج کشی بھی ہوئ۔ تاہم ٧١٢ میں محمد بن قاسم بطور فاتح وارد ہوا اور اس کے بعد مسلم جرنیلوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہو گیا اور یہ سلسلہ مغلیہ سلنطنت کے زوال تک جاری رہا۔ برصغیر پر ترکی خلافت کے حوالہ اثرافرینی رہی۔ یہاں مسلم حکومت کی حکومت کی برقراری کے لیے خلافت کی جانب سے سند بھی اقتداری لازمہ رہی ہے۔
برصغیر سے ان دور نزدیک کے ممالک اور ریاستوں سے تعلق کے نتیجہ میں سماجی معاشی عسکری اور سیاسی روایات اور رویے درآمد ہوءے۔ ان زبان کے الفاظ اصطلاحات اسما کہاوتیں ضرب الامثال محاورے اور تلمیحات وغیرہ بھی وافر درآمد ہوءیں۔ ان کا ناصرف روزمرہ کی بول چال میں رواج ہوا بلکہ تحریروں میں بھی مستعمل ہو گیں۔ گویا ہر بدیسی سوغات مقامی زبانوں کا لسانی ذخیرہ ٹھہری۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ناصرف مفاہیم میں تبدیلی آئ بلکہ اجنبیت بھی ختم ہو گئ۔ آج جلوس حور اسامی احوال راشی تماشا سیر اردو والوں کے لیے غیر نہیں رہے۔ جمشید اور محمود کو ہر کوئ جانتا ہے۔ نماز روزہ اور حج کے مفہوم سے غیر مسلم بھی آگاہ ہیں۔ منصف اور محتسب سے کون آگاہ نہیں۔ دعا سلام کے مسلم کلمے ہر کوئ جانتا ہے۔
دوسرے ممالک کے ساتھ پیدا ہونے والے تعلقات سے جو رسم و رواج معاشرتی معمولات کے تحت جو مواد میسر آیا اس سے زبانوں کو ثروت میسر آئ اور یہ سب یہاں کی زبانوں کا مستقل اثاثہ ٹھہرا۔ بہت ساری درآمدہ اصطلاحات وغیرہ کا استعمال تلمیحی روپ اختیار کر گیا ہے۔
عصری شعرا میں مقصود حسنی کے ہاں مغربی اسلامی ہندی کے علاوہ بہت ساری دوسری مشرقی تلمیحات پڑھنے کو ملتی ہیں اور یہ دو چار نہیں سیکڑوں کی تعداد میں ہیں۔ اس معاملہ میں غالبا عصری شعرا میں نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ ان تلمیحات میں اچھا خاصا تنوع ملتا ہے۔ ان تلمیحات کے تناظر میں وہ نءے نءے مضامین دریافت کرتے ہیں۔ اس تنوع اور پیغامی شاعری کے تحت شاید آتا کل انہیں اس عہد کے بڑے شعرا کی صف میں کھڑا کرے گا۔ خیر یہ معاملہ آتا کل واضح کرے گا۔ سردست ان کی تلمیحات کی فہرست فراہم کرنا مقصود ہے۔ زیر نظر سطور میں ان مشرقی تلمیحات‘ مثالوں کے ساتھ درج کر رہا ہوں تا کہ قاری ان کے ہاں موجود مضامین کے نءے نءے انداز و اطوار سے آگاہی حاصل کر سکے
کل
ارضی خداؤں کا منکر
خوف باری سے لبریز
پیام نبی کا نقیب تھا
آج کو
عظیم کر دو
کہ آج‘ کل سے
کم نہیں
آج کو عظیم کر دو
جمشید خبر کے لیے
پیالے میں دیکھتا تھا
ٹوٹ جاتا تو وہ بےبصر ہوتا
حاجت نے ڈبو دیا اس کو
ورنہ خبر تو
مرد حق کی نظر میں ہوتی ہے
نظر
قبر کا در وا ہوا
بولا
قیامت ہو گئ ہے؟
باہر کرخت اندھیرے تھے
اجالوں میں
سرخی ڈوب گئ تھی
نہیں
مجھے یہیں رہنے دو
رہنے دو
عریاں سماج
راہ تکتے ہیں
اک اور خمینی کی
انتظار
کوہ نور کا ہیرا لے گیے تھے وہ
کعبہ بھی لے جاءیں کے اب
رک نہ جاءیں کہیں
شراب وشباب کے
خوشگوار سلسلے
سلسلے
عرش پر فرشتے
آدم کے حضور
سجدہ ریز رہے
زمین پر آدم
غیر معتبر ٹھہرا
غیر معتبر
ٹھہری ٹھہری نظروں سے
سرخ لہو
تم دیکھ رہے ہو
میں دیکھ رہا ہوں
گوتم سے کوئ کہہ دے
سنکھ بجاءے
مسیحا زندہ کر دے
پتھروں کو
حجر اسود سے بالا ہیں
دھڑکنوں سے معمور ہوں
اگر یہ پتھر
پتھر :نظم
ان کو
بوتل کا دودھ پلایا ہو گا
ان کی رگوں میں ترا دودھ نہیں
دودھ‘ فقط تیرا دودھ ہوتا تو
یہ خلافت ارضی کے وارث ہوتے
آخری مانگ :نظم
دیکھتا اندھا سنتا بہرا
سکنے کی منزل سے دور کھڑا
ظلم دیکھتا ہے
آہیں سنتا ہے
بولتا نہیں کہتا نہیں
جہنم ضرور جاءے گا
ایندھن
دن کے اجالے
خاموش اداس
ہمالہ مٹی کا ڈھیر
حرکت سے عاری
تو‘ مٹی کا ڈھیر
حرکت سے عاری
نظم: عاری
آوازوں کی اس بھیڑ میں
سر جھٹک کر بولا
تیز ہوا کا جھونکا ہو گا‘ جو
خلیل جبران کے مجموعوں کےورق
الٹ رہا ہے
نظم:جھونکا
شعلہ سا لپکا
طور‘ طور نہ رہا
راکھ کا ڈھیر ہوا
کیا عروج ہے
پی کے ہستی
مدینے کا وء کمبل پوش
بہلے چپ رہا تھر مسکرا دیا
نظم: کمبل پوش
سنا ہے
یوسف کی قیمت
سوت کی اک انٹی لگی تھی
کہ وہ مجبور تھا
دور حاضر کا مرد آزاد
دھوءیں کے عوض
ضمیر بیچ رہا ہے
نظم: سنا ہے
میز پر پڑا لال آمیزہ
زندگی سے خالی تھا
دامن میں پھر بھی اس کے
مسیحائ کا بھرم تھا
نظم: بھرم
اس نے کہا
میں آپ کا بھائ ہوں
رفعت کیوں لٹ گئ؟
نظم: وعدہ
ڈوبتی سانسوں کو
مسیحا کی ضرورت نہیں
گوشت گدھ کھاءیں گے
ہڈیاں فاسفورس کی کانیں ہیں
نظم: سورج دوخی ہو گیا تھا
وہ آگ
عزازءیل کی جو سرشت میں تھی
اس آگ کو نمرود نے ہوا دی
اس آگ کا ایندھن
قارون نے پھر خرید کیا
اس آگ کو فرعون پی گیا
اس آگ کو حر نے اگل دیا
یزید مگر نگل گیا
اس آگ کو
میر جعفر نے سجدہ کیا
میر قاسم نے مشعل ہوس روشن کی
اس آگ کے شعلے
پھر بلند ہیں
مخلوق ارضی
ڈر سے سہم گئ ہے
ابر باراں کی راہ دیکھ رہی ہے
کوئ بادل کا ٹکڑا نہیں
صبح ہی سے تو
آسمان نکھر گیا ہے
نظم: صبح ہی سے
1980
مخلوط نسل
میت پر ماتم نہیں کرے گی
گرجوں میں قرآن سجاءے گی
مسجدیں
اصطبل ہوں گے
گھوڑوں کے
نظم: قربت
جانتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟!
رند ہوں بدر کا
جا مے میں
حیدر کی جرآت
بوزر کا فقر ملا کے لا
ٹیپو کی غیرت
اقبال کی خودی ملا کے لا
لا ساقیا لا
ایسی مے بنا کے لا
نظم: بدر کا رند
کئ بار گری
آخر چڑھ ہی گئ
چونٹی مگر وہ اس دور کی تھی
نظم:المیہ
مجھے اس کی فکر نہیں
کوئ ماں فرعون جنم دے گی
ہاں نیل کا سکوت دیکھ کر
ڈر جاتا ہوں
اب وہ آ کر جاءے گا نہیں
بنی اسراءیل کے بچوں کا قتل
کوئ موسی روکنے نہیں آء گا کہ
نبوت کے سب در بند ہیں
نظم:در بن
ماں‘ ماں ہوتی ہے
اس کی آنکھوں میں
دو عالم کے سکھ
اس کا سایہ
بھگوان کی کرپا
رحمان کی دیا
ماں‘ ماں ہوتی ہے
ذلیخا کا عشق سچا سہی
وہ برہنہ پا کب چلی تھی
وقت کیسا انقلاب لایا ہے
کہنے لگا: میں خدا ہوں
فرش کا وارث
عرش کا وارث
بڑھ کر میرے قدم لو
.............
لوگوں کی آنکھوں میں بے بسی
ہونٹوں سے لپٹی بے کسی تھی
ہاتھ اٹھے ہوے تھے
کوئ موسی آءے
ساتھ اپنے عصا لاءے
نہ اب کربلا کا کوئ سامان ہو
کہ تدبیر کی
اس کے پاس کب کمی ہے
رحمت خدا کی
پتھر کو موم کر دے
کہ وہ رحمان و رحیم ہے
یا ظلم مٹے
اس کے قہر و غضب سے
کہ وہ قہار و جبار ہے
خوشبو کی تمازت سے
زیست کے ہونٹوں پہ
پیاس رکھ دی
جیون کا نم
خون جکر پی کر
ہستی کی ناتمام آرزوں پر
مسکرایا
آدم سٹپٹایا
حیات کا سفر
موت کی دہلیز تلک لے آیا
ان دیکھے کھیل
بھوک پیاس اور غلامی
آسمان سے کب اترے ہیں
فرعون کا یہ تحفہ
نحیف کندھوں سے
نحیف کندھوں تک
موت کی علامت بن کر
زیست کو
ورثہ میں ملا ہے
جام سقراط کو
جی بسم الله کہہ کر
ہونٹوں سے لگا لو
یا پھر
ہونٹ سی کر
لوسی فر کے چرنوں میں
اپنے کندھے رکھ دو
کہ زیست شانت رہے
ورثہ
میر جعفر نے
مگر لوٹ لیا ہے
کس سے فریاد کریں
جس ہاتھ میں
گلاب وسنبل
اس کی بغل میں خنجر
کمزور کی جیون ریکھا کا
رام بھلی کرے گا
آنکھ میں پانی
آب کوثر
.........
گنگا جل ہو کہ
زم زم کے مست پیالے
دھو ڈالیں کالک کے دھبے
بے انت سمندر
مرے بولوں کی تڑپت
مرے گیتوں کی پیڑا
مرزے کی کوئ ہیک نہیں
مرے اشکوں کا شرینتر تھا
اس سے پہلے
آنکھوں میں دھواں بھر لو
چاند کا چہرا
راون کی شکتی لے کر
عیسی کے خون سے
اوباماہی رب
لکھ رہا ہے
فرات کا دامن
آس کے پنچھی
پون کی کامنا لے کر
صاحب ولایت کے در پر
کھڑے ہیں
غربی ہبل
اساس کے موسم سی کر
کھنڈر ہونٹوں پر
سچ کی موت کا قصہ
حسین کے جیون کی گیتا
وفا کے اشکوں سے
لکھ کر
برس ہوءے
مکت ہوا
ممتا
اس کی گردن کا سریا
کس ٹیپو نے توڑا ہے
............
سننے میں آیا ہے
ہم آگے بڑھ گءے ہیں
ترقی کر گءے ہیں
موسی اور عیسی
گرجے اور ہیکل سے
?مکت ہوے ہیں
................
سننے میں آیا ہے
ہم آگے بڑھ گءے ہیں
ترقی کر گءے ہیں
گوءٹے اور بالی
ٹیگور تے جامی
سیوفنگ اور شیلی
سب کے ٹھہرے ہیں?
................
منصف
ایمان قرآن کی کہتتا ہے?
سننے میں آیا ہے
الفت میں کچھ دے کر
پانے کی اچھا
حاتم سے ہے چھل
...............
مہر محبت سے بھرپور
نیم کا پانی
نہ کڑا نہ کھارا
وہ تو ہے
آب زم زم
اس میں رام کا بل
چل' محمد کے در پر چل
قانون کے رکھوالے
چوراہے پر
ٹکٹکی لے کر بیٹھے ہیں
صلیب پر لٹکا دو
مفتی کا فتوی ہے
در وا کر دو
قیس کی بولی تو سب بولیں
ستے کے سب رستے
جعفر کے گھر کو جاتے ہیں
منصور نے جیتے جی
سچ کو
کب بکتے دیکھا تھا
میں تم سے کہتا ہوں
جس مٹی سے
خمیر اٹھا تھا
اس مٹی کا رشتہ
برس ہوءے
ہونٹوں پر
چپ کی مہر ثبت کیے
بوزر کی شکتی
ڈھونڈ رہا تھا
برس ہوءے
کراءے کے قاتل
کیا بھکشا دیں گے؟
کرن ہماری کھا جا ہے
ہم موسی کے کب پیرو ہیں
جو آسمان سے من و سلوی اترے گا
بارود کے موسم
قسمت اچھی ہوتی تو
راکھشش جیون پراس
قرآن راج نہ ہوتاِ؟
قرآن راج
ترے در پر
مرنے کا مزا چھوڑ کر
خلد کی تمنا
جس روسیاہ کوہو گی
ابلیس کا ہمسایہ رہا ہو گا
ابلیس کا ہمسایہ
زیست کے واسطے سارے
سورگ کے دیو
عرش کے فرشتے سارے
مسجد ومحراب
کلیسا و مندر سارے
دیر وحرم
اہل صوف کے
میکدے سارے
کہکشاؤں کے سلسلے
نمو کی شبنم طرازیاں
بہاروں کی زمزمہ پردازیاں
حضور کے عشق کی
مسکانوں کا ثمر ہیں
ثمر
رام اور عیسی کے بول
ناچوں کی پھرتی
بے لباسی میں رل کر
بے گھر بےدر ہوءے ہیں
دفتری ملاں کےمنہ میں
..................
طاقت کی بیلی میں
کربل کربل کرتے یہ کیڑے
ہانیمن اور اجمل کا منہ چڑاتے ہیں
سورج ڈوب رہا ہے
دریا کا پانی
بھیگی بلی
حر بربک کے سنکھ میں رہتے ہیں
جینے کو تو سب جیتے ہیں
اس سے کہہ دو
ان کی پلکوں کے قطرے
صدیوں بے توقیر رہے
پھر بھی ہونٹوں پر
جبر کی بھا میں جلتے
سہمے سہمے سے بول
مسیحا بن سکتے ہیں
اس سے کہہ دو
انارکلی کے
دیواروں میں چننے کا موسم
جب بھی آتا ہے
آس کے موسم مر جاتے ہیں
ہر جاتے ہیں
شاہ کی لاٹھی
پلکوں کی شام
ہر شام پر بھاری ہے
ڈرتا ہے اس سے
حشر کا منظر
پلکوں کی شام
کنگلے عاشق کے آنسو
مطلب کی آنکھیں کیوں دیکھیں
میں تو
پھولوں کے موسم کی لیلی ہوں
آنکھوں دیکھے موسم
تیری آنکھوں کے مست پیمانے سے
کچھ سی بچا کر
آب زم زم میں ملا کر
امرتا کے ایوانوں میں
خود کو
پھر تم کو کھوجوں گا
تم مرے کوئ نہیں ہو
اسمبلی کے اکھاڑے میں
رقص ابلیس ہوتا ہے
گریب گلیوں میں
مقدر سوتا ہے
بھوک جاگتی ہے
فقیروں کی بستی میں
بینائ کا منبع
آنکھیں کھو بیٹھا
ہر آشا زخمی زخمی
ہر نغمہ عزراءیلی اسرافیلی
خون مں بھیگا
گنگاکا آنچل
پلکوں پر شام
شناخت اداس اداس
کنارے اس سمندر کے
پرسکون سہی
تہہ میںسامری کا ببچھڑا
اور صلیب عیسی
آنکھ سمندر
پریت بت کی شناسئ مانگے
عشق کربلا سی آبلہ پائ مانگے
...............
وہ پیکر فردوس
آنکھ کے سب ترکش
جو ساتھ لایا تھا
کب چلا پایا تھا
بے نوا دستک
تو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آب زم زم میں دھل کر
حوض کوثر میں کھلا گلاب
الله کی عنایت
محمد کی نظر عطا
حوض کوثر میں کھلا گلاب
ترے سینے میں
مری پیاس کےدیپ جلیں
ماں کے دل کی دھک دھک
خلد کے گیت سناءے
شہد سمندر
چپ
مت بولو
چپ کا روزہ رکھ لو
ہم حسین نہیں جو بولیں
یزید اترا ہے
فاختہ کا اترن لے کر
مت بولو
میں کب کافر رہا ہوں
کہ محبت کی عظمتوں سے انکار کرتا
خدا سے محبت ملی تو
فرشتوں نے سجدہ کیا
زمین کا وارث ہوا
کتابیں آسمان سے اتریں
پھلوں پر استحقاق ٹھہرا
سب پھول میرے ہوءے
آزاد پنچھی
رات اک شخص
ٹیپو کی قبر کی دھول میں
غیرت ایمانی تلاش رہا تھا
ہاءیکو
اندھیروں سے کہہ دو
جلتے دیے جھونپڑوں کے
بننے والے ہیں خمینی
ہاءیکو
آؤ ایک صف میں سب
سجدہ کریں کہ شاید
مہربان ہو جاءے‘
مہربان ہونا اس کی عادت ہے
ہاءیکو
تقلید حسین میں
زندگی آج پھر
جبر سے برسر پیکار ہے
ہاءیکو
انسان قطرے میں سمندر
خدا کا ادنی کمال ہے
تم اپنا ہنر کہو کوئ
ہاءیکو
جبر کا فرات
جوش میں ہے آج
آؤ عمر کا خط تلاش کریں
ہاءیکو
کاٹ شمشر کی فتح کی ضامن نہیں
کار جہاد میں مذاکرات‘ حیلے بیکار
قوت بازو شیر میسور پیدا کر
ہاءیکو
قطرہءندامت تریاق عصیاں
شعلہءنخوت‘ عذاب حشر
دونوں ہم سفر ہوءے ہیں میرے
ہاءءکو
فرات تو اک نقاب تھا ورنہ
ہر اجلے چہرے میں
فرعون کا چہرا ہو گا
ہاءیکو
انسان کی ساری شکتی
اب بھوک کا
تاج محل تعمیر کرے گی
ہاءیکو
ابن آدم اپنے کمال میں
خدا کی طرح
لا زوال ہے
ہاءیکو
مر کر جینے والے
کیسے ہوں گے
آؤ جاپان جا کر دیکھیں
ہاءیکو
جبریل کا اب یہا ں کام نہیں
زمین کا بڑا کہتا ہے
لنکن کی کتاب کافی ہے انسان کے لیے
ہاءیکو
میں فرہاد نہیں‘ خود کشی کر لوں گا
محبت اور حساب
دو مضمون رہے ہیں‘ مری نظر میں
ہاءیکو
جب سے بش کو امام کیا ہے
گھر گھر سے
روشنی کا جنازہ اٹھنے لگا ہے
ہاءیکو
سورج کو روک لو‘ ١٩٩٧
دیوتاؤں سے وہ کچھ کم نہ تھا
دجال کی یہ خصلت اگر اس میں نہ ہوتی
اسی آنکھ سے دیکھتا رہا میرے رقیب کو
...............
انتخابی پوسٹر دیکھ کر یوں لگا
شہر میں کئ پیغمبر اتر آءے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حجرے میں بیٹھ کر رہ عشق میں
مرنے کی بات تو کرتا ہے وعظ
بڑا مشکل ہے تلوار پر آنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سجدہ میں جو گر گیے‘ کون جانتا ہے ان کو
میں بھی سجدہ میں گر جاتا اگر
تری کاوشوں میں منفرد ہوتا کیسے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دل توڑتے نہیں مرے شہر کے فتوی گر
رقیب تو کافر تھا ہی
مسلمان بھی تو مسلمان نہ رہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چل اٹھ‘ یہاں کیا رکھا ہے
وعدہءفردا نہیں ہوتا
جن تلوں میں‘ تیل ہوتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کس امید پر سچائ پیش کروں
بھوک بڑھ گئ ہو تو
بھیڑ کا بچہ‘ سچا نہیں ہوتا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس کارواں کا ہو وہ امیر
وہاں لٹیرے لینے آءیں گے کیا
فرشتہءاجل کو بھی‘ سکوں مل سکے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر آنکھ میں نہ بس
کسی ایک کا ہو جا
طواءف ترس جاتی ہے‘ گھر کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی محبت میں سب کچھ ہار دیا
وہ تو باشندہ تھا چاند ستاروں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین دولت سہی‘ میں نہیں مانتا
عیسی کے حواری‘ کب دار تک آءے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حسن کسے متاثر نہیں کرتا
پھر بھی احتیاط اچھی ہے
گلاب میں چھپا ہوتا ہے سانپ اکثر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں نے زنجیر عدل ہلائ تو
الحاد کا طعنہ ہر زبان پر تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اندر سے خالی ہوتا ہے وہ مکان
جو باہر سے تاج محل دکھائ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بھیگنے سے کیوں ڈرتے ہو؟
برستا نہیں وہ بادل
جو ہر پل گرجتا دکھائ دے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانا مجھے ہو‘ رستہ حضرت خضر بتاءیں
اس سے بڑھ کر‘ توہین منزل کیا ہو گی؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
خدمت کہو
صیاد کی مہربانی
مطلب سے خالی نہیں ہوتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ان برف آنکھوں میں
سورج نہ اتارو
زمین‘ طوفان نوح کی متحمل نہیں
............
اپنے عشق پر تمہیں ناز سہی
مگر اس سے دور رہو
تم مقصود ہو‘ براہیم نہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمر بھر طواف کیا ترے مے خانے کا
اب لے رہا ہوں اپنے عشق کا امتحان
اب مے خانہ کرے طواف‘ مرے آگے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہبل کو تم خدا سمجھو تو سمجھو
شرک اب مجھ سے نہیں ہو گا
مسلمان ہو گیا ہوں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندیم و وزیر کو کیوں پڑھتا
غیض و غضب میں اک چہرا
دیوان میر و میزا سے کم نہ تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارادے تو پہاڑ ہوتےہیں
ہواؤں میں اتنی سکت کہاں
پھیر دیں رخ پہاڑوں کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آفتاب اگر مری دسترس میں ہوتا
بچھا دیتا میں اس کو‘ تیرگی کے در پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گو سب رستے فرات کو جاتے ہیں
جو پانی اصغر کا مقدر نہ بن سکا
اس پانی کو میں منہ لگاؤں کیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب کبھی پانی میں مہتاب اترے
تم من میں اپنے پیاس اتر کر نکلو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرشتوں کو گناہ کی لذت کیا معلوم تھی
اسی لیے ان کو
خلافت ارضی نہیں ملی تھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پیٹ کا جہنم جب بھڑک اٹھا
قدموں کو بیچ کر
بیساکھیاں وہ خرید رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس چونچ میں اک نسل کی بقا ہو
قیامت ہے‘ اس چونچ پر‘ کوئ عقاب اترے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سانپ بچے سے عزیز تھا اس کو
اپنے ہاتھوں وہ اس کو
دودھ پلا رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ نظر کب نظر رہتی ہے
اٹھ جاتی ہے جو سرکار کی جانب
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک تسلسل سا ہے قصہ ہاءے عشق میں
آخر کب تک تقلید مجنوں و فرہاد کریں
................
فرشتے سجدہ میں کیوں نہ گرتے
آدم کو اپنے ہونے پر یقین تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو غیرت چمن تھا
صلیب پہ لٹکا ہوا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس لہو میں سرخی ہوتی ہے
وہ لہو گبھراتا نہیں
سرنگاپٹم کوچ کرنے سے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یقین کرنے ناکرنے سے کیا فرق پڑتا ہے
خدا معمہ ہی رہے گا روبرو آنے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو آگ میں کود گیا وہ خلیل تھا
مرے لیے آگ؛ آگ رہے گی‘ یقین آنے تک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی پڑا رہنے دو مرا جنازہ ان کے در پر
جا نہ سکیں گے وہ مرے رقیب کے در پر
...........
جلاد! خاک ترا یہ کمال ہے
امن پسندوں کو
مرنے والوں کی سسکیاں‘ سونے نہیں دیتیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نشہ شراب کا ہو کہ شباب کا
معبود بنا دیتا ہے انسان کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چپ ہو جا‘ اپنی نصیحت پاس ہی رکھ
اگر وہ جلنا ترک کر دیں گے
انھیں پروانہ کون کہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت سے جب کوئ مرا نام لیتا ہے
سمجھ جاتا ہوں میں
امتحان کی پل صراط سے‘ گزرنے والا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ گھوڑے بیچ کر سوتا رہا
ادھر رات کھا گئ روشنی کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سر محفل جھوٹ کھول دیتا مگر
مروت کی قبا تھی
مرے بدن پر
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توڑ آیا وہ فاختاوں کے انڈے
یہ بول‘ پتھر کا جسم بول رہا تھا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرے انکار کی داستان تو لکھ دی
اس کے ہاتھ پر لہو‘ مورخ لکھ نہ سکا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جانے کب عیسی اسمان سے اترے
کربلا کی خاک سے نمود صبح ہو گی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ آنکھیں جو ہر کسی پر پتھر برساتی ہیں
لوگ ہیں کہ بدھ کے بھکشو ہوں جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ریت کے دریا میں پیاس اگ آئ ہے
پھر کوئ زینب ننگے سر آگئ ہو جیسے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
درس صداقت سے پہلے وعظ
جا کربلا سے جا کر
صداقت کی قیمت تو پوچھ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لے لیا تھا اس نے مرے فرشتوں سے قلم
لکھ دیا اپنا حساب‘ مرے حساب میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں بیوی سے کب ڈرتا ہوں
کانپ جاتا ہوں
جب کوئ تحفہ پکار اٹھتا ہے
میں تو ترے جوتے ترا سر ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری نادانی تو ذرا دیکھو
جو بےکسی کے کیچڑ میں پڑا تھا
میں ڈھونڈھتا رہا اسے ستاروں میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مری قبر پہ چراغاں نہ کرو
روشنی بچا لو
ادھر آ رہا ہے محبوب تمہارا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہر سو موت کا منظر ہو
ابابیلوں کے پر کاٹ کر
حسن کی رکھشا کیسے ہو گی٣
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم مرے اپنے ہو
کیسے یقین کر لوں
شناختی کارڈ جعلی بننے لگے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔