چودہ محبت نامے
عزیز مکرم حسنی صاحب:سلام مسنون
آپ کا انشائیہ پڑھا اور محظوظ و مستفید ہوا۔ جب سب کچھ پڑھ چکا تو گریبان میں جھانک کر دیکھا اور اس کے بعد خاموشی میں ہی بہتری نظر آئی۔ صاحب! اتنی ذمہ داریاں نبھانے سے بہتر تو یہ ہے کہ آدمی شادی ہی نہ کرے! بہر کیف آپ کی انشا پردازی کا یہ مضمون بہت اچھا نمونہ ہے۔ اب یہ نہیں معلوم کہ جتنا اچھا مضمون ہے اتنا ہی اچھا اس پر عمل بھی ہے یا آج کل کے مولوی صاحب کی طرح لوگوں سے درود شریف پڑھنے کی تاکید کر کے خود چائے پینے کا شغل پسند ہے۔ ہمارے بچپن میں مسجد کے مولوی صاحب میلاد شریف پڑھتے وقت بار بار لوگوں سے کہتے تھے کہ "بھائیو، آپ زور زور سے درود شریف پڑھیں ، تب تک میں چائے کا ایک آدھ گھونٹ لے لوں"۔ مذاق برطرف انشائیوں کا سلسلہ جاری رکھیں۔ اور ثواب دارین حاصل کریں۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
مکرمی بندہ حسنی صاحب: سلام مسنون
آپ کا یہ نہایت دلچسپ انشائیہ پڑھا اور بہت محظوظ و مستفید ہوا۔ جب اس کے اصول کا خود پر اطلاق کیا تو اتنے نام اور خطاب نظر آئے کہ اگر ان کا اعلان کر دوں تو دنیا اور عاقبت دونوں میں خوار ہوں۔ سو خاموشی سے سر جھکا کر یہ خط لکھنے بیٹھ گیا ۔ انشا ئیہ بہت مزیدار ہے شاید اس لئے کہ حقیقت پر مبنی ہے۔ اس آئنیہ میں سب اپنی صورت دیکھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ مضمون عنایت کرنے کا۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
محترمی حسنی صاحب : سلام مسنون
آپ کے انشائیے پر لطف ہوتے ہیں۔ خصوصا اس لئے بھی کہ آپ ان میں اپنی طرف کی یا پنجابی کی معرور عوامی اصطلاحات (میں تو انہیں یہی سمجھتا ہوں۔ ہو سکتا ہوں کہ غلطی پر ہوں) استعمال کرتے ہیں جن کامطلب سر کھجانے کے بعد آدھا پونا سمجھ میں آ ہی جاتی ہے جیسے ادھ گھر والی یا کھرک۔ یا ایم بی بی ایس۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ کھرک جیسا با مزہ مرض ابھی تک جدید سائنس نے ایجاد نہیں کیا ہے۔ والللہ بعض اوقات تو جی چاہتا ہے کہ یہ مشغلہ جاری رہے اور تا قیامت جاری رہے۔ اس سے یہ فائدہ بھی ہے کہ صور کی آواز کو پس پشت ڈال کر ہم :کھرک اندازی: میں مشغول رہیں گے۔ اللہ اللہ خیر سلا۔
لکھتے رہئے اور شغل جاری رکھئے۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے
سرور عالم راز
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب: سلام شوق
خدا گواہ ہے کہ اردو انجمن نہایت خوش قسمت ہے کہ اس کو بیک وقت آپ اور اعجاز خیال صاحب جیسے انشائیہ نگار مل گئے ۔ آپ دوسری محفلوں کو دیکھیں تو قحط الرجال کی کیفیت طاری معلوم ہوتی ہے۔ ویسے بھی اردو دنیا میں نثرنگاری اور نثر نگاروں کاکال پڑا ہوا ہے۔ انجمن آپ دونوں کی احسان مند ہے اور شکرگزار بھی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ آپ دونوں احباب اپنے انشائیوں پر نظر ثانی کر کے اور انھیں مزید نکھار کے کتابی شکل میں اشاعت کی فکر کریں۔ کیا خیال ہے آپ دونوں کا؟
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرورعالم راز
عزیز گرامی حسنی صاحب :سلام شوق !
اپ کا انشائیہ پڑھ کر مزا آ گیا۔ کاش آپ اپنی اس صلاحیت پر مزید محنت کریں اور مزاح اور طنز کی دنیا میں ایک مقام بنا لیں۔ آپ کا قلم نہایت شگفتہ و شستہ ہے، خیال آرائی اور منظر کشی میں آپ ماہر ہیں،زبان و بیان بہت اچھے ہیں تو پھر دیر کس بات کی؟ میری مخلصانہ گزارش ہے کہ طنز ومزاح کی جانب سجنیدگی سے توجہ دیں اور اپنے انداز فکر و سخن کو نکھاریں۔ اردو میں طنز و مزاح بہت کم ہے کیونکہ ہماری زندگی اور معاشرہ خود درد و رنج اور استحصال کا مارا ہوا ہے۔ ظاہر ہے کہ جب انسان کی زندگی عذاب ہو تو اس کو ہنسی کیسے سوجھے گی؟ اس حوالے سے مزاح نگار ایک رحمت بن جاتا ہے کیونکہ وہ لوگوں کو ہنساتا ہے اور سبق سکھاتا ہے۔ آپ کا انشائیہ صرف واپڈا کا انشائیہ نہیں ہے بلکہ ہر ایسے ادارہ اور ایسے لوگوں کا خاکہ ہے جنہوں نے عوام کی زندگی عذاب بنا رکھی ہے۔
اچھے انشائیہ پر داد قبول کیجئے اور میری گزارش پر ضرور سوچئے اور کام کیجئے۔ شکریہ ۔
باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلام مسنون
سبحان اللہ ! آپ غالبیات کے ماہر ہیں اور ہم مرزا نوشہ کے متوالے! انشا اللہ آپ سے استفادہ ضرور رہے گا۔ آپ کی کتاب غالبا پاکستان میں شائع ہوئی ہو گی۔ اگر ایسا ہے تو اس کا حصول مشکل ہے۔ خیر کوئی بات نہیں۔ اگر نیٹ پر وہ کسی صورت میں دستیاب ہو تو ضرور بتائیں۔ محفل کے کچھ دوست اس کوحاصل کرنے کا شوق رکھتے ہیں۔
آپ سے ایک گزارش ہے۔ غالب کے بہت سے اشعار معمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اگر آپ گاہے گاہے مرزا غالب کے ایسے اشعار کی تشریح سے محفل کو نوازتے رہیں تو بڑی عنایت ہو گی۔ غالب سے زیادہ شاید ہی کسی اور شاعر کی شرحیں لکھی گئی ہیں لیکن بہت سی باتیں اب تک پردہ خفا میں ہی ہیں۔ کیا آپ ہماری انجمن کے لئے یہ کام کرسکیں گے؟ پیشگی شکریہ قبول فرمائیں۔
سرور عالم راز
مکرمی حسنی صاحب: سلام علیکم
میرے اس خط کو نشانی سمجھ لیں کہ آپ کا انشائیہ میں نے مزے لے لے کر اور با ضابطہ عبرت پکڑپکڑ کر پڑھ لیا ہے۔ اگر انشائیہ کا تعلق آپ کے وطن سے مخصوص نہ ہوتا اور میں ہندوستان کا سابق شہری نہ ہوتا تو کچھ عرض کرتا لیکن تجربوں سے ظاہر ہوگیا ہے کہ ایسے نازک معاملات میں خاموشی اچھی ہوتی ہے۔ سو میری خاموشی قبول کیجئے اور ساتھ ہی داد بھی۔
سرور عالم راز
محب مکرم حسنی صاحب: سلام مسنون
آپ کا مختصر انشائیہ دیکھا تو مجھ کو ۱۹۴۸ کے آس پاس والد مرحوم کا لکھا ہوا ایک مضمون :عورت کی فطرت: یاد آ گیا جس کالب لباب یہ تھا کہ یہ معمہ اب تک حل ہوا ہے اور نہ آئندہ اس کے حل ہونے کی کوئی امید ہے۔ آپ کاانشائیہ دیکھا کہ آخری چند سطروں میں آپ نے خیال ظاہر کیے ہے کہ ان چار چہروں کے مطالعہ سے یہ گتھی سلجھ سکتی ہے۔ میں صرف جذباتی طور پر ہی نہیں بلکہ فکری سطح پربھی والد مرحوم سے زیادہ متفق ہوں۔ آپ جب اس معمہ کو سمجھ لیں تو اپنے ارادت مندوں کو ضرور حل سے آگاہ کیجئے گاباقی رہ گیا راوی تو وہ چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
بھلاتا لاکھ ہوں لیکن برابر یاد آتے ہیں
الِہی ترک الفت پر وہ کیوں کر یاد آتے ہیں
نہیں آتی جو یاد ان کی تو برسوں تک نہیں آتی
مگر جب یاد آتے ہیں تو اکثر یاد آتے ہیں
حقیقت کھل گئی حسرت ترے ترک محبت کی
تجھے تو اب وہ پہلے سے بھی بڑھ کر یاد آتے ہیں
عزیز مکرم حسننی صاحب: سلام مسنون
آپ کا انشائیہ پڑھا تو مولانا حسرت موہانی کے یہ اشعار زبان پر آگئے جوبہت با موقع تونہیں ہیں لیکن ایسے بے موقع بھی نہیں ہیں! آپ کا انشا ئیہ بہت جذباتی ہے اور چونکہ یہ یادوں سے وابستہ ہے اس لئے ایسا ہی ہونا بھی چاہئے تھا۔ پڑھ کر لطف آیا۔ آپ کو زبان وبیان پر بہت اچھا عبور حاصل ہے اور ظاہر ہے کہ یہ برسوں کی علمی کاوشوں اور وسیع مطالعہ کا نتیجہ ہے۔ کیا آپ کی افسانوں یا انشائیوں کی کوئی کتاب بھی ہے؟ اگر نہیں ہے تو ہونی چاہئے! ایک دلچسپ اور کامیاب انشائیہ پر خادم کی داد قبول کیجئے اور دعائے خیرمیں یاد رکھئے۔
سرور عالم راز
عزیز مکرم حسنی صاحب: سلام مسنون
غالب کے کلام پر آپ کی خیال آرائی دیکھی جو دلچسپ ہے۔ معلوم نہیں کہ غریب غالب کے کلام پر طرح طرح کی خیال آرائیاں کیوں کی گئی ہیں۔ ایسی خیال آرائیاں کسی اور کے کلام پر نہیں ہوئی ہیں۔ میرے پاس غالب کے مختلف اشعار کی تشریح خمسوں کی شکل میں موجود ہے ۔پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے اور شاید یہاں بھی پیش کی جا چکی ہے۔ آپ کے خیالات دلچسپ ہیں لیکن حقیقت سے ان کا کتنا تعلق ہے؟ واللہ اعلم۔
سرور عالم راز
مکرم بندہ جناب حسنی صاحب: تسلیمات !
فی زمانہ نثر نگاری کا فن زنگ آلود ہو چلاہے۔ کوئی رسالہ بھی اٹھا کر دیکھئے توسوائے چند اوسط درجہ کے افسانوں اور چند منظومات (غزل اور آزاد نظمیں) کے علاوہ کچھ اور نظر نہیں آتا۔ ماضی میں رسالوں میں ادبی، علمی اور تحقیقی مضامین کثرت سے ہوا کرتے تھے۔ تنقید و تبصرہ فن کی حیثیت سے سیکھے اور سکھائے جاتے تھے اورافسانہ نگاری بھی اونچے معیار کی حامل تھی۔ اب ادب پر ایک عمومی زوال تو طاری ہے ہی نثر نگاری خصوصا اضمحلال کا شکار ہے۔ غزل کہنا لوگ آسان سمجھتے ہیں (حالانکہ ایسا نہیں ہے)۔ غزل میں وقت کم لگتا ہے اور نظم میں اور نثر میں زیادہ ۔ نثر مطالعہ اور تحقیق بھی چاہتی ہے جس سے ہماری نئی نسل بیگانہ ہو کر رہ گئی ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ کوئی زبان بھی صرف ایک صنف سخن کے بل بوتے پر پھل پھول نہیں سکتی لیکن اردو والے اس معمولی سی حقیقت سے یا تو واقف ہی نہیں ہیں یا دانستہ اس سے صرف نظر کر رہے ہیں۔ انٹرنیٹ کی اردو محفلیں بھی اسی مرض کا شکار ہیں اور وہاں بھی سوائے معمولی غزلوں کے (جن میں سے بیشتر تک بندی ہوتی ہیں) کچھ اور نظر نہیں آتا۔ آپ کی نثرنویسی میں مختلف کوششیں اس حوالے سےنہایت خوش آئند ہیں۔ آپ مطالعہ کرتے ہیں ،سوچتے ہیں اور انشائیے لکھتےہیں۔ اس جدو جہد کو قائم رکھنے کی ضرورت ہے۔ میں اپی مثال کسی خودستائی کی شہ پر نہیں دیتا بلکہ دوستوں کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ شوق،محنت اور لگن ہو تو بہت کچھ ہو سکتا ہے۔ میں نے انجینیرنگ پر نصابی کتابیں لکھی ہیں۔ ان کے علاوہ غزل، نظم، افسانے، ادبی مضامین، تحقیقی مضامین، ادبی تنقید وغیرہ سب ہی لکھا ہے۔ یقینا سب کچھ اعلی معیار کا نہیں ہے لیکن بیشتر اچھے معیار کا ہے اور ہندو پاک کے معتبر اور موقر رسالوں میں شائع ہوتا ہے۔ میں آپ کی انشائیہ نگاری کا مداح ہوں اور درخواست کرتا ہوں کہ برابر لکھتے رہہئے۔
زیر نظر انشائیہ اچھا ہے لیکن یہ مزید بہتر ہو سکتا تھا سو اپ وقت کے ساتھ خود ہی کر لیں گے۔ خاکسار کی داد حاضر ہے
۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز
عزیز مکرم حسنی صاحب سلام مسنون
کیا خوب لکھا ہے آپ نے! شعر فہمی بجائے خود ایک فن اور علم ہے۔ جیساکہ آپ نے اس کے مختلف پہلوئوں کا ذکر کر کے اس کی مشکلات کی جانب اشارہ کیا ہے ویسا ہی قاری مرزا غالب کے کلام کو پاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ غالب کے کلام کی جتنی شرحیں اب تک لکھی جا چکی ہیں اور برابر لکھی جا رہی ہیں کسی اور شاعر کی نہیں لکھی گئیں۔ ان کا کلام تہ در تہ زندگی ، کائنات ، فلسفہ، تصوف ، عشق و محبت ، دنیا وغیرہ کی حقیقت کھول کھول کر اور بعض اوقات رمز وکنایہ میں اس طرح بیان کرتا ہے کہ قاری کو یہ خلش لگ جاتی ہے کہ آخر اس شعر کا مطلب کیا ہے؟ ہمارے شہر کے نزدیک ایک شہر میں غالب کو سمجھنے کی خاطر چند اہل دل ہر ماہ مل بیٹھتے ہیں اور اپنے اپنے طور پر اظہار خیال کرتے ہیں۔ جیساکہ آپ نے فرمایا ہے کسی کی تشریح حتمی نہیں ہوتی لیکن اس طرح کے تبادلہ خیال سے سوچ کی نئی راہیں تو ضرور کھلتی ہیں اور یہ بہت اہم اور نیک کام ہے۔ آپ کی تحریر بہت دلکشا اور فکر انگیز ہے۔ مجھ کو یقین ہے کہ دوست اس کو پڑھ کر غالب کے کلام سے مستفید ہوں گے اور اس کی ہمہ جہت شخصیت اور کلام سے بہرو ور بھی ہوں گے ۔شکریہ۔
سرور عالم راز
مکرم بندہ حسنی صاحب: سلام مسنون
آپ کا مضمون نہایت شوق سے پڑھا۔ آپ نے علامہ اقبال کی زندگی کے ایک ایسے پہلو کو واضح کیا ہے جس کے متعلق بہت کم لوگوں کو علم تھا۔ مجھ کو یہ تو معلوم تھا کہ وہ لندن گئے تھے لیکن وہاں ان کی سرگرمیوں کا تفصیل سے علم نہیں تھا۔ اسی طرح اور دوست بھی ہوں گے جو اس مقالہ سے مستفید ہوئے ہوں گے۔ آپ کی مہربانی کا دلی شکریہ۔ یہ اور اسی طرح کے سلسلے جاری رکھین۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ۔
سرور عالم راز
عزیز مکرم حسنی صاحب: سلام مسنون
آپ کا انشائیہ حسب معمول نہایت دلچسپ اور شگفتہ تھا۔ پڑھ کر لطف آ گیا۔ اس زندگی کی بھاگ دوڑ اور گھما گھمی میں چند لمحات ہنسنے کے مل جائیں تو اللہ کا شکر ادا کرنا چاہئے۔ ہاں یہ پڑھ کرانتہائی حیرت ہوئی کہ زہرا صاحبہ برقعہ میں آئین! یا میرا چشمہ ہی خراب ہو گیا ہے؟ ایک نہایت پر لطف اور دل پذیر تحریر کے لئے داد قبول کیجئے۔ باقی راوی سب چین بولتا ہے۔
سرور عالم راز