احباب اور ادارے آگاہ رہیں
مقصود حسنی
maqsood_hasni@yahoo.com
اس میں کوئ شک نہیں کہ انسان کو الله نے بہترین تخلیق فرمایا۔ اسے اگہی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ اس میں بےشمار شکتیاں رکھ دیں۔ ہر شکتی کے ہر سیل کا کوڈ مقرر کیا اور یہ راز‘ راز میں رکھا۔ اگر اس راز کی آگہی انسان کی اپروچ میں ہوتی تو انسان کی خود انسان کے ہاتھوں کیا کیا ہءیتی صورتیں ہوتیں۔ انسان کیا سے کیا ہو جاتا۔ کاءنات کا ہر ذرہ اس کی اپروچ میں رکھ دیا۔ یہی نہیں کیوں اور کیسے کی کھوج کا مادہ بھی اس کی فطرت کا حصہ بنایا تا کہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزءین کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اسے محدود بھی کر دیا۔ اپنی موجودہ حالت میں لامحدود بھی کہہ لیں تو کوئ حرج نہیں۔ اس کی لامحدودیت بھی محدود کر دی۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے اگلا سانس آءے گا کہ نہیں آءے گا۔ اس طرح ہر ادھورہ کام اگلے انسان پر چھوڑ دیا تاکہ کھوج اور تلاش کا عمل کسی سطع پر تعطل کا شکار نہ ہو۔ ضروری نہیں اگلا انسان اسی سوچ کے ساتھ اسی طرح کرءے جس طرح کہ پہلے نے کیا تھا۔
یہ بھی ممکن ہے انسان اپنی تحقیق مکمل کر چکا ہوتا ہے اور پیش کر چکا ہوتا ہے بہت بعد میں یا پیش کش کے فورا بعد کوئ نیا سراغ مل جاتا ہے اور وہ اپنے کیے ہی کو مسترد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی پیش کش کے بطن سے اور بہت سی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ مارکونی نے ریڈیو ایجاد کیا۔ آج ریڈیو کے حوالہ سے ان گنت چیزیں وجود میں آئ ہیں۔ میں نے بڑی محنت اور مشقت سے لفظ ہند کی تحقیق کی اور اپنا مقالہ انٹرنیٹ پر پیش کر دیا۔ ازاں بعد ایک دوسرا سراغ ملا۔ پہلا کام یکسر غارت ہو کر رہ گیا۔ بات کدھر کی کدھر نکل گئ۔ اس نءے کام کو۔۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔۔ کےعنوان سے پیش کیا۔ میرا قطعا دعوی نہیں کہ جو میں نے پیش کیا ہے‘ حرف آخر ہے۔ تحقیق کی حد نہیں کہ معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ جاءے۔ میرا کہا کیا سے کیا ہو جاءے۔
میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پنچا ہوں کہ کامل صرف اور صرف الله کی ذات گرامی ہے اور ہر کاملیت اسی کی طرف پھرتی ہے۔ اگر کوئ دعوی کرتا ہے تو جھوٹ سے کام لیتا ہے۔ انسان اس نوع کے دعوی کے لیے دلیل نہیں رکھتا۔۔ انسان کا کہا اور کیا، کبھی اور کسی سطع پر حرف آخر کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔ اگر وہ ایسا سوچتا ہے تو غلط سوچتا ہے۔ اس طرح کا کہنا اور سوچنا نادنی کے سوا کچھ نہیں۔
میں نے اپنی کسی تحریر میں کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے کہے پر ناز تھا۔ ان کا ٢٦ نومبر کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے کہے پر شرمندگی ہوئ ہے۔ وہ اس ہنر میں بھی پرفیکث نہیں ہیں۔ خیر وہ تو اچھا ہوا کسی نے ابھی تک ان سے اس ذیل میں خدمات حاصل نہیں کیں ورنہ ان کا کیا جانا تھا کوسنے تو مجھے ملنے تھے۔ میں اس تحریر میں کہی گئ اس بات کو واپس لیتا ہوں۔ اگر اب بھی پروف ریڈنگ کے ضمن میں کوئ ان کی خدمات حاصل کرتا ہے ہر غلط ملط کی ذمےواری خود اس پر عاءد ہو گی۔ میرا ذمہ اوش پوش۔
غلط معلومات فراہم کرنے پر میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔
احباب اور ادارے آگاہ رہیں۔
مقصود حسنی
maqsood_hasni@yahoo.com
اس میں کوئ شک نہیں کہ انسان کو الله نے بہترین تخلیق فرمایا۔ اسے اگہی کی نعمت سے سرفراز کیا۔ اس میں بےشمار شکتیاں رکھ دیں۔ ہر شکتی کے ہر سیل کا کوڈ مقرر کیا اور یہ راز‘ راز میں رکھا۔ اگر اس راز کی آگہی انسان کی اپروچ میں ہوتی تو انسان کی خود انسان کے ہاتھوں کیا کیا ہءیتی صورتیں ہوتیں۔ انسان کیا سے کیا ہو جاتا۔ کاءنات کا ہر ذرہ اس کی اپروچ میں رکھ دیا۔ یہی نہیں کیوں اور کیسے کی کھوج کا مادہ بھی اس کی فطرت کا حصہ بنایا تا کہ تخلیق کے ساتھ ساتھ تزءین کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ لیکن اسے محدود بھی کر دیا۔ اپنی موجودہ حالت میں لامحدود بھی کہہ لیں تو کوئ حرج نہیں۔ اس کی لامحدودیت بھی محدود کر دی۔ وہ نہیں جانتا کہ اسے اگلا سانس آءے گا کہ نہیں آءے گا۔ اس طرح ہر ادھورہ کام اگلے انسان پر چھوڑ دیا تاکہ کھوج اور تلاش کا عمل کسی سطع پر تعطل کا شکار نہ ہو۔ ضروری نہیں اگلا انسان اسی سوچ کے ساتھ اسی طرح کرءے جس طرح کہ پہلے نے کیا تھا۔
یہ بھی ممکن ہے انسان اپنی تحقیق مکمل کر چکا ہوتا ہے اور پیش کر چکا ہوتا ہے بہت بعد میں یا پیش کش کے فورا بعد کوئ نیا سراغ مل جاتا ہے اور وہ اپنے کیے ہی کو مسترد کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ہوتا ہے کہ پہلی پیش کش کے بطن سے اور بہت سی چیزیں جنم لیتی ہیں۔ مارکونی نے ریڈیو ایجاد کیا۔ آج ریڈیو کے حوالہ سے ان گنت چیزیں وجود میں آئ ہیں۔ میں نے بڑی محنت اور مشقت سے لفظ ہند کی تحقیق کی اور اپنا مقالہ انٹرنیٹ پر پیش کر دیا۔ ازاں بعد ایک دوسرا سراغ ملا۔ پہلا کام یکسر غارت ہو کر رہ گیا۔ بات کدھر کی کدھر نکل گئ۔ اس نءے کام کو۔۔۔۔۔۔اردو ہے جس کا نام۔۔۔۔۔۔ کےعنوان سے پیش کیا۔ میرا قطعا دعوی نہیں کہ جو میں نے پیش کیا ہے‘ حرف آخر ہے۔ تحقیق کی حد نہیں کہ معاملہ کہاں سے کہاں پہنچ جاءے۔ میرا کہا کیا سے کیا ہو جاءے۔
میں کافی سوچ و بچار کے بعد اس نتیجہ پر پنچا ہوں کہ کامل صرف اور صرف الله کی ذات گرامی ہے اور ہر کاملیت اسی کی طرف پھرتی ہے۔ اگر کوئ دعوی کرتا ہے تو جھوٹ سے کام لیتا ہے۔ انسان اس نوع کے دعوی کے لیے دلیل نہیں رکھتا۔۔ انسان کا کہا اور کیا، کبھی اور کسی سطع پر حرف آخر کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کہتا ہے تو غلط کہتا ہے۔ اگر وہ ایسا سوچتا ہے تو غلط سوچتا ہے۔ اس طرح کا کہنا اور سوچنا نادنی کے سوا کچھ نہیں۔
میں نے اپنی کسی تحریر میں کہا تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ ناصر زیدی شاعر اور کالم نگار سے بڑھ کر سچے سچے اور کھرے پروف ریڈر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے کہے پر ناز تھا۔ ان کا ٢٦ نومبر کا کالم پڑھ کر مجھے اپنے کہے پر شرمندگی ہوئ ہے۔ وہ اس ہنر میں بھی پرفیکث نہیں ہیں۔ خیر وہ تو اچھا ہوا کسی نے ابھی تک ان سے اس ذیل میں خدمات حاصل نہیں کیں ورنہ ان کا کیا جانا تھا کوسنے تو مجھے ملنے تھے۔ میں اس تحریر میں کہی گئ اس بات کو واپس لیتا ہوں۔ اگر اب بھی پروف ریڈنگ کے ضمن میں کوئ ان کی خدمات حاصل کرتا ہے ہر غلط ملط کی ذمےواری خود اس پر عاءد ہو گی۔ میرا ذمہ اوش پوش۔
غلط معلومات فراہم کرنے پر میں دلی طور پر معذرت خواہ ہوں۔
احباب اور ادارے آگاہ رہیں۔