انگریزی آج اور آتا کل
انگریزی آج اور آتا کل
اس میں کوئ شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کی حاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فاءز رہی ہے۔ چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہو جاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیے حاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوبالا محل اسار دیتے ہیں اور اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنی جوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کی زبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تو وہاں محکوم کی ضرورت حالات آلات نطق اور معاون آلات نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطے بحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔
١۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔
٢۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں تبدیلی آتی ہے۔
٣۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
٤۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔
الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔
٥۔ نءے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔
۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہے
اس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہ جما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہو پاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی ہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئ وجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اس جبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایک عرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی جبر نہیں سمجھا گیا حالانکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔
ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئ قاءم بالذات نہیں۔ یہ شرف صرف اور صرف الله کی ذات گرامی کو حاصل ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی ہے۔
کوئ بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔
حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حالات کے حوالہ سے زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔
قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں انگریزی کرہ ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتلا ہیں۔انگریزی کے خلاف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک روز انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیلاب میں بہہ جاءے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض کیڑے مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے ایک چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
انگریزی کا لسانی نظام اتہائ کمزور ہے۔ خیال کے اظہار کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔
انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحان انسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزی دوسروں کے آلات نطق اور معاون آلات نطق کا ساتھ دینے سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حالات ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔.
انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سے بڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائ اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزید کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں لوگوں کے لیے گل گلاواں بنی ہوئ ہے۔
ہندوی(ہندی+اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئ نئ زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔ اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔
اردو
دیو ناگری
رومن
پنجابی کے سوا دنیا کی کوئ زبان نہیں جس کے اس وقت تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقاءدہ لڑیچر موجود ہو۔
یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخط کو تلاشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود یہ تینوں اجنبی نیہں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ انگریزی ٩ فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائ۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔.
جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزی اصطلاحات راءج تھیں یا ساءنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق اصطلاحات موجود ہی نہیں تھیں؟!
کیا انگریزی اصطلاحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے کی ہیں؟
کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟
اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئ بودہ دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کی مرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر گوروں کو بلایا جاتا ہے؟
کرہ ارض کی زبان بننے کی صلاحیت صرف اور صرف ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نءے دینے اشکالی تبدیلی نءے استعمالات تلاشنے کی صلاحیت دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔
جس زبان کو وساءل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔ ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پلایا ہے۔ ان کے خلوص اور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ انگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہ دلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟ تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ تلاشنا خوب خوب آتا ہے۔
ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جاءیں۔ موجودہ مختصر لباس بھی خواب ہو جاءے گا۔ پھل صرف پڑھنے سننے کی چیز ہو جاءیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کام کرنے والا مزدور کہاں سے لاءیں گے۔ یونیورسٹیوں میں دماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے والے کدھر سے آءیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تلاش سکتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنے لوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتی ہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تلاش سکتا ہے۔ بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔
انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ موجود ہیں۔بہت سارے سبابقے لاحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ نکال لیے جاءیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد سے زیادہ کچھ نہ رہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو وہ کھوکھلی ہو جاءیں گی۔ ادب
الفا ظ میسر کرتا ہے۔
زندگی کے تجربے ریکارڑ میں لاتا ہے۔
قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔
سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔
اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ نہیں رہ پاتی۔
اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔
اظہار میں وسعت لاتا ہے۔
قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔
سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خط ہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں کے۔
مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔
انگریزی کے متعلق جو دلاءل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاں شدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر ہوتا جاءے گا۔
انگریزی آج اور آتا کل
اس میں کوئ شک نہیں کہ انگریزی اس وقت دنیا کی حاکم زبان ہے اور یہ فخر وافتخار انگریزی تک ہی محدود نہیں دنیا کی ہر حاکم زبان اس مرتبے پر فاءز رہی ہے۔ چونکہ حاکم زبان کا بول چال کا حلقہ پہلے سے وسیع ہو گیا ہوتا ہے اس لیے اس کا دامن پہلے کی نسبت دراز ہو جاتا ہے۔ اسے ایسے مخصوص لوگ‘ جن کی کہ وہ زبان نہیں ہوتی اپنی حاکم سے وفاداری ظاہر کرنے کے لیے حاکم زبان کی خوبیوں کےبلندوبالا محل اسار دیتے ہیں اور اس کے صلے میں حاکم کی خالص دیسی گھی سے بنی جوٹھی چوری میسر آ جاتی ہے۔ جب حاکم زبان رابطے کی زبان ٹھہر جاتی ہے تو اسے جہاں فخر دستیاب ہوتا ہے تو وہاں محکوم کی ضرورت حالات آلات نطق اور معاون آلات نطق کے مطابق ڈھلنا بھی پڑتا ہے بصورت دیگر رابطے بحال نہیں ہو پاتے۔ یہ حاکم زبان کی مجبوری اور محکوم کی ضرورت ہوتی ہے کہ وہ اپنا مزاج تلفظ استعمال اور معنوں میں تبدیلی اور ردوبدل کا شکار ہو۔ ان امور کے حوالہ سے کچھ باتیں بطور خاص وقوع میں آتی ہیں۔
١۔حاکم زبان بھی متاثر ہوتی ہے۔
٢۔ لسانی اور اظہاری سلیقے صیغے اور طورواطوار میں تبدیلی آتی ہے۔
٣۔ مقامی اسلوب اور لب ولہجہ اختیار کرنے پر مجبور ہو جاتی ہے۔
٤۔ نحوی سیٹ اپ میں تبدیلی آتی ہے۔
الفاظ کے مفاہیم بدل جاتے ہیں۔
٥۔ نءے مرکبات تشکیل پاتے ہیں۔
۔ زبان کی نفسیات اور کلچر جو اس کے الفاظ سے مخصوص ہوتا ہے یکسر بدل جاتا ہے
اس کے برعکس اگر وہ محکوم کی نہیں بنتی تواپنا سکہ جما نہیں پاتی۔ جس کے نتیجہ میں خون ریزی ختم نہیں ہو پاتی۔ غلط فہمی کی دیواریں بلند سے بلند ہوتی چلی جاتی ہیں۔ آج دنیا میں قتل وغارت کا بازار گرم ہے۔ اس کی کئ وجوہات میں ایک وجہ انگریزی بھی ہے۔ ایک عرصہ گزر جانے کے باوجود انگریزی لوگوں کے دلوں میں مقام نہیں بنا سکی۔ لوگ آج بھی اسےاجنبی سمجھتے ہیں اور اس جبری تعلیم کو ریاستی جبر تصور کرتے ہیں۔ اس زبان کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں۔ عربی اور فارسی کا ایک عرصہ تک طوطی نہیں طوطا بولتا رہا۔ اسے کبھی ریاستی جبر نہیں سمجھا گیا حالانکہ وہ بھی ریاستی جبر ہی تھا۔
ہر آنے والے کو جانا ہی ہوتا ہے۔ کوئ قاءم بالذات نہیں۔ یہ شرف صرف اور صرف الله کی ذات گرامی کو حاصل ہے۔ اس حوالہ سے ہر آنے والے کا سکہ اور زبان چلتی ہے۔
کوئ بھی سر پھرا اچانک تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔
حاکم قوت کسی بھی وقت ملکی حالات کے حوالہ سے زوال کا شکار ہو سکتی ہے۔
قدرتی آفت یا آفات اسے گرفت میں لے سکتی ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ آج کیا‘ آتے وقتوں میں انگریزی کرہ ارض کی زبان ہو گی سخت فہمی میں مبتلا ہیں۔انگریزی کے خلاف دلوں میں نفرتیں بڑھ رہی ہیں اور ایک روز انگریزی کیا امریکہ بھی ان نفرتوں کے سیلاب میں بہہ جاءے گا۔ ۔یہاں یہ سوچنا یا کہنا کہ عوام تو محض کیڑے مکوڑے ہیں‘ کیا کر لیں گے۔ بھولنا نہیں چاہیے ایک چونٹی ہاتھی کی موت کا سبب بن سکتی ہے۔
انگریزی کا لسانی نظام اتہائ کمزور ہے۔ خیال کے اظہار کے حوالہ سے ناقص ہےاور آج کی انسانی پستی میں انگریزی کے کردار کو نظر انداز کرنا بہت بڑی غلطی ہو گی۔
انگریزی کا کھردرا اور اکھرا لہجہ اور اڑیل مزاج و رجحان انسانی ترقی کی راہ میں دیوار چین سے کم نہیں۔ آج انسان ترقی نہیں کر رہا مسلسل تنزلی کا شکار ہے۔ انگریزی دوسروں کے آلات نطق اور معاون آلات نطق کا ساتھ دینے سے قاصر و عاجز ہے۔ یہ غیر انگریزوں کے حالات ماحول موسوں شخصی رجحانات معاشی اور معاشرتی ضرورتوں وغیرہ کا ساتھ نہیں دے سکتی۔.
انگریزی لوگوں کی ترقی کی راہ میں کوہ ہمالیہ سے سے بڑھ کر روکاوٹ ثابت ہو رہی ہے۔ لوگوں کی ساری توانائ اسے سیکھنے میں صرف ہو رہی ہے اس طرح وہ مزید کچھ نہیں کر پا رہے۔ عوامی تاثر یہی ہے کہ یہ مفاد پرست عناصر کی گورا نوازی اور چمچہ گیری کے نتیجہ میں لوگوں کے لیے گل گلاواں بنی ہوئ ہے۔
ہندوی(ہندی+اردو) اس وقت دنیا کی واحد زبان ہے جو کرہ ارض کی زبان بننے کے جوہر رکھتی ہے۔ یہ کوئ نئ زبان نہیں ہے۔ یہ ہزاروں سال کاسفر طے کر چکی ہے۔ اس وقت اس کے تین رسم الخط ہیں۔
اردو
دیو ناگری
رومن
پنجابی کے سوا دنیا کی کوئ زبان نہیں جس کے اس وقت تین رسم الخط مستعمل ہوں اور ان میں باقاءدہ لڑیچر موجود ہو۔
یہ تینوں اس کے اپنے نہیں ہیں۔ اس کے ذاتی رسم الخط کو تلاشنے کی ضرورت ہے۔ اس کڑوی حقیقت کے باوجود یہ تینوں اجنبی نیہں ہیں اور اس زبان کے ہی سمجھے جاتے ہیں۔ انگریزی سرکاری سرپرستی حاصل ہونے کے باوجود اپناپن حاصل نہیں کر سکی۔ میں بڑے وثوق سے کہتا ہوں کہ انگریزی ٩ فیصد سے زیادہ آگے نہیں بڑھ پائ۔ اس کے برعکس ہندوی دنیا کی دوسری بڑی بولی اور سمجھی جانے والی زبان ہے جبکہ لسانی حوالہ سے دنیا کی سب سے بڑی اور مظبوط زبان ہے۔.
جب انگریزی دنیا کی حاکم زبان نہیں تھی انگریزی اصطلاحات راءج تھیں یا ساءنس اور ٹیکنالوجی کے متعلق اصطلاحات موجود ہی نہیں تھیں؟!
کیا انگریزی اصطلاحات اس کی ذاتی ہیں یا مانگے تانگے کی ہیں؟
کیا وہ اپنے اصل تلفظ کے ساتھ مستعمل ہیں؟
اس زبان کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس میں تمام علوم سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ اس سے زیادہ کوئ بودہ دلیل ہو ہی نہیں سکتی۔ چینی جاپانی فرانسیسی جرمن یا پھر ہندوی کے پاس کچھ نہیں۔ ہندسنتان میں اشیاء کی مرمت کا کام انگریزی کتابیں پڑھ کر کیا جاتا ہے؟ یا پھر گوروں کو بلایا جاتا ہے؟
کرہ ارض کی زبان بننے کی صلاحیت صرف اور صرف ہندوی میں موجود ہے۔ اس میں لفظ گھڑنے نءے دینے اشکالی تبدیلی نءے استعمالات تلاشنے کی صلاحیت دوسری زبانوں سے کہیں زیادہ موجود ہے۔
جس زبان کو وساءل اور توجہ دو گے ترقی کرے گی۔ ہندوی کبھی بھی توجہ کا مرکز نہیں بنی۔ اسے اس کے چاہنے والوں نےاپنا خون جگر پلایا ہے۔ ان کے خلوص اور محبت کے سبب یہ ناصرف زندہ ہے بلکہ ترقی کی راہ پر گامزن ہے۔
انگریزی کے حوالہ سے ایک دلیل یہ بھی دی جاتی ہے کہ انگریزی کے باعث تجارت کو وسعت ملی ہے۔ کیا احمقانہ دلیل ہے۔ انگریزی سے پہلے تجارت کا کام نہیں ہوتا تھا؟ تجارت کا تعلق ضرورت سے ہے اورضرورت کو رستہ تلاشنا خوب خوب آتا ہے۔
ہندوی سے متعلق لوگوں کی تعداد دنیا کی دوسری بڑی آبادی ہے اس لیے ان سے رابطہ پوری دنیا کی مجبوری ہے۔ رابطہ نہیں کریں گے تو بھوکے مر جاءیں۔ موجودہ مختصر لباس بھی خواب ہو جاءے گا۔ پھل صرف پڑھنے سننے کی چیز ہو جاءیں گے۔ کم مزدوری میں زیادہ کام کرنے والا مزدور کہاں سے لاءیں گے۔ یونیورسٹیوں میں دماغ نچوڑ کر محض ایک گیڈر پروانے پر خوش ہو جانے والے کدھر سے آءیں گے؟
کہا جاتا ہے کہ ہم اپنا اصل انگریزی میں ہی تلاش سکتے ہیں۔ دنیا کی ہر زبان کا اپنا لسانی نظام ہے۔ زبانیں اپنے لوگوں کے حوالہ سے آگے بڑھتی ہیں۔ اگر اثر قبول کرتی ہیں تو اثرانداز بھی ہوتی ہیں۔ ہندوی کی اپنی تاریخ ہے۔ ہر ہندسنتانی اپنا اصل اسی میں تلاش سکتا ہے۔ بڑے وثوق سے کہا جا سکتا ہے انگریزی کسی زبان کا ماخذ نہیں۔
انگریزی دوسری زبانوں کی طرح محض اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ اس میں بھی دوسری زبانوں کے سیکڑوں الفاظ موجود ہیں۔بہت سارے سبابقے لاحقے درامدہ ہیں۔ اگر یہ نکال لیے جاءیں تو اس کے ذخیرہ الفاظ میں آٹھ دس فیصد سے زیادہ کچھ نہ رہے۔
کہا جا رہا ہے کہ ہندوی میں ادب کے سوا ہے کیا۔ زبانیں ادب کے سہارے زندہ ہیں۔ زبانوں سے ادب نکال دیں تو وہ کھوکھلی ہو جاءیں گی۔ ادب
الفا ظ میسر کرتا ہے۔
زندگی کے تجربے ریکارڑ میں لاتا ہے۔
قوموں کی حقیقی تاریخ مہیا کرتا ہے۔
سماجی رویوں کی نشاندہی اور ان کی ترکیب و تشکیل کا فریضہ سر انجام دیتا ہے۔
اس کے بغیر انسانی زندگی کی حیثیت مشین سے زیادہ نہیں رہ پاتی۔
اظہار کو سلیقہ عطا کرتا ہے۔
اظہار میں وسعت لاتا ہے۔
قوموں کا تشخص اسی کے حوالہ سے واضع ہوتا ہے۔
سماج کی بقا میں ادب کلیدی حثیت کا حامل ہے۔
کہا جاتا ہے کہ اردو جو اپنی اصل میں ہندوی کا ایک خط ہے کے اشاعتے ادارے تحریروں کی حوصلہ افزائ نہیں کرتے۔ اشاعتی ادارے خدمت سے زیادہ مال پانی پر یقین رکھتے ہیں۔ آج انٹرنیٹ کا دور ہے ان اداروں کی حیثیت بارہ فیصد سے زیادہ نہیں رہی۔ انٹرنیٹ پر ہندوی کے تینوں خطوں میں بہت سارا مواد ہے۔ آتے دنوں میں اشاعتی ادارے پی ٹی سی ایل کا سا درجہ حاصل کر لیں کے۔
مزے کی بات یہ کہ انگریزی کی حمایت کرنے والے رومن ہندوی یا اردو رسم الخط کا سہارا لیتے ہیں۔
انگریزی کے متعلق جو دلاءل دیے جاتے ہیں ان سے قطعا واضع نہیں ہوتا کہ انگریزی آتے کل کی زبان ہو گی۔ ہاں شدید دباؤ اور کچھاؤ کی حالت میں ہندوی کا دامن وسیع تر ہوتا جاءے گا۔