غیرملکی بداطواری دفتری اخلاقیات اور برفی کی چاٹ
میرا بیٹا ڈاکٹر سید کنور عباس اول تا آخر پاکستانی ہے۔ پاکسستان کی محبت اس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئ ہے تاہم میری طرح اس میں ایک کتی عادت موجود ہے۔ دشمن یہاں تک کہ غیر مسلم کی اچھی عادت اور احسن رویے کی اس کی پیٹھ پیچھے بھی تعریف کرتا ہے۔ یہ طور اور انداز ہمارے عمومی خصاءل سے قطعی ہٹ کر ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی اس کے بعد موجودہ صاحب اقتدار طبقے کی تعریف کرتے ہیں۔ ماضی قریب کے شاہوں کو قطب قریب جبکہ ماضی بعید کے شاہوں کو نبی نما قرار دینے میں منٹ بھی نہیں لگاتے۔ ہمیں ان کی ناانصافی اور بددیانتی بھی وقت کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی نندا کرنے والا مسلمانی کھو بیھٹتا ہے اور واجب القتل قرار پاتا ہے۔ میں داءرہءاسلام سے خارج ہونے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتا اس لیے اس نظریے کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں ایک مسلم غیر ملک اسٹریلیا کے اپنے بیٹے کے حوالہ سے‘ جو ان دنوں وہاں اقامت رکھتا ہے‘ کی پست اخلاقی رویے کی مذمت کرتے ہوءے‘ عرض پرداز ہوں۔ کتنے بداطوار لوگ ہیں وہ۔ ہمارے ہاں ایسی بداخلاقی اور بداطواری کی دھونڈے سے بھی مٹال نہیں ملتی۔
اس کی بیگم مارکیٹ میں کہیں اپنا پرس کھو بیٹھی۔ پرس میں ضروری کاغذات کے علاوہ معقول پیسے بھی تھے۔ سخت پریشان تھی۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد ایک پولیس مین آیا اور سب کچھ واپس کر گیا۔ بس جاتے ہوءے اس نے ایک رجسٹر پر دستخط کرواءے جس میں پرس میں موجود اشیاء کا اندراج تھا۔ رخصت ہوتے وقت مسکراتے ہوءے آل دی بیسٹ کہنا نہ بھولا۔ ہم اخلاقی حوالہ سے اتنے گیے گزرے نہیں ہیں۔ ابھی ہم میں اخلاقیات موجود ہے۔ میں قصور سے للیانی گیا۔ واپسی پر ویگن کے دروازے سے سیٹ تک میری شلوار کی جیب پر کسی نے ہاتھ دیکھا دیا۔۔ قدرتی ایک دوسری جیب میں پچاس روپے موجود تھے جو میں کرایہ کے لیے دست سوال ہونے سے بچ گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد بیرنگ لفافہ سے کاغذات مع ضروری نصیحت مل گیے۔
میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ کسی کام کے لیے کسی دفتر میں بار بار کیا ایک بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قانون اور سماجی رویت شکنی کا تصور تک موجود نہیں۔ کتنا بے لطف بےمزا اور بےذءءقہ سا ملک ہے۔ آوا جاوی کے بغیر انجام پانے والے امور اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جب تک دو چار جوتے نہ ٹوٹیں اور جیب ہولی نہ ہو‘ وہ کام بھی بھلا کوئ کام ہوءے؟!
ہمارے ہاں کوئ ایک دفتر نہیں تقریبا سارے دفتر اخلاق کے بلند درجے پر فاءز ہیں۔ مک مکا چاء پانی اور لفافہ بازی پورے عروج پر ہے۔ میں عصر حاضر کے پاکستان کا سچا اور پکا باشندہ ہوں میری اتنی اوقات اور مجال کہاں جو دفتر شاہی کی گردن پر لفظوں کا انگوٹھا رکھوں۔ میں تو ان کی اعلی اخلاقی رویات پر انگلی بھی نہیں رکھ سکتا۔ ہر علاقے کے اپنے اصول اوراخلاقی ضابطے ہوتے ہیں۔ دوسرا ہر عہد اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق رویات تشکیل دیتا ہے۔ میرے ابے کا دور انگریز دشمن تھا تبھی تو وہ مسلم لیگ کا پیٹھو تھا۔ بےکار میں وقت ضاءع کرتا رہا۔ ورثہ میں بھوک ننگ چھوڑ گیا۔ بڑی بڑی کہانیاں سناتا تھا اور سمجھتا تھا ان لوگوں نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ ہم ان سے بےوقوف نہیں ہیں‘ پچھلی صفوں میں رہ کر چوپڑی کھاتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ میرے ابے کے دور میں بھی اس اعلی اخلاقی ضابطے کے حامل لوگ موجود تھے۔ چوپڑی سے ان کے منہ اور کھیسے بھرے رہتے تھے۔ اتنا چھوڑ گیے کہ آج بھی ان کی نسلیں موج میں ہیں۔ ان کے طہارت کدے بھی حسن واخلاق کے بلند مرتبے پر فاءز ہیں۔
میں عصر دوراں کی دفتر شاہی خصوصا کلرک بادشاہ کا ہتھ بدھا خادم ہوں۔ میں کیا بڑے بڑے پھنے خاں ان کے ڈیروں پر منمناتے‘ پانی بھرتے اور نذر نیاز پیش کرتے ددیکھے گیے ہیں۔ جو ان کی بادشاہی و خدائ کے مرتد اور راءندہ ہیں یا حاضری سے اجتناب برتتے ہیں‘ لاکھ درخواستیں رجسڑڈ ڈاک یا ای میل کرتے رہیں نامراد رہتے ہیں۔ درخواست یا ای میل افسر کے ہاتھ میں جاء گی تو ہی کام ہو گا۔
زیادہ تر ان کے افسر سے ہاتھ رلے ہوتے ہہں۔ میں یہ ہوا میں نہیں چھوڑ رہا۔ میں نے اپنے ایم فل الاؤنس کے سلسلے میں پہلی درخواست اکیس اکتوبر انیس سو ستانویں کو گزاری اور آخری گیارہ نومبر بیس سو تیرہ کو سیکٹریری ہاہر ایجوکیشن پنجاب کے حضور گزاری۔ ان میں سے کسی درخواست کو سیکٹریری صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا تو الاؤنس ملتا یا نہ ملتا جواب ضرور ملتا۔ جواب کو اس کے اصلی اور مستعمل معنوں میں لیں۔ جاؤ نہیں دیتے‘ تمہارا ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہے جو اپنے ٹیوٹر سے بلامعاوضہ کام کرواتی ہے۔ ثبوت کے لیے اسے دور نہ جانا پڑتا۔ اسے میری ہہی فاءل سے اگست ٢٠٠٥ میں کیے گیے کام کی عدم اداءیگی سے متعلق گزاری گئ بہت سی درخواستیں مل جاتیں
درخواستوں کے جواب نہ دینے اور بابو کی فاءل کے بیچھے زبردست حکمت موجود ہے۔ ساءل کب تک درخواستیں گزارے گا آخر اسے آستانہ عالیہ میں حاضر ہونا ہی پڑے گا۔ مال تو خیر ملے گا ہی لیکن ساءل کی میں میں کا سواد ہی اور ہے۔ اپنے سے کہیں بڑے گریڈ والے کا دو زانو بیٹھ کر بالاتری اور بااختیاری کا اعتراف اسٹریلیا کی دفترشاہی کو کیا معلوم۔ وہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی دور جہالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں کے بابو اس قسم کی اعلی ظرفی اور اعلی اخلاقی اقدار سے محروم ہیں۔ انھیں برفی کی بلا دام چاٹ نہیں لگی۔
اپنے پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ اپنے پلے سے برفی تو دور کی بات نان چھولے نہیں کھاءے جا سکتے۔ انھیں فقط دو چار ہفتے پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تقدس مآب دفتر میں لا کر بیٹھا دیا جاءے پوری سروس کی کمائ جیب لگ جاءے گی۔ مہامنشی ہاؤس کے لوگ خانے خان بنے پھرتے ہیں یہاں ان کے بھی بقلم خود استاد تشریف رکھتے ہیں۔ یہ سب کرپشن نہیں‘ یہ تو بالائ ہے۔ آگ چڑھے دودھ پر ہی بالائ آتی ہے۔ سارا دن بیوی بچوں کو چھوڑ کر بالائ کے ڈھنگ اور نسخے تلاشنا اور سوچنا ایسا آسان کام نہیں۔ باہر بیٹھ کر ٹکے ٹکے کی باتیں کرنا آسان ہے میدان میں اترنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بلاشبہ بڑے عظیم اور پہنچے ہوءے لوگ ہیں۔ ان کی عظمت کو بڑے ادب اور احترام سے ست سلام اور پرنام ۔
مہامنشی ہاؤس اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی پہنچ اور عزیزداری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عزت مآب واپڈا ان کا پانی بھرتا ہے۔ میں یہ تحریر اس سے پہلے چار مرتبہ ٹاءپ کر چکا ہوں۔ جونہی سیف کرنے لگا بجلی چلی گئ اور اگلے ہی لمحے آگئ۔ پہلے تو میں اسے محض اتفاق سمجھا جب یہی دوسری تیسری اور پھر چوتھی بار ہوا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ واپڈا ہر دو متذکرہ محکمہ ہذا کو کتنا عزیز اور محترم رکھتا ہے۔
میں وفاقی محتسب اور صوبائ محتسب کے حوالہ سے معاملات کے متعلق درخواستیں گزارنے والا تھا کہ خیال گزرا کیوں نہ جاپان اردو نیٹ کے ذریعے اپنی آواز متعلقین تک ہپنچاؤں۔ خدانخواستہ میں ان کے خلاف کوئ شکایت کرنے والا نہیں تھا۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب جب کسی کی درخواست آءے اس کا جواب دے دیا جاءے۔ کون سا پلے سے ڈاک خرچ دینا ہے۔ سرکاری کاغذ سرکاری لفافہ اور سرکاری ٹکٹیں لگنا ہیں۔ لکھنا صرف اتنا ہے باری پر آپ کے مسلے پر غور کیا جاءے گا۔ اتنا بڑا صوبہ ہے باری آتے آتے‘ آءے گی نا۔ باری کے انتظاری میں مفتا مر جاء گا اور معاملہ محض قصہء ماضی ہو کر رہ جاءے گا۔ گویا سانپ بھی اپنی آئ مرے گا اور لاٹھی بھی بچ جاءے گی۔
میاں شہباز شریف نے جس لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ جہاں اتنے کام کیے ہیں وہاں ایک اور کام کردیں تو دعاؤں کا شمار نہیں رہے گا۔ دو چار مخیر حضرات بھی صلہء رحمی کے حوالہ سے یہ کام کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک محکمہ قاءم کریں جو میر منشی گاہ کے بابو حضرات کی بالائ کا اہتمام کرے۔ ساءل آ کر رقم بتاءے یہ محکمہ ضروری پوچھ گچھ اور کنفرمشن کے بعد ساءل کو مطلوبہ رقم فراہم کر دے یا پھر ضروری بارگینگ یعنی مک مکا کر لے۔ اسی طرح بجلی کے دونوں طرف بہت کچھ لکھا ہوتا ہے مزید صرف اتنا لکھ دیا جاءے کہ لکھنے پڑھنے اور ٹاءپ کرنے والے حضرات ہم پر نہ رہیں‘ جو کریں اپنی ذمہ داری پر کریں۔
لکھنے میں واپڈا آج سب کا پیو ثابت ہو رہا ہے۔ وہ انتہا درجے کے کنگالوں اور ان کے تھرڈ کلاس سفارشیوں کو۔۔۔۔۔۔۔ پر لکھتے ہیں۔ سفارش کا دور گیا‘ اب مال چلتا ہے۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ پرفارما پرموششن کا ریٹ چودہ ہزار روپے ہو گیا ہے۔ یہ بنیادی خرچہ ہے۔ تکمیل تک بقایا جات کے مطاابق دام اٹھیں گے
اور
جوتے گھسیں گے۔
میرا بیٹا ڈاکٹر سید کنور عباس اول تا آخر پاکستانی ہے۔ پاکسستان کی محبت اس کے دل و دماغ میں رچی بسی ہوئ ہے تاہم میری طرح اس میں ایک کتی عادت موجود ہے۔ دشمن یہاں تک کہ غیر مسلم کی اچھی عادت اور احسن رویے کی اس کی پیٹھ پیچھے بھی تعریف کرتا ہے۔ یہ طور اور انداز ہمارے عمومی خصاءل سے قطعی ہٹ کر ہے۔ ہم زیادہ تر اپنی اس کے بعد موجودہ صاحب اقتدار طبقے کی تعریف کرتے ہیں۔ ماضی قریب کے شاہوں کو قطب قریب جبکہ ماضی بعید کے شاہوں کو نبی نما قرار دینے میں منٹ بھی نہیں لگاتے۔ ہمیں ان کی ناانصافی اور بددیانتی بھی وقت کی ضرورت سمجھ میں آتی ہے۔ ان کی نندا کرنے والا مسلمانی کھو بیھٹتا ہے اور واجب القتل قرار پاتا ہے۔ میں داءرہءاسلام سے خارج ہونے کا کوئ ارادہ نہیں رکھتا اس لیے اس نظریے کی نفی نہیں کرتا۔ ہاں ایک مسلم غیر ملک اسٹریلیا کے اپنے بیٹے کے حوالہ سے‘ جو ان دنوں وہاں اقامت رکھتا ہے‘ کی پست اخلاقی رویے کی مذمت کرتے ہوءے‘ عرض پرداز ہوں۔ کتنے بداطوار لوگ ہیں وہ۔ ہمارے ہاں ایسی بداخلاقی اور بداطواری کی دھونڈے سے بھی مٹال نہیں ملتی۔
اس کی بیگم مارکیٹ میں کہیں اپنا پرس کھو بیٹھی۔ پرس میں ضروری کاغذات کے علاوہ معقول پیسے بھی تھے۔ سخت پریشان تھی۔ ٹھیک ایک گھنٹے کے بعد ایک پولیس مین آیا اور سب کچھ واپس کر گیا۔ بس جاتے ہوءے اس نے ایک رجسٹر پر دستخط کرواءے جس میں پرس میں موجود اشیاء کا اندراج تھا۔ رخصت ہوتے وقت مسکراتے ہوءے آل دی بیسٹ کہنا نہ بھولا۔ ہم اخلاقی حوالہ سے اتنے گیے گزرے نہیں ہیں۔ ابھی ہم میں اخلاقیات موجود ہے۔ میں قصور سے للیانی گیا۔ واپسی پر ویگن کے دروازے سے سیٹ تک میری شلوار کی جیب پر کسی نے ہاتھ دیکھا دیا۔۔ قدرتی ایک دوسری جیب میں پچاس روپے موجود تھے جو میں کرایہ کے لیے دست سوال ہونے سے بچ گیا۔ کچھ ہی دنوں بعد بیرنگ لفافہ سے کاغذات مع ضروری نصیحت مل گیے۔
میرے بیٹے کا کہنا ہے کہ کسی کام کے لیے کسی دفتر میں بار بار کیا ایک بار جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ قانون اور سماجی رویت شکنی کا تصور تک موجود نہیں۔ کتنا بے لطف بےمزا اور بےذءءقہ سا ملک ہے۔ آوا جاوی کے بغیر انجام پانے والے امور اہمیت کھو بیٹھتے ہیں۔ جب تک دو چار جوتے نہ ٹوٹیں اور جیب ہولی نہ ہو‘ وہ کام بھی بھلا کوئ کام ہوءے؟!
ہمارے ہاں کوئ ایک دفتر نہیں تقریبا سارے دفتر اخلاق کے بلند درجے پر فاءز ہیں۔ مک مکا چاء پانی اور لفافہ بازی پورے عروج پر ہے۔ میں عصر حاضر کے پاکستان کا سچا اور پکا باشندہ ہوں میری اتنی اوقات اور مجال کہاں جو دفتر شاہی کی گردن پر لفظوں کا انگوٹھا رکھوں۔ میں تو ان کی اعلی اخلاقی رویات پر انگلی بھی نہیں رکھ سکتا۔ ہر علاقے کے اپنے اصول اوراخلاقی ضابطے ہوتے ہیں۔ دوسرا ہر عہد اپنے حالات اور ضروریات کے مطابق رویات تشکیل دیتا ہے۔ میرے ابے کا دور انگریز دشمن تھا تبھی تو وہ مسلم لیگ کا پیٹھو تھا۔ بےکار میں وقت ضاءع کرتا رہا۔ ورثہ میں بھوک ننگ چھوڑ گیا۔ بڑی بڑی کہانیاں سناتا تھا اور سمجھتا تھا ان لوگوں نے بڑا معرکہ مارا ہے۔ ہم ان سے بےوقوف نہیں ہیں‘ پچھلی صفوں میں رہ کر چوپڑی کھاتے ہیں۔ دانشمندی کا تقاضا بھی یہی ہے۔ میرے ابے کے دور میں بھی اس اعلی اخلاقی ضابطے کے حامل لوگ موجود تھے۔ چوپڑی سے ان کے منہ اور کھیسے بھرے رہتے تھے۔ اتنا چھوڑ گیے کہ آج بھی ان کی نسلیں موج میں ہیں۔ ان کے طہارت کدے بھی حسن واخلاق کے بلند مرتبے پر فاءز ہیں۔
میں عصر دوراں کی دفتر شاہی خصوصا کلرک بادشاہ کا ہتھ بدھا خادم ہوں۔ میں کیا بڑے بڑے پھنے خاں ان کے ڈیروں پر منمناتے‘ پانی بھرتے اور نذر نیاز پیش کرتے ددیکھے گیے ہیں۔ جو ان کی بادشاہی و خدائ کے مرتد اور راءندہ ہیں یا حاضری سے اجتناب برتتے ہیں‘ لاکھ درخواستیں رجسڑڈ ڈاک یا ای میل کرتے رہیں نامراد رہتے ہیں۔ درخواست یا ای میل افسر کے ہاتھ میں جاء گی تو ہی کام ہو گا۔
زیادہ تر ان کے افسر سے ہاتھ رلے ہوتے ہہں۔ میں یہ ہوا میں نہیں چھوڑ رہا۔ میں نے اپنے ایم فل الاؤنس کے سلسلے میں پہلی درخواست اکیس اکتوبر انیس سو ستانویں کو گزاری اور آخری گیارہ نومبر بیس سو تیرہ کو سیکٹریری ہاہر ایجوکیشن پنجاب کے حضور گزاری۔ ان میں سے کسی درخواست کو سیکٹریری صاحب سے ملاقات کا شرف حاصل ہو جاتا تو الاؤنس ملتا یا نہ ملتا جواب ضرور ملتا۔ جواب کو اس کے اصلی اور مستعمل معنوں میں لیں۔ جاؤ نہیں دیتے‘ تمہارا ایم فل علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی کا ہے جو اپنے ٹیوٹر سے بلامعاوضہ کام کرواتی ہے۔ ثبوت کے لیے اسے دور نہ جانا پڑتا۔ اسے میری ہہی فاءل سے اگست ٢٠٠٥ میں کیے گیے کام کی عدم اداءیگی سے متعلق گزاری گئ بہت سی درخواستیں مل جاتیں
درخواستوں کے جواب نہ دینے اور بابو کی فاءل کے بیچھے زبردست حکمت موجود ہے۔ ساءل کب تک درخواستیں گزارے گا آخر اسے آستانہ عالیہ میں حاضر ہونا ہی پڑے گا۔ مال تو خیر ملے گا ہی لیکن ساءل کی میں میں کا سواد ہی اور ہے۔ اپنے سے کہیں بڑے گریڈ والے کا دو زانو بیٹھ کر بالاتری اور بااختیاری کا اعتراف اسٹریلیا کی دفترشاہی کو کیا معلوم۔ وہ اس ترقی یافتہ دور میں بھی دور جہالت کی زندگی گزارتے ہیں۔ وہاں کے بابو اس قسم کی اعلی ظرفی اور اعلی اخلاقی اقدار سے محروم ہیں۔ انھیں برفی کی بلا دام چاٹ نہیں لگی۔
اپنے پلے سے کھایا تو کیا کھایا۔ اپنے پلے سے برفی تو دور کی بات نان چھولے نہیں کھاءے جا سکتے۔ انھیں فقط دو چار ہفتے پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کے تقدس مآب دفتر میں لا کر بیٹھا دیا جاءے پوری سروس کی کمائ جیب لگ جاءے گی۔ مہامنشی ہاؤس کے لوگ خانے خان بنے پھرتے ہیں یہاں ان کے بھی بقلم خود استاد تشریف رکھتے ہیں۔ یہ سب کرپشن نہیں‘ یہ تو بالائ ہے۔ آگ چڑھے دودھ پر ہی بالائ آتی ہے۔ سارا دن بیوی بچوں کو چھوڑ کر بالائ کے ڈھنگ اور نسخے تلاشنا اور سوچنا ایسا آسان کام نہیں۔ باہر بیٹھ کر ٹکے ٹکے کی باتیں کرنا آسان ہے میدان میں اترنا آسان نہیں ہوتا۔ یہ بلاشبہ بڑے عظیم اور پہنچے ہوءے لوگ ہیں۔ ان کی عظمت کو بڑے ادب اور احترام سے ست سلام اور پرنام ۔
مہامنشی ہاؤس اور پنجاب سرونٹس ہاؤسنگ فاؤنڈیشن کی پہنچ اور عزیزداری کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ عزت مآب واپڈا ان کا پانی بھرتا ہے۔ میں یہ تحریر اس سے پہلے چار مرتبہ ٹاءپ کر چکا ہوں۔ جونہی سیف کرنے لگا بجلی چلی گئ اور اگلے ہی لمحے آگئ۔ پہلے تو میں اسے محض اتفاق سمجھا جب یہی دوسری تیسری اور پھر چوتھی بار ہوا تو مجھے اندازہ ہو گیا کہ واپڈا ہر دو متذکرہ محکمہ ہذا کو کتنا عزیز اور محترم رکھتا ہے۔
میں وفاقی محتسب اور صوبائ محتسب کے حوالہ سے معاملات کے متعلق درخواستیں گزارنے والا تھا کہ خیال گزرا کیوں نہ جاپان اردو نیٹ کے ذریعے اپنی آواز متعلقین تک ہپنچاؤں۔ خدانخواستہ میں ان کے خلاف کوئ شکایت کرنے والا نہیں تھا۔ میں تو صرف اتنا عرض کرنا چاہتا تھا کہ جب جب کسی کی درخواست آءے اس کا جواب دے دیا جاءے۔ کون سا پلے سے ڈاک خرچ دینا ہے۔ سرکاری کاغذ سرکاری لفافہ اور سرکاری ٹکٹیں لگنا ہیں۔ لکھنا صرف اتنا ہے باری پر آپ کے مسلے پر غور کیا جاءے گا۔ اتنا بڑا صوبہ ہے باری آتے آتے‘ آءے گی نا۔ باری کے انتظاری میں مفتا مر جاء گا اور معاملہ محض قصہء ماضی ہو کر رہ جاءے گا۔ گویا سانپ بھی اپنی آئ مرے گا اور لاٹھی بھی بچ جاءے گی۔
میاں شہباز شریف نے جس لگن اور محنت سے کام کیا ہے اس کی تعریف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔ جہاں اتنے کام کیے ہیں وہاں ایک اور کام کردیں تو دعاؤں کا شمار نہیں رہے گا۔ دو چار مخیر حضرات بھی صلہء رحمی کے حوالہ سے یہ کام کر سکتے ہیں۔ میاں صاحب ایک محکمہ قاءم کریں جو میر منشی گاہ کے بابو حضرات کی بالائ کا اہتمام کرے۔ ساءل آ کر رقم بتاءے یہ محکمہ ضروری پوچھ گچھ اور کنفرمشن کے بعد ساءل کو مطلوبہ رقم فراہم کر دے یا پھر ضروری بارگینگ یعنی مک مکا کر لے۔ اسی طرح بجلی کے دونوں طرف بہت کچھ لکھا ہوتا ہے مزید صرف اتنا لکھ دیا جاءے کہ لکھنے پڑھنے اور ٹاءپ کرنے والے حضرات ہم پر نہ رہیں‘ جو کریں اپنی ذمہ داری پر کریں۔
لکھنے میں واپڈا آج سب کا پیو ثابت ہو رہا ہے۔ وہ انتہا درجے کے کنگالوں اور ان کے تھرڈ کلاس سفارشیوں کو۔۔۔۔۔۔۔ پر لکھتے ہیں۔ سفارش کا دور گیا‘ اب مال چلتا ہے۔ ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ پرفارما پرموششن کا ریٹ چودہ ہزار روپے ہو گیا ہے۔ یہ بنیادی خرچہ ہے۔ تکمیل تک بقایا جات کے مطاابق دام اٹھیں گے
اور
جوتے گھسیں گے۔