اس کا نام ہدایتا ہی رہا
منسانہ
تجربہ زندگی کو سنوارتا‘ نکھارتا اور بعض اوقات شخصیت میں انقلاب برپا کر دیتا ہے۔ ہداتے اور اس کی رن ماجدہ کا‘ ہر دوسرے تیسرے رن کچھ سا رن لگتا۔ وہ جند جان میں اس سے کہیں بھاری تھی۔ اڑبڑ کرتا‘ تو سیدھا چمٹا چلاتی‘ جو اس کے کہیں ناکہیں آ لگتا۔ آشاں کا نشانہ بڑے کمال کا تھا۔ اس کے وڈ وڈیروں میں یقینا کوئی بہت بڑا شکاری رہا ہو گا۔ ایک بار تو سیدھا وہاں سے‘ تھوڑا ہی فاصلے پر آ لگا۔ کئی دن ٹانگیں چوڑی کرکے چلتا رہا۔ اگر خدا نخواستہ وہاں لگ جاتا‘ تو آج صحن میں اٹھکیلیاں کرتی منی سے ہاتھ دھو بیٹھتے۔ اس چوٹ نے آشاں پر تو کوئی اثر نہ ڈالا‘ ہاں البتہ اس تجربے نے اس کے معمول میں انقلابی تبدیلی ضرور کر دی۔ اب جب بھی رن‘ رن میں اترنے کا موڑ بناتی‘ یہ فورا سے پہلے گھر کی دہلیز کے اس پار ہوتا۔
وہ اندر فائرنگ کرتی یہ باہر کھڑا کبھی گولے اور کبھی تھری نٹ تھری کی گولیاں چلاتا۔ ہاں البتہ‘ ہر دو تین گولیاں یا گولے چلانے کے بعد‘ اتنا ضرور کہتا‘ اللہ تمہیں ہدایت دے۔ اس کے بعد اللہ تمہیں ہدایت دے اس کا تکیہءکلام ہی بن گیا۔ اس کا اصل نام نور محمد تھا لیکن اس تکیہءکلام کی وجہ سے‘ اس کا نام بھی ہدایتا پڑ گیا۔ پھر ہر دو تین کلمے منہ سے نکالنے کے بعد‘ اللہ تمہیں ہدایت دے ضرور کہتا۔ لوگ چوں کہ اس کے اس تکیہءکلام سے آگاہ ہو چکے تھے‘ اس لیے غصہ نہ کرتے۔
ایک بار سردار صاحب کے بیٹے کی جنج چڑھنا تھا۔ اچھے کپڑے سلوا لیے‘ اسی طرح اوکھے سوکھے ہو کر نیا جوتا بھی خرید لیا۔ اگلے دن جنج چڑھنا تھا‘ رن سرکار سے خوب حجامت کروانے کے بعد‘ شہر حجامت اور شیو بنوانے چلا گیا۔ حجام کی دکان پر تھوڑا رش تھا۔ وہ ادھر ہی بیٹھ گیا اور موجود لوگوں کی باتیں سننے لگا اور ساتھ میں ہوں ہاں بھی کرنے لگا۔ خدا خدا کرکے‘ اس کی بھی باری آ ہی گئی۔
حجام باتونی تھا۔ حجامت بھی بنائے جا رہا تھا اور ساتھ میں باتیں بھی کیے چلے جا رہا تھا۔ ہدایتا اس کی ہاں میں ہاں ملا رہا تھا۔ ساری باتیں وہ ہی کیے جاتا تھا۔ خدا خدا کرکے ایک دو باتیں اسے بھی کرنے کا موقع مل گیا۔ حسب عادت دو تین باتیں کرنے کے بعد‘ اللہ تمیں ہدایت دے کہہ بیٹھا۔ حجام کام چھوڑ کر‘ لال لال آنکھیں نکال کر کہنے لگا‘ اوئے پینڈو کیا میں بےہدایتا ہوں اور ہدایت تو سکھائے گا۔ چپ رہتا یا معذرت کر لیتا تو بات نہ بگڑتی۔
لفظ پینڈو اسے چبھ سا گیا اور گھر سمجھ کر بکنے لگا۔ پھر کیا تھا‘ وہاں موجود لوگوں نے اسے پکڑ کر خوب وجایا۔ اور تو اور چہرے پر بھی اچھے خاصے آلو ڈال دیے۔ ابھی آدھے ہی بال کٹے تھے کہ بقیہ جان بچا کر واپس آ گیا۔ آشاں زخموں پر مرہم رکھنے یا اس حجام کا گھر پر ہی زبانی کلامی گھر پورا کرنے کی بجائے‘ اس کے چہرے کے آلو دیکھ کر خوب ہنسی۔
اس واقعے کے بعد وہ جنج چڑھنے سے محروم ہو گیا اور گاؤں بھر کے مردوں‘ عورتوں اور بچوں کے لیے مذاق بن گیا۔ ہاں البتہ اس کا تکیہءکلام ضرور بدل گیا۔ اللہ تمہیں ہدایت دے کی بجائے‘ اللہ مجھے ہدایت دے بولنے لگا۔ یہ بات قطعی الگ سے ہے کہ زبان پر مجھے اور دل میں تجھے ہی ہوتا۔ اس نے اپنے لیے کبھی ہدایت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی‘ جیسے پیدایشی ہدایت یافتہ ہو۔ اس حادثے کے بعد‘ نام بھی تبدیل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن اس کا نام ہدایتا ہی رہا۔