عصری ضرورت
منسانہ
میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔
بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا بڑی خودی غرض ہے۔
کیوں کیا ہو گیا
ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے اور وہاں سے خلاص ہوئیں۔
مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔
دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معاملات میں آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔
معاملات میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی ملاتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘ پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی ملانا دکھتا ہے تو سپلائی کرنے والا کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘ جو وہ پانی یا کیمیکل ملا دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔
میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بلال حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔
لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے سلام دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘ تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔
مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘ فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔
منسانہ
میں جدید لبرل مسلمان ہوں اور یہ سب جانتے ہیں‘ بتانے کی ضرورت نہیں۔ ایک شیطان ہی ہے جو نہیں مانتا‘ اس کا کہنا ہے کہ میں اس کا ہم پیشہ و ہم مشرب ہوں۔ پرسوں ہم انٹرنیشنل فائیو سٹار ہوٹل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ آتے جاتے جوڑوں کے لباس اور ان کے طور و اطوار کو پرذوق اور پرحسرت نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ یقین مانیئے ہر آنے والی کا حسن و جمال اور ادائیں‘ کاش کے تند و تیز چھرے سے‘ میری روح کو زخمی کر رہی تھیں۔ بدبخت پاس ہی بیٹھا‘ ان کے حسن و جمال اور اداؤں سے کم‘ میری بےچینی پر زیادہ خوش ہو رہا تھا۔
بیٹھا بیٹھا اچانک سنجیدہ سا ہو گیا۔ میں نے پوچھا‘ او سالے یہ اچانک تمہارا بوتھا شریف کیوں لمک گیا ہے۔ کہنے لگا یار دنیا بڑی خودی غرض ہے۔
کیوں کیا ہو گیا
ہونا کیا تھا‘ پرسوں بھابی اور بٹیا ادھر ہی‘ ملکوں کے ایک شوخے کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔ کم بخت بھابی کا آنا پسند نہیں کر رہا تھا۔ پہلے اس نے اپنا مطلب نکال لیا۔ بھابی نے کیا کہنا تھا‘ بےچاری چپ چاپ بیٹھی ناشتے پانی کا انتظار کر رہی تھی۔ کافی دیر بعد کھانے میں کافی کچھ منگوایا گیا۔ خود بھی کھاتا مرتا رہا۔ پھر واش روم جانے کے بہانے سے اٹھا اور کھسک گیا۔ ان بےچاریوں نے چھوٹے کے ہاتھ پیسے منگائے اور وہاں سے خلاص ہوئیں۔
مجھے بڑا تاؤ آیا۔ ان کی اس بیٹھک کا تو مجھے علم تھا‘ لیکن ملکوں کے شوخے کی اس کمینی حرکت سے آگاہ نہ تھا۔ سب بےمزا اور کرکرا ہو گیا۔ دل چاہتا تھا کہ اس شوخے کے ڈکرے ڈکرے کر دوں۔ میں نے اسے کہا‘ یار بس اب اٹھو‘ چلتے ہیں۔
دنیا کی چال بازی پر مجھے دکھ اور افسوس ہوا۔ معاملات میں آدمی کو اتنا بھی نہیں گرنا چاہیے۔ میں اگر جھوٹ بولتا ہوں‘ تو لوگ میرے کہے کا یقین کرتے ہیں۔ اگر یقین نہ کریں تو مجھے کیا پڑی ہے‘ جوجھوٹ بولوں۔
معاملات میں‘ میں نے کبھی دونمبری نہیں کی۔ وہ پیسے دیتے ہیں‘ میں گواہی دیتا ہوں۔ ان کا احسان نہ میرا احسان۔ رشوت کی رقم مفت میں تو نہیں لیتا‘ کام کرتا اور کرواتا ہوں۔ کسی دوسرے دفتر سے کام کرواتا ہوں تو ٹن پرسنٹ میرا اصولی حق بنتا ہے۔ میں دودھ میں پانی ملاتا ہوں تو اس میں غلط کیا ہے‘ پیچھے سے کب کھرا آتا ہے۔ میرا پانی ملانا دکھتا ہے تو سپلائی کرنے والا کیوں نظر نہیں آتا۔ دوسرا میں کون سا زور زبردستی فروخت کرتا ہوں‘ نہ خریدیں۔ انہیں حکیم نے کہا ہے‘ جو وہ پانی یا کیمیکل ملا دودھ خریدتے ہیں۔ خریددار کے سب علم میں ہے تو یہ دو نمبری کس حساب سے ہوئی۔
میں لبرل ماڈرن مسلمان ہوں‘ دو نمبری کو غلط اور قابل تعزیر سمجھتا ہوں۔ عہد قدیم کے مسلمانوں کا دائرہ محدود تھا‘ اس لیے اصول بھی اسی دور کے مطابق تھے۔ میرا واسطہ گلوبل ہے۔ امریکہ اور جاپان اب دو قدم کے ملک رہ گئے ہیں‘ لہذا مجھے عصری اصولوں کو فالو کرنا ہوتا ہے۔ حضرت بلال حضور کریم کے قریب تھے‘ لہذا وہ ویسے تھے۔ حضور کریم میرے قریب نہیں ہیں‘ کیا یہ میری برخورداری نہیں کہ میں حضور کریم سے بڑی محبت کرتا ہوں‘ ہاں ان کے کہے پر نہیں چلتا‘ بل کہ آج کی ضرورت کے مطابق زندگی کر رہا ہوں۔
لبرل ماڈرن مسلمان ہونے کے ناتے‘ گیو ٹیک کو اپنائے ہوئے ہوں۔ میں نے ہر اس عورت کو اپنی ماں بہن سمجھا ہے جو میرے ساتھ پھنستی نہیں۔ بڑی سالی تکبر میں رہی‘ میں نے بھی اسے جوتے کی نوک پر رکھا۔ ہمیشہ باجی باجی کہہ کر مخاطب کیا ہے۔ ہاں چھوٹی لبرل ماڈرن مسلمان تھی‘ اس سے سلام دعا ہو گئی۔ اس کی شادی ہو گئی‘ اب جب کبھی آتی ہے‘ تو ہمارا گیو ٹیک ہو جاتا ہے۔ ہاں البتہ ساس مجھ پر مہربان ہے تو میں بھی اس کے معاملہ میں بخیل نہیں۔
مجھے ملکوں کے شوخے پر تاؤ آتا ہے‘ بےغیرت دونمبری کرتا ہے۔ کچھ لیا ہے تو کچھ دو بھی۔ ایسے ہی دو نمبر لوگ قابل تعزیر ہوتے ہیں۔ اگر ملک کی باگ ڈور میرے ہاتھ میں آ جائے تو اس طور کے ہر دونمبری کو‘ چوراہے میں الٹا لٹکا دوں تا کہ کسی کو دونمبری کرنے کی جرآت ہی نہ ہو۔ وہ لبرل ماڈرن مسلمان نہیں ہیں‘ مولوی کو‘ ایسے دو نمبریوں پر کفر کا فتوی لگا دینا چاہیئے۔ مولوی عصری ضرورت سے ہٹ کر‘ فتوی سازی میں مصروف ہیں۔ انہیں آج کی ضرورت اور حقائق کے مطابق چلنا ہو گا‘ ورنہ انہیں لبرل ماڈرن مسلمان نہیں کہا جا سکتا۔