تیسری دفع کا ذکر ہے
منی افسانہ
پہلی دفعہ کا ذکر اس لیے اتنا اہم نہیں کہ یہ دو ٹوک تھا اور اس کے ساتھ کوئی واقعہ، معاملہ یا مسلہ وابستہ نہیں۔ میں بیمار پڑا۔ طبعیت ضرورت سے زیادہ بوجھل تھی۔ طبعیت خراب ہو تو ہائے وائے کی آوازیں ناچاہتے ہوئے بھی بےساختہ بل کہ از خود منہ سے نکل جاتی ہیں۔ اگر توجہ اور خدمت کی تمنا ہو تو آدمی اس ذیل میں منہ کا سپیکر قدرے بلند کر دیتا ہے۔ یقین مانیے میں سچ مچ میں بیمار تھا اس لیے خصوصی توجہ کا طالب بھی تھی۔ خیال تھا کہ میرے پورے گھر والی پریشان ہو کر توجہ دے گی۔ میرا یہ خیال خاک کا شکار ہو گیا جب اس نے کہا نیچے چلے جاؤ کہٰیں میرے متھے لگتے ہو۔ میں کپڑے جھاڑتا ہوا نیچے آ گیا۔ ایک بیمار تھا اوپر اس بے رخی کا صدمہ بھی ہوا۔ چوں کہ پہلی دفعہ کا ذکر دو لمحوں کا تھا اس لیے اسے دفع کو ماریے۔
دوسری دفعہ چوں کہ بے ہوشی کی حالت ناسہی نیم بےہوشی کی کیفیت ضرور تھی۔ ہسپتال سے چوتڑوں اور بازوں پر کئی ایک ٹیکے لگوا کر گھر لایا گیا۔ چوتڑوں کے ٹیکے اس لیے محسوس نہ ہوئے کہ پیاری سی نرس نے دلی ہم دردی سے لگائے تھے‘ ہاں البتہ بازو ضرور دکھے کہ وارڈ بوائے نے پوری بےدردی سے لگائے تھے۔
چھوٹی گھروالی کا ہسپتال جا کر پوچھنا تو بہت دور کی بات ہے اسے گھر میں آ جانے کے بعد آدھی زبان سے پوچھنے تک کی توفیق نہ ہوئی۔ میں نیم مردہ سی حالت میں لیٹا ہوا تھا۔ اچانک اسے کوئی خیال آیا‘ پھر کیا تھا کہ بلاتکان دو گھنٹے انتالیس منٹ بولتی رہی۔ لب لباب یہ تھا کہ میں نے بیمار ہونے کا محض ڈونگ رچایا ہے۔ بیمار اس کا ابا ہوا تھا اور علاج معالجے کے باوجود قبر میں جا بسیرا کیا۔ اگر میں بیمار ہوا ہوتا تو لاش گھر پر آتی۔ اس کی بات میں چوں کہ دم تھا اس لیے دوسری دفع کو بیچ میں لانے کی ایسی کوئی خاص وجہ نظر نہیں آتی۔
ہاں البتہ تیسری دفع اوج کمال کو چھوتی نظر آتی ہے اس لیے اس کا ذکر خصوص میں داخل کرنا اصؤلی سی بات نظر آتی ہے۔ ہوا یہ کہ میں بیمار پڑا تو میری ہائے اوے ہائے اوے کے نعروں سے بےزار ہو گئی۔ مٰیں بھی تو بلاوقفہ اور بلاتکان یہ آوازے کسے جا رہا تھا۔ ان آوازوں سے اس کا سر بوجھل ہو گیا۔ کچھ بولی تو نہ‘ البتہ سر پر کپڑا باندھ کر باہر صحن میں بیٹھ گئی اور میری آخری سانس کا انتظار کرنے لگی۔ آخری سانس بڑی ڈھیٹ تھی‘ کم بخت نہ آئی۔ میں نے اس کی آوازاری محسوس کر لی اور پوری طاقت سمیٹ کر بیٹھک میں آ کر صوفے پر لیٹ گیا۔ پتا نہیں رات کتنی دیر تک صوفے پر لیٹا رہا‘ جب قدرے بہتری ہوئی تو جا کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ میرے پاؤں کی آہٹ سے جاگ گئی لیکن سونے کا ناٹک جاری رکھا۔ میں نے بھی ڈسٹرب کرنا مناسب نہ سمجھا اور چپکا رہا۔
اللہ کے احسان سے رات گزر گئی۔ ٹھیک سے ٹھیک نہ ہوا‘ ہاں البتہ پہلے سے قدرے بہتر ضرور تھا۔ میں نے اس کی جانب یوں ہی بلاوجہ دیکھ لیا۔ چہرے پر بیمار ہونے کی کیفیت طاری کر لی۔ میں نے فورا سے پہلے نگاہ نیچی کر لی۔ آدھ گھنٹے بعد چارپائی لگ گئی۔ پوچھا کیا ہوا۔ سخت بیمار ہوں۔ میں پوچھنا چاہتا تھا ابے والی بیمار ہو یا میرے والی بیماری ہے۔ چپ رہا‘ جانتا تھا آج اور آتا کل بےمزگی میں گزرے گا۔ اس کا کہنا تھا کہ میری شوگر چھے سو ستر پر پہنچ گئی ہے۔ بی پی بھی ہائی ہو گیا ہے۔ صبح سے مسلسل اور متواتر الٹیاں کر رہی ہوں۔ سر پھٹ رہا ہے۔ ایک دو بیماریاں اور بھی گنوائیں۔ میں نے کہا اللہ آسانی پیدا کرے گا۔ کہنے لگی سب اللہ پر چھوڑے رکھنا‘ خود سے کچھ نہ کرنا۔ چاہا کہ کہوں سر دبا دیتا ہوں پھر فورا خیال آیا بچو شام تک اسی کام میں رہو گے۔ مجبور قدموں چلتا ہوا بازار گیا نان چنے اور ساتھ میں حفظ ما ماتقدم سلائس اور انڈے بھی لے آیا۔ بےچاری نے اوکھے سوکھے ہو کر دونوں نان چنے اور ایک انڈا ڈکار لیا۔ اصولا بہتری آ جانی چاہیے تھی‘ قدرے آ بھی گئی۔ اللہ کا شکر ادا کیا زبان کی کوترا کتری سے بچ گیا ہوں۔ شام تک حالات درست رہے۔ شام کو فائرنگ شروع ہو گئی۔ وجہ یہ تھی کہ نان چنے اور انڈے سلائس تو لے آئے لیکن منہ میں بڑ بڑ کر رہے تھے‘ حالاں کہ ایسا نہیں تھا۔ تاہم دیر تک چل سو چل ہی رہی اور میں بھول گیا کہ بیمار ہوں۔