میں کریک ہوں
ببو ہمارے محلے کا اکلوتا دکان دار ہے۔ برا نہیں تو اچھا بھی نہیں۔ بےایمان نہیں تو اسے ایمان دار بھی نہیں کہا جا سکتا۔ میری اس سے کوئی گہری سلام دعا نہیں‘ بس راہ چلتے ہیلو ہائے ہو جاتی ہے۔
اس نے دکان بدلی تو میں نے پوچھا: دکان کیوں بدلی ہے۔ کہنے لگا: ایک تو تنگ تھی سودا پورا نہیں آتا تھا دوسرا ٹپکنے لگی تھی۔
میں نے کہا چلو تم نے اچھا کیا۔ یہ کہہ کر کام پر روانہ ہو گیا۔
رستہ وہ ہی تھا واپسی پر سلام دعا کے بعد میں نے دکان بدلنے کی وجہ دریافت کی۔ اس نے بلا تردد و ترمیم وہ ہی وجہ بتائی۔ اگلے دن جمعہ تھا‘ چھٹی ہونے کے سبب میں نے سارا دن گھر پر ہی گزرا۔
ہفتے کو کام پر جاتے ہوئے اس کے پاس رکا۔ دعا سلام اور حال احوال پوچھنے کے بعد دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا اور وہ ہی وجہ بتائی۔ وہ مجھے بھلکڑ سمجھ رہا تھا۔
اس کے ساتھ زیادہ تعلقات ہی نہ تھے اور بات کیا کرتا۔ یہ ہی ایک بات تھی جو اس سے آتا جاتا کرتا۔ واپسی پر حسب معمول رکا۔ سلام بلایا حال احوال پوچھا اور دکان بدلنے کی وجہ پوچھی۔ وہ اونچی اونچی بولنے لگا اور مجھ سے لڑ پڑا۔
لگتا تھا کہ ہاتھا پائی پر اتر آئے گا۔ میں بھی ذہنی طور پر بھاگنے کے لیے تیار تھا۔ مجھے معلوم تھا دوڑ میں وہ میرا مقابلہ نہیں کر سکے گا۔ وہ تو خیر ہوئی لوگ جمع ہو گئے اور لڑنے کی وجہ پوچھی۔ وہ چوں کہ زور زور سے بول رہا تھا اس لیے میں نے بڑے تحمل سے وجہ بتا دی۔ ساتھ میں یہ بھی کہا میرا ببو سے کوئی خاص تعلق واسطہ نہیں اس لیے سلام دعا کی برقراری کے لیے پوچھ لیتا ہوں۔ یہ غصہ کر گیا ہے۔ اس میں غصہ کرنے والی ایسی کون سی بات ہے۔
سب ہنسنے لگے اور مجھے کہا باؤ جی آپ جائیں۔ اسی طرح کچھ ببو کو ٹھنڈا کرنے لگے۔ ایک بندے نے ببو کی طرف دیکھ کر سر پر انگلی رکھی۔ جس کا مطلب یہ تھا کہ میں کریک ہوں۔ میں جعلی سنجیدگی سے ہولے قدمدں سے اپنے گھر کی جانب بڑھ گیا۔