اندھیر مچی دیکھیے دنیا کی عجب یہ ریت ہے سینہ زور سچے سچے اچے شاہ ہو ساہوکار کہ سیٹھ میاں گریب کے خون پسینے سے شکم کی آگ بجھاتے ہیں تجوری اسی سے اپنی بھرتے ہیں کیسے آیا کون لایا یہ سرمایا کون پوچھے کس کی یہ مجال ہے گربت سے ان کا رشتہ کیا ہے گربت اور امارت الگ سے دو مخلوق ہیں وہ پہاڑ یہ رائی ہیں وہ کھائیں انواع عجیب وغریب یہ کھائیں فقط سراب نوالے سب جانتے ہیں ان کی بھری تجوری کا احوال جان کر بھی ان ڈاکوں کو سلام و پرنام بولا جاتا ہے کسی گریب بیٹی کو ڈولی بٹھاتے انہیں موت پڑتی ہے غش آتا ہے لینا جانتے ہیں دینا ان کے میزان میں نہیں کوئی بھوک سے مرتا ہے تو مرے انہیں اس سے کیا ان کی بلا سے شب و روز کے ڈاکو صاحب اور صاحب عزت اندھیر مچی دیکھیے شب کے چور‘ ڈاکو ٹھہرے ہیں نظام کب ڈاکو تھا مشقتی تھا مشقتی گھر کا تھا سینہ زور آئے تکبر کی حد دیکھیے بےبس ماں کے سامنے نظام کی بہن کی عزت لوٹ لی اور چلتے بنے کون پوچھتا کس میں دم تھا نظام کے ہم دیس سینہ زور کے ساتھ تھے چمچہ آنکھوں میں غیرت کہاں مار دیتے اس مردود کو زیادہ سے زیادہ کیا ہوتا مار دیے جاتے کیا اب وہ زندہ ہیں بےغیرت جیون سے موت اچھی دمڑی بھر سکوں کے لیے ضمیر کا سودا بڑا مہنگا ہے اگر وہ باغیرت موت مرتے تو زیست کے دل میں میرے قلم میں ان کے لیے احترام ہوتا کنجر بہنوں کی عزت کی کمائی کھاتے ہیں صدمہ سے اس بچی کی ماں مر گئی ردعمل تو ہونا تھا ردعمل‘ کوئی غیرفطری عمل نہیں گالی دو گے چانٹا کھاؤ گے نظام رات کو سینہ زوروں غیرت سے عاری لوگوں کی تجوریاں خالی کرتا گریبوں میں ان ہی کا خون پسینہ بانٹ دیتا اس طرح ان کا چولہا بھی گرم ہو جاتا مورکھ کے پنوں پر وہ ڈاکو رقم ہوا بےغیرت اس کے ہاں جگہ نہ پا سکے ہاں انہیں اقتدار کا وفادار کہا گیا چمچہ گیری کا بھی عجب رنگ ہے سینہ زور وچارہ ہوا اسے مظلوم کہا گیا واہ ری مجبور اور کم زور زندگی مجروع قاتل حملہ آور مقتول ٹھہرا