کیا یہ کافی نہیں
اللہ بخشے نابخشے اللہ کی مرضی
یہاں اک حاجی صاصب ہوا کرتے تھے
پنج وقتے تھے
ہاں صدقہ زکوت خیرت میں
کافی بخل کرتے تھے
حسیں بیبیوں کا دل کب توڑتے تھے
دوریاں کم کرکے
ان سے رشتے جوڑتے تھے
ان کا کہنا تھا سچ بولو پورا تولو
لوگوں کے لیے یہ ہی نصحیت تھی
یہ الگ بات ہے
ان کے کہے پر یقین کرنا
سو کا گھاٹا تھا
کہا کب کرتے تھے
کبھی اس سے الٹا بھی چل جاتے تھے
اک عاشق اپنی معشوقہ سے کہتا رہا
ستارے تمہارے لیے توڑ لاؤں گا
بپھرے دریا کی لہروں سے لڑ جاؤں گا
اک روز فون پر اس کی معشوقہ نے کہا
آج باغ میں ملو‘ مجھے تم سے اک کام ہے
جواب میں اس نے کہا
کیوں نہیں‘ آؤں گا اگر بارش نہ پڑی
ہمارے یہاں اک لیڈر ہوا کرتے تھے
تھے بلا کے خوش خیال
لباس میں اپنی مثال آپ تھے
کار سے باہر جب قدم رنجہ فرماتے
لوگ ان کی عیار معصومیت پر مر مر جاتے
پھول تو پھول جئے جئے کار نثار کرتے
کہا کرتے تھے
شہر کو پیرس بنا دوں گا
شہر‘ شہر نہ بن سکا پیرس کہاں بنتا
یہ جانتے کہ بےزر ہوں
زبانی کلامی
میں بھی گھر میں بیسیوں چیزیں لاتا ہوں
بیگم کا اچھا مؤڈ اگر کبھی رہا ہو
نور محل کبھی تاج محل
لمحوں میں وائٹ ہاؤس سے کہیں بڑھ کر
عمارت تعمیر کیے دیتا ہوں
یہ الگ بات ہے
آتے دنوں میں کچھ نہ ہو پانے پر
عزت بچانے کی خاطر
ٹھوک کر بیزتی کراتا ہوں
کھسیانی ہنسی بھی ہنستا ہوں
چلو کچھ لمحے اچھے کچھ برے گزرتے ہیں
جیون کوئی ٹھہرا پانی نہیں
ناہی یہ بےبل پگ ڈنڈی ہے
صالیحین کہتے آئے ہیں
جو کہو وہ کرو
ہم اہل شکم ضدین کے قائل ہیں
کہنا اور کرنا زیست کے دو الگ رستے ہیں
کہے بن بن نہیں آتی
کرتے ہیں تو شکم پر لات لگتی ہے
نہ کرنے میں ہی تو شکم کی سلامتی ہے
جو شکم کا دشمن بنے گا
نیزے چڑھے گا
زہر کا پیالہ اس کا مقدر ٹھہرے گا
آگ میں ڈالا جائے گا
زبان سے کہتے رہو
ہم جو کہتے ہیں وہ کرتے ہیں
ہم بھی یہ جانتے ہیں سننے والا بھی
اس حقیقت سے بے خبر نہیں
ہم اللہ اور اس کے رسول کا
دل و جان سے احترام کرتے ہیں
شیو ہو کہ وشنو
موسی ہو کہ عیسی
زرتشت ہو کہ مہآتما بدھ
رام اور کرشن بڑے لوگ تھے
بھلا ہم ان سے کیسے ہو سکتے ہیں
ان کی ہر کرنی کو سلام و پرنام
بےشک وہ عزت کی جا ہیں
ان کی کہنی اور کرنی ایک تھی
وہ ایک کے قائل تھے
مصیبت میں رہے ہر لمحہ صعوبت میں رہے
اپنی کہنی پر استوار کرنی کا پرنالہ نہ وہ بدل سکے
وہ بڑے تھے بھوکے رہ سکتے تھے
ہماری ضرورتیں حاجتیں ان سے جدا
وہ کہنی پر چل کر بڑے تھے
کہہ کر نہ کرنے سے ہی مال آتا ہے
اچھا کھاتے ہیں بڑے گھر میں رہتے ہیں
لوگ سلام بلاتے ہیں
یہ ہی نہیں ہم سے ڈرتے ہیں
دنیا میں رہتے ہیں
دنیا کی اور بڑائی کیا ہوتی ہے
ان سے کون ڈرتا تھا
ان کی کون سنتا تھا
ان کے جو قدم لیتا رہا
وہ ہی معتوب ہوا
کیا یہ کم ہے کہ ہم خود سے گزر کر
انہیں مانتے ہیں
قبر میں کیا ہو گا حشر میں کیا ہو گا
یہ آتے وقتوں کی بات ہے
قبروں میں ان پر کیا ہو رہا ہے
کب کوئی دیکھ رہا ہے
مجرم تب ٹھہریں گے
جب کہنی پر کرنی استوار نہ مانیں گے
یہ تو اصول حیات ہے
اس کا کون کافر منکر ہے
کیا یہ کافی نہیں
اس پر ہمارا ایمان و یقین ہے