Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

امید ہی تو زندگی ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امید ہی تو زندگی ہے


    امید ہی تو زندگی ہے


    زکرا بولے جا رہی تھی
    مسلسل بولے جا رہی تھی
    شاید آتی صدیوں کے غم مٹا رہی تھی
    خوب گرجی خوب برسی
    اس کے گرجنے میں دھواں
    برسنے مٰیں مسلا دھار تھی
    رانی توپ کے گرجنے سے
    حمل گر جاتے تھے
    برسنے سے
    بستیاں زمین بوس ہوتی تھیں
    اس کے برسنے سے
    سکون کے شہر آگ پکڑتے تھے
    گرجنے سے حواس
    بدحواس ہوتے تھے
    کس سے گلہ کرتا
    جھورا مردود مر چکا تھا
    تھیلا مردود آج بھی
    رشوت ڈکارتا ہے
    وہ چپ تھا
    مسلسل چپ تھا
    منہ میں زبان رکھتا تھا
    پھر بھی چپ تھا
    چپ میں شاید اسے سکھ تھا
    جو بھی سہی
    یہ سوال نوشتہءدیوار بنا تھا
    وہ چپ تھا تو کیوں چپ تھا
    ہر زبان پر یہ ہی سوال تھا
    وہ بزدل تھا
    یا صبر میں باکمال تھا
    کچھ اسے زن مرید کہتے تھے
    کسی کے خیال میں
    مرد کی انا کا وہ کھلا زوال تھا
    وہ تو خیر زیر عتاب تھا ہی
    اس کے پچھلے بھی
    کوسنوں کے دفتر چڑھ رہے تھے
    اس سے کوئی کیوں پوچھتا
    ہر دوسرے
    امریش پوری سے ڈائیلاگ
    سننے کو ملتے تھے
    نمرود وقت بھی
    کانوں پر پہرے نہیں رکھ سکتا
    پہلے ریڈیو ہی تو تھا
    ٹی وی تو کل کی دین ہے
    کان سنتے تھے
    تصور امیج بناتا تھا
    آخر چپ تھا تو کیوں چپ تھا
    اک روز میں نے پوچھ ہی لیا
    میرا کہا
    اس کے قہقہوں میں اڑنے لگا
    میں نے سوچا
    کہنا کچھ تھا
    شاید کہہ کچھ اور گیا ہوں
    بھول میں
    کسی سردار کا لطیفہ کہہ گیا ہوں
    بھلکڑ ہوں
    یہ قول زریں مری زوجہ کا ہے
    زوجہ کے کہے کو غلط کہوں
    کہوں تو کس بل پر
    اگلے سے ناسہی اس جہان سے جاؤں گا
    مہر بہ لب رہا کہ
    دیواروں کو بھی کان ہوتے ہیں
    مجھے کیا پڑی غیروں کی اپنے سر لوں
    میں نے بھی چپ میں عافیت جانی
    ہم کیؤں پرائی آگ میں کودیں
    مرے لیے خالہ کی لگائی ہی کافی ہے
    خود چل بسی
    میں بھی چل بسوں سامان کر گئی ہے
    پھر وہ دفعتا چپ ہو گیا
    مری طرف
    بےبس بے کس نظروں سے دیکھنے لگا
    چند لمحے خامشی رہی
    جاہل جانتے ہو
    بولنے میں کتنے اعضا خرچ ہوتے ہیں
    حیرت ہوئی‘ بھلا یہ کیا جواب ہوا
    غصہ میں بولنے سے
    چودہ اعضا کشٹ اٹھاتے ہیں
    مرا کیا ہے
    ادھر سے سنتا ہوں ادھر سے نکال دیتا ہوں
    چہرے کے بدلتے رنگوں کا اپنا ہی سواد ہوتا ہے
    ہاں سٹپٹانے میں
    کھونے کے آثار ہوتے ہیں
    گھورنے بسورنے میں
    کہکشانی اطوار ہوتے ہیں
    شخص پڑھو کہ حیات کے
    تم پر پوشیدہ اطوار کھلیں
    ہاں غصہ میں
    دماغ کی کوئی نس پھٹ سکتی ہے
    خیر یہ وقت خیر نہیں آئے گا
    دماغ ہوتا تو صبر کا جہاں آباد کرتی
    دل کا دورہ بھی بعید از قیاس نہیں
    اس امید پر ہی تو جی رہا ہوں
    کبھی تو غصہ کے افق سے
    خوشی کا چاند مسکرائے گا
    پھر مستی میں آ کر گنگنائے گا
    آ گئی بہار گلوں کا رنگ اور بھی نکھر گیا
    پیاسی آتمائیں آ رہی ہیں روپ بدل بدل کے
    میں پڑھا لکھا سہی
    اپنی اوقات میں ہوں تو مزدور
    زوجہ گزیدہ ہوں
    بھاشا فلسفے کی میں کیا جانوں
    بولا: جاؤ امید پر زندہ رہو
    امید پر میں زندہ ہوں
    امید ہی تو زندگی ہے




Working...
X