شاعر اور غزل
چاند کی کرنوں سے غزل کی بھیک مانگی
اس نے کاسے میں دو بوندیں نچوڑ دیں
کہ غزل آنکھوں کی ٹھنڈک ہو جائے
سیپ نے مروارید دیئے
کہ دل اس کا پرسکون ہو جائے
قوس قزح نے سرخی بخشی
کہ رخ مثل یاقوت ہو جائے
طبلے کی تھاپ نے
گھنگھرو کی جھنکار نے
مایوس نہیں کیا
نسیم سحر سے بھی دست سوال دراز کیا
قبروں کے کتبوں سے بھی
غزل کی بھیک مانگ کے لایا
سورج سے تھوڑی حدت مانگ لی
سیماب سے بےقراری لے لی
لہر نے بغاوت دے دی
گلاب کے پاس بھی گیا
اس نے کاسے کو بوسہ دیا
اور اپنی اک پنکھڑی رکھ دی
خوش تھا کہ
آج محنت رنگ لائے گی
وہ مری ہو جائے گی
دامن مرا خوشیوں سے بھر جائے گا
غزل کے چہرے پر
حسین سا عنوان لکھ دے گی
خلوص کی طشتری میں رکھ کر
جب غزل میں نے پیش کی
جسارت پہ مری وہ بپھر گئی
ضبط کی پٹڑی سے اتر گئی
کاسے میں تھوک دیا
بولی
بھکاری! اپنا خون جگر نچوڑ کے لاؤ
غزل سے زندگی کی خوش بو آئے
راحتوں کے لیے
لہو کی اک بوند کافی ہے
پھر اس نے
چھاتی سے جدا کرکے
اپنی بچی مری گود میں رکھ دی
ممتا کی باہوں میں غزل تھی
ممتا کی نگاہوں میں غزل تھی
بچی کے لبوں پر
بچی کی انگلیوں میں
بچی کی سانسوں میں
مگر بچی تو سراپا غزل تھی
میں مشاہدے میں ہی تھا کہ
اس نے بچی مجھ سے لے لی
مری آغوش میں شرمندگی رکھ دی
درماندگی رکھ دی
اپنی اور مانگے کی چیز میں
کتنا فرق ہوتا ہے
وہ لائق صد افتخار تھی
پروقار تھی
میں تنکے سے بھی حقیر تھا
اس کا سر تنا ہوا تھا
مرا سر جھکا ہوا تھا
کہ غزل کے چہرے پر
بھیک کا پیوند لگا ہوا تھا
غزل کا بدن زیر عتاب تھا
میں بھی تو ہار گیا تھا
مری شاعری کی کائنات پر رعشہ تھا
وہ مسکرا رہی تھی
غزل سٹپٹا رہی تھی
اجتہاد کا در وا ہوا
روایت کا دیا بجھ گیا
حقیقیت سےپردہ اٹھ گیا
شاعر نہیں‘ میں تو بھکاری تھا
خورشید ضعیف ہو گیا
مہتاب زرد پڑ گیا
گلاب مرجھا گیا
طبلے کا پول کھل گیا
جھنکار تھم گئی
سمندر ندامت پی گئی
کاسہ دو لخت ہوا
جو جس کا تھا لے گیا
ابلیس کرچیاں چننے لگا
بھکاری مر گیا
قبروں کو اپنا دیا مل گیا
پھر شاعر جاگا
ذات میں کھو گیا
خامشی چھا گئی
ذات میں انقلاب آ گیا
اندر کا لاوا ابلنے لگا
حد سے گزرنے لگا
ابلیس کے قہقہوں کا سلسلہ رک گیا
اب ذات تھی
شاعر تھا
آنکھوں میں لہو کی بوندیں
ہاتھ میں قلم
کاغذ پر جگر تھا