ادبی تحقیق وتنقید‘ جامعاتی اطوار اور کرنے کے کام
مقصود حسنی
ہماری جامعات نے اردو شعر ونثر کے حوالہ سے کافی کام کیا ہے۔ اسی طرح پاکستان کے علاوہ دیگر ممالک کی جامعات کے شعبہ ہا اردو نے تدریس اردو کے ساتھ ساتھ تحقیق و تنقید کے میدانوں میں اپنے اپنے حوالہ سے تسلی بخش کام کیا ہے۔ ان کی جملہ مساعی کی تحسین لازم ٹھہرتی ہے۔ معاملے کا اہم پہلو یہ ہے کہ ہونے والا کام تسلی بخش یا کافی ہے؟
دوسرا قدماء ہی پر کام ہوتے رہنا چاہیے یا عصری شعر وادب پر غیر معیاری کی مہر ثبت کرکے اسے نظرانداز ہوتے رہنا چاہیے؟
جتنا کام ہوا ہے لگے بندھے مفاہیم کے تحت کام ہوا ہے۔
متعلقہ کی زبان سے آگہی کے بغیر کام ہوا ہے۔
کام ڈگری کی حصولی سے مشروط ہونے کے سبب بہترین نہیں کہلا سکتا۔ ہاں اپنا شوق یا کام کرنے کی عادت کے تحت ہونے والا کام بڑا ہی بہتر ہے۔
قدماء سے محبت اور اولیت اپنی جگہ‘ جدید اور حاضر کو نظرانداز کرنا اردو ربان کے ساتھ سراسر زیادتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ وہ اہل زبان تھے۔ میں کہتا ہوں‘ ہر وہ جو زبان کا استعمال کرتا ہے‘ اہل زبان ہے۔ معیاری و غیر معیاری کا سوال تب اٹھتا ہے‘ جب
کہا مفاہیم دینے سے قاصر ہو۔
کہا کوئی فکر مہیا نہ کر رہا ہو۔
کوئی زبان مہیا نہ کر رہا ہو۔
معاملات اور رویوں کی عکاسی نہ کر رہا ہو۔
جب کہے گیے میں یہ سب میسر ہو تو غیر معیاری کی مہر ثبت کرنا‘ زیادتی کے مترادف ہے۔
میں یہاں دو تین جملے درج کر رہا ہوں ان کو ایک نظر دئکھیں
مچھلی میں نے پکڑ رکھی ہے۔
اس نے آج ایسا پلاس ڈالا کہ ہر دیکھتا‘ دیکھتا رہ گیا۔
غلط صحیح کو الگ رکھو‘ اس کی ادا کائیاں تو دیکھو۔
کتے پر گرفت مضبوط رکھو گے تو ہی‘ پیچ ڈھیلے کر پاؤ گے۔
کوے پر ضرب لگاؤ‘ اگلا پچھلا اگل دے گا۔
وہ گھر والوں کو پھٹی لگا جاتا ہے‘ میں اور تم کس کھاتے میں آتے ہیں۔
ان جملوں میں کیا خرابی ہے۔ ہر جملہ اپنی زبان رکھتا ہے۔ ہر جملے میں کوئی ناکوئی خیال موجود ہے۔ نحوی کجی موجود نہیں‘ تو پھر ان پر کیوں بات نہیں ہو سکتی۔
تحقیق اور تنقید کیا ہے؟
تفہمی لسانی اور عملی صوت حال پر بات کرنا تنقید ہے‘ جب کہ پہلے سے موجود سے آگے بڑھ کر‘ کچھ نیا اور الگ سے کی تلاش کا نام تحقیق ہے۔
یہ جملے اب سے متعلق ہوں یا ان کا تعلق پہلے سے ہو‘ اس سے کیا فرق پزتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے‘ ان جملوں کی زبان سمجھی جائے۔ اس زبان میں باتیں کیا کی گئی ہیں‘ ان کی تفہیم حاصل کی جائے۔
پیش کیے گیے ہر جملے کی تفہیم کے لیے فکری کاوش کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اس لیے تحقیق و تنقید کے میدان میں انہیں نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
کہی گئی باتوں پر مختلف حوالوں‘ زاویوں‘ پیمانوں‘ نقطہ ہائے نظر وغیرہ کے تحت گفتگو کی جائے۔ بدقسمتی سے جو ہوا یا ہو رہا ہے‘ اس سے ہٹ کر ہے۔ اس لیے‘ اس کیے اور ہونے والے پر بہترین کی مہر ثبت نہیں کی جا سکتی۔
ایک رویہ اور بھی بڑی شدت رکھتا ہے‘ کہ فلاں موضوع پر کام ہو چکا ہے‘ لہذا اس پر کام نہیں ہو سکتا۔ یہ رویہ قطعی احمقانہ ہے۔ جو کوئی کام کر گیا‘ نبی تو نہیں تھا جو اس کے کہے کے بعد‘ کچھ کہنے یا کرنے کی گنجائش ہی نہیں۔ وہ سب اول تا آخر عام انسان تھے اور انہوں نے اپنی سوچ اور اپنے دائرے میں رہتے ہوئے‘ تحقیق و تنقید کا کام کیا۔ ہر معاملے سے متعلق دو چار نہیں‘ سیکڑوں راہیں نکلتی رہتی ہیں۔
اس کے لکھے میں تبدیلیاں بعید از قیاس نہیں ہیں۔ ہر دوسرے کام کرنے والے کی حدود‘ لائف سیٹ اپ اور نقطءنظر الگ سے ہوتا ہے۔ تفہیم وتشریح وغیرہ کو محدود کرنا‘ زبان کے ساتھ زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ بھی دیکھنے میں آ رہا ہے‘ کہ گائیڈ حضرات انٹرنیٹ سے کھوجنے کا مشورہ تو دیتے ہیں‘ لیکن حوالہ کتاب ہی کا معتبر سمجھتے ہیں۔ کچھ تو انٹرنیٹ کے حوالے کو غیرمعتبر قرار دیتے ہیں۔ غالبا اس کی وجہ یہ ہے‘ کہ وہ اس کی افادیت سے آگاہ نہیں ہیں۔ خدا کے لیے‘ وقت کی نبض پر ہاتھ رکھیں۔ وقت آنے کو ہے کہ کتاب سننے کی چیز رہ جائے گی۔ اس ذیل میں صرف تئن ویب سائٹس کا حوالہ دوں گا۔ اردو انجمن‘ اردو نیٹ جاپان اور ہماری ویب پر بڑی وارئٹی ملتی ہے۔ کمال کا مواد بھی دستیاب ہے۔
جامعات میں آج دھڑا دھڑ ایم فل کی ڈگریاں چھاپی جا رہی ہیں۔ تحقیق وتنقید کو سنجیدہ کام سمجھا جائے۔ قدماء کے ساتھ عصری مواد پر بھی نظر رکھی جائے۔ ضرورت اس امر کی ہے‘ کہ پہلے کہنے والے کی زبان کی تفہیم تک رسائی کی جائے۔ اس کے بعد‘ تفہیمی معاملات طے کیے جائیں۔ جو ہو چکا‘ اس پر نظر ثانی کی ضرورت کو پس پشت نہ ڈالا جائے۔ قدماء کو حوالہ میں رکھا جائے۔ ماضی پیارا سہی‘ لیکن آج کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔
اپنا بندہ ہے‘ نے بھی ڈبویا ہے۔ اس سے نالائق اور نااہل معتبر ٹھہرتے ہیں۔ ایک طرف یہ نااہل دو نمبر قسم کی تحقیق کرواتے ہیں‘ تو دوسری طرف اہل اور ذمہ دار کھڈے لائین لگ جاتے ہیں۔ اس طرح‘ جامعاتی سطع پر حقیقی کام نہیں ہو پاتا۔ ڈنگ ٹاپاؤ قسم کا کام الماریوں میں سجانے کے لیے ہوتا ہے۔ حالاں کہ ہر تحقیقی کام کے لیے‘ سرکاری سطع پر ادارہ قائم ہو‘ جو ان تحقیقی مقالوں کی اشاعت کا اہتمام کرئے۔ اس سے دو فائدے ہوں گے کہ اس تحیقی کام سے‘ ہر کوئی استفادہ کر سکے گا۔ دوسرا کیا اور کیسا ہوا ہے‘ کی حقیت بھی کھل جائے گی۔
میں بڑی دیانت داری سے عرض کر رہا ہوں بوڑھوں کو دو نمبر پر نہ رکھا جائے ان کے حیاتیاتی تجربہ سے فائدہ اٹھایا جائے۔ یہ ملنے کے نہیں‘ بخدا نایاب ہیں۔ تبسم کاشمیری‘ سعادت سعید‘ نجیب جمال‘ محمد امین‘ مظفر عباس‘ اختر شمار وغیرہ سے لوگ کہاں ملیں گے۔ کسی بھی پرانے سکل مین کو صرف نظر کرنا آج کے ساتھ ہی نہیں آتے کل کے ساتھ بھی زیادتی ہے۔ یہ اولڈ بوائز ماضی کا ہی نہیں گزرتے آج کا بھی انمول سرمایہ ہیں۔
کوئی تحریر کسی ناکسی سطع پر طرحدار ہوتی ہے۔ اس طرحداری میں ملفوف مفاہیم کی دریافت‘ اصل کرنے کا کام ہوتا ہے۔ اس طرحداری کی دریافت کے لیے‘ ہر کسی کے پاس اپنا میٹر ہوتا ہے۔ میٹر کے حدود ہوتے ہیں۔ مفاہیم میٹر سے باہر کی چیز ہیں۔ لمحہءتخلق کے موڈ کی دریافت آسان کام نہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ‘ تخلیق کار بھی لمحہءتخلیق کے موڈ کے مطابق تفہیم کرنے سے قاصر وعاجز ہوتا ہے۔ میر صاحب کا یہ شعر ملاحظہ ہو
غیر نے ہم کو ذبح کیا ہے طاقت ہے نے یارا ہے
ایک کتے نے کرکے دلیری صید حرم کو پھاڑا ہے
اس شعر کی‘ صد ہا تفہیم سننے کو ملیں گی۔ کیوں‘ لمحہءتخلیق کی راہ میں دو صدی کا فاصلہ حائل ہو چکا ہے۔ میرے خیال میں صید حرم سے مراد ٹیپو‘ غیر سے مراد انگریز‘ جب کہ کتا میر جعفر ہو سکتا ہے۔ غیر اور کتا سے مراد انگریز ہو سکتا ہے۔ میرا یہ خیال‘ محض خیال ہو سکتا ہے۔ حتمی ہونے کی مہر‘ اس پر ثبت نہیں کی جا سکتی۔
اب یہ لائنیں ملاحظہ فرمائیں
سورج کو روک لو
شہر عشق کو جانے والا
سر سلامت نہیں رہا
یہ لائینیں کل پرسوں‘ یعنی ١٩٨٠-٨٢ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بالکل عام اور سادہ سی ہیں‘ لیکن طرحداری کے حوالہ سے‘ جلیبی سے مماثل ہیں۔ ان کی تفہیم اتنی آسان نہیں۔ ان کی تفہیم کے حوالہ سے‘ سعادت سعید تبسم کاشمیری وغیرہ جیسے لوگوں کا وجود‘ نعمت سے کم نہیں۔ لہذا آج کی تفہیم‘ آج کے حوالہ سے ہی کارگر ثابت ہو سکتی ہے۔
آج کے ادب پر تحقیقی ڈگری سطع پر کام کرانے میں‘ اگر کوئی امر مانع ہے‘ تو اس پر assignments تو دی جا سکتی ہیں۔ گزرا کس خوشی یا کرب میں تھا‘ یا کس قسم کے نظریات یا رویوں کا حامل تھا‘ یقینا تجربے کا درجہ رکھتا ہے‘ لیکن جس عہد میں ہم سانس لے رہے ہیں‘ کا جاننا بھی تو ضروری ہے۔ آج کی زبان اور آج کے معاملات کی بہتر تفہیم‘ آج ہی ممکن ہے۔ آتا کل اسے اپنے پیمانے پر رکھے گا۔ آج کے معاملات کل کے لیے پچیدگی بن جائیں۔ اس ذیل میں‘ میر صاحب کے مندرج شعر کو‘ بطور مثال سامنے رکھا جا سکتا ہے۔ آج کی تفہیم کل والوں کے لیے‘ آسانیاں پیدا کرنے کے مترادف ہے۔
ابھی ابھی ایک پنجابی نعت سنی ہے۔ اہم مصرع یہ ہے
لبھ کے لے آواں کیتھوں سوہنا تیرے نال دا
شاعر کا جذبہءمحبت اپنی جگہ‘ لیکن سوال یہ ہے‘ کہ لبھن دی ضرورت ہی کیا ہے۔ کیا آپ کی ذات گرامی ہمارے لیے کافی نہیں ہے۔ گویا ہم‘ کسی شریک کی خواہش رکھتے ہیں۔ کیا یہ عزت کی بات ہے‘ یا اس سے توہین کا کوئی پہلو نکلتا ہے۔ اس مثال کے حوالہ سے‘ یہ امر لازم ٹھہرتا ہے‘ کہ آج کے ادب پر آج کام نہ کرنا‘ بہت بڑی غلطی ہوگی۔ منفی اور مثبت چیزوں کو‘ آج ہی‘ بہتر طور پر دریافت کیا جا سکتا ہے۔ خوش قسمتی سے‘ آج اور گزرے کل سے‘ متعلق کچھ نایاب دانشور دستیاب ہیں‘ اور وہ طرحداری کی گھتیوں کو سلجھانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔
سرور عالم راز صاحب کا کہا ملاحظہ ہو‘ اسے پڑھنے سے میری معروضات کی تصدیق ہو جاتی ہے۔ ضروری ہے اساتذہ اور مقتدرہ حلقے اس جانب سنجیدہ دیں۔ اب اقتباس کا مطالعہ فرمائیں
ہمارے یہاں تعلیمی اداروں کا جو حال ہے اس سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ میں علی گڑھ یونیورسٹی کا پڑھا ہوا ہوں اور پھر وہیں دس سال پڑھا بھی چکا ہوں۔ اب وہاں جاتا ہوں تو پہلے کے مقابلہ میں ہر چیز زوال پذیر دیکھتا ہوں۔ نہ وہ استاد ہیں،نہ وہ شاگرد اور نہ وہ معیار۔ بس گاڑی چل رہی ہے ۔ اداروں کے علاوہ ہمارے استادوں کا عجیب حال ہے۔ میں ایک صاحب سے واقف ہوں جنہوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ لڑکوں کو معاوضہ پر پی ایچ ڈی کے مقالے لکھ کر دیتے ہیں۔ میں نے جب ان سے کہا کہ یہ بات تو بالکل غلط ہے۔ آپ ان کو لکھنے کا گر سکھائیں تو یہ بہتر ہوگا تو مجھ سےخفا ہو گئے اور آج تک خفا ہیں۔
آپ سے استدعا ہےکہ اسی طرح لکھتے رہیں۔ اللہ آپ کو طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔
سرور عالم راز
http://www.bazm.urduanjuman.com/index.php?topic=8472.msg52910#msg52910