حضرت ابو امامہ الباہلی کی ایک روایت کے مطابق،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یعنی اسلام کے حلقے (زنجیر) ٹوٹتے رہیں گے،ایک کے بعد دوسری کڑی- جب ایک کڑی ٹوٹے گی تو لوگ باقی مانده کڑی سے جڑ جائیں گے- پہلی کڑی جو ٹوٹے گی، وه ،الحکم، ہے اور آخری کڑی جو ٹوٹے گی،وه ،الصلاه، ہے-(مسند احمد:251/5)
حکم (اقتدار) اور صلاه(نماز) دونوں کا ایک ڈهانچہ ہے اور ایک اس کی روح -اس حدیث میں جس چیز کے ٹوٹنے کا ذکر ہے،وه حکم اور صلاه کی اسپرٹ ہے،نہ کہ اس کا ظاہری فارم،کیونکہ کسی بهی امت میں ان چیزوں کی صرف داخلی اسپرٹ مفقود ہوتی ہے،نہ کہ اس کا ظاہری ڈهانچہ-حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق،جب امت مسلمہ پر زوال آئے گا تو ایسا نہیں ہو گا کہ وه صفحہ ہستی سے مٹ جائے، بلکہ یہ ہو گا کہ بظاہر ڈهانچہ تو موجود ہو گا، مگر داخلی حقیقت مفقود ہو چکی هو گی-گویا سلام کا قشر (چهلکا) موجود هو گا،لیکن اسلام کا مغز موجود نہ ہو گا-مثلا ظاہری اعتبار سے،مسلم حکومت موجود هو گی،لیکن اقامت عدل موجود نہ ہو گا،جو کہ حکومت کا اصل مقصود ہوتا ہے-اسی طرح نماز کا ظاہری ڈهانچہ تو موجود ہو گا،لیکن نمازیوں کے اندر خشوع کی کیفیت موجود نہ ہو گی،جو کہ نماز کی اصل حقیقت ہے-اسی طرح بظاہر دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری هوں گی،لیکن یہ سرگرمیاں قومی کلچر کی سرگرمیاں هوں گی،نہ کہ حقیقی معنوں میں دین خداوندی کی سرگرمیاں-کوئی امت کبهی ظاہری معنوں میں نہیں مٹتی-دور زوال میں جو واقعہ پیش آتا ہے،وه صرف یہ ہوتا ہے کہ معنوی اعتبار سے،امت کمزور یا بے روح ہو جائے-
الرسالہ،جنوری 2014
حکم (اقتدار) اور صلاه(نماز) دونوں کا ایک ڈهانچہ ہے اور ایک اس کی روح -اس حدیث میں جس چیز کے ٹوٹنے کا ذکر ہے،وه حکم اور صلاه کی اسپرٹ ہے،نہ کہ اس کا ظاہری فارم،کیونکہ کسی بهی امت میں ان چیزوں کی صرف داخلی اسپرٹ مفقود ہوتی ہے،نہ کہ اس کا ظاہری ڈهانچہ-حدیث کا مطلب یہ ہے کہ فطرت کے قانون کے مطابق،جب امت مسلمہ پر زوال آئے گا تو ایسا نہیں ہو گا کہ وه صفحہ ہستی سے مٹ جائے، بلکہ یہ ہو گا کہ بظاہر ڈهانچہ تو موجود ہو گا، مگر داخلی حقیقت مفقود ہو چکی هو گی-گویا سلام کا قشر (چهلکا) موجود هو گا،لیکن اسلام کا مغز موجود نہ ہو گا-مثلا ظاہری اعتبار سے،مسلم حکومت موجود هو گی،لیکن اقامت عدل موجود نہ ہو گا،جو کہ حکومت کا اصل مقصود ہوتا ہے-اسی طرح نماز کا ظاہری ڈهانچہ تو موجود ہو گا،لیکن نمازیوں کے اندر خشوع کی کیفیت موجود نہ ہو گی،جو کہ نماز کی اصل حقیقت ہے-اسی طرح بظاہر دین کے نام پر بہت سی سرگرمیاں جاری هوں گی،لیکن یہ سرگرمیاں قومی کلچر کی سرگرمیاں هوں گی،نہ کہ حقیقی معنوں میں دین خداوندی کی سرگرمیاں-کوئی امت کبهی ظاہری معنوں میں نہیں مٹتی-دور زوال میں جو واقعہ پیش آتا ہے،وه صرف یہ ہوتا ہے کہ معنوی اعتبار سے،امت کمزور یا بے روح ہو جائے-
الرسالہ،جنوری 2014