اور وہ جدا ہونے سے پہلے اپنی زندگی کے اثاثے بانٹ رہے تھے سب سے پہلے انہوں نے ہنسی آدھی آدھی بانٹ لی ۔تو وہ بولی “تم اپنے حصے کی ہنسی کا کیا کرو گے “
“یتیم خانے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دے دونگا“
اس نے جواب دیا ۔ وہ بڑی فراخ دل نکلی اور جب اداسی بانٹنے کا وقت آیا تو کہنے لگی “میں اس میں سے کچھ نہیں لیتی ساری اداسی تم رکھ لو “
اس طرح اس نے سارا سفر ، سارا انتظار، خزاں کے سارے موسم ، سردیوں کی تنہا شامیں اسے دے دیں اور کہنے لگی
“آج تو تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں کنجوس نہیں ہوں “
وہ بہت خوش ہوا اور بولا “وہ دوپہر بھی ساری مجھے دے دو جب ہم پہلی بار ملے تھے “ وہ مان گئی تو س نے وہ دوپہر بھی ، اداسی ، خزاں کے موسموں ، تنہائی اور سفر کے ڈھیر پر رکھ دی ۔
اتنے میں اس نے فراخدلانہ لہجے میں پوچھا “ان سب کا کیا کرو گے “ وہ بڑے مطمئن لہجے میں بولا“اپنی اداسی کو جو حصہ تم نے مھجے دیا ہے اسے زندگی بھر اپنے ساتھ رکھونگا ۔ شامیں بوڑھے لائیبریرین کے نام کر دونگا ، انتظار منڈیر پر رکھے اس دیئے میں ڈال دونگا جسے سرِ شام جلا کر کوئی لڑکی کسی کی چاپ کی منتظر ہو گی ، سارا سفر خط میں ڈال کر پوسٹ کر دونگا ، جنکا محبوب دور ہو گا اور اس سے ملنے کے لیئے بے چین ہو گا “
ریت پر انگلی سے ایک لمبی لکیت کھینچ کر وہ بولی “ سارا ماضی بھی تم رکھ لو“ یکدم خوشی کی ایک لہر اسکے چہرے پر اٹھی اور آنکھوں میں اکر ٹھہر گئی ۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور بولا
“تم نے اپنا سارا ماضی بھی مجھے دیکر بہت اچھا کیا “
“اسکا کیا کرو گے “ اس نے پوچھا
“اسے اوڑھ کر پھرونگا آنے والی گرم تنہا دوپہروں اور سرد شاموں میں ۔۔۔۔ “
وہ مسکرائی “ سارے لفظ بھی تم لے لو “ وہ ممنون سا ہو گیا اور بولا “ میں سارے لفظ بھی پوسٹ مینوں میں بانٹ دوں گا ۔ مگر ہمارے درمیان کچھ گیتوں کی سانجھ بھی ہے “
“ہاں وہ بھی تم لے لو
“ٹھیک ہے“ وہ مطمئن سا ہو گیا
“انکا کیا کرو گے “
“ملاحوں ، ساربانوں اور چرواہوں میں بانٹ دونگا ۔ کسی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی لڑکی کو دے دونگا “
یونہی وہ کتنی دیر اپنے اثاثے بانٹتے رہے ۔
مظہر الاسلام ۔۔۔ آؤ بچھڑ جائیں (افسانہ،)
“یتیم خانے کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو دے دونگا“
اس نے جواب دیا ۔ وہ بڑی فراخ دل نکلی اور جب اداسی بانٹنے کا وقت آیا تو کہنے لگی “میں اس میں سے کچھ نہیں لیتی ساری اداسی تم رکھ لو “
اس طرح اس نے سارا سفر ، سارا انتظار، خزاں کے سارے موسم ، سردیوں کی تنہا شامیں اسے دے دیں اور کہنے لگی
“آج تو تمہیں اندازہ ہو گیا ہو گا کہ میں کنجوس نہیں ہوں “
وہ بہت خوش ہوا اور بولا “وہ دوپہر بھی ساری مجھے دے دو جب ہم پہلی بار ملے تھے “ وہ مان گئی تو س نے وہ دوپہر بھی ، اداسی ، خزاں کے موسموں ، تنہائی اور سفر کے ڈھیر پر رکھ دی ۔
اتنے میں اس نے فراخدلانہ لہجے میں پوچھا “ان سب کا کیا کرو گے “ وہ بڑے مطمئن لہجے میں بولا“اپنی اداسی کو جو حصہ تم نے مھجے دیا ہے اسے زندگی بھر اپنے ساتھ رکھونگا ۔ شامیں بوڑھے لائیبریرین کے نام کر دونگا ، انتظار منڈیر پر رکھے اس دیئے میں ڈال دونگا جسے سرِ شام جلا کر کوئی لڑکی کسی کی چاپ کی منتظر ہو گی ، سارا سفر خط میں ڈال کر پوسٹ کر دونگا ، جنکا محبوب دور ہو گا اور اس سے ملنے کے لیئے بے چین ہو گا “
ریت پر انگلی سے ایک لمبی لکیت کھینچ کر وہ بولی “ سارا ماضی بھی تم رکھ لو“ یکدم خوشی کی ایک لہر اسکے چہرے پر اٹھی اور آنکھوں میں اکر ٹھہر گئی ۔ اس نے سگریٹ سلگایا اور بولا
“تم نے اپنا سارا ماضی بھی مجھے دیکر بہت اچھا کیا “
“اسکا کیا کرو گے “ اس نے پوچھا
“اسے اوڑھ کر پھرونگا آنے والی گرم تنہا دوپہروں اور سرد شاموں میں ۔۔۔۔ “
وہ مسکرائی “ سارے لفظ بھی تم لے لو “ وہ ممنون سا ہو گیا اور بولا “ میں سارے لفظ بھی پوسٹ مینوں میں بانٹ دوں گا ۔ مگر ہمارے درمیان کچھ گیتوں کی سانجھ بھی ہے “
“ہاں وہ بھی تم لے لو
“ٹھیک ہے“ وہ مطمئن سا ہو گیا
“انکا کیا کرو گے “
“ملاحوں ، ساربانوں اور چرواہوں میں بانٹ دونگا ۔ کسی سے ٹوٹ کر محبت کرنے والی لڑکی کو دے دونگا “
یونہی وہ کتنی دیر اپنے اثاثے بانٹتے رہے ۔
مظہر الاسلام ۔۔۔ آؤ بچھڑ جائیں (افسانہ،)