اگر آپ نے تصویروں میں وائٹ ہاؤس نہ دیکھا ہو اور آپ اچانک اس کے سامنے آجائیں تو آپ کو احساس تک نہیں ہوگا کہ آپ دنیا کے سب سے طاقتور صدر کی رہائش گاہ کے سامنے کھڑے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کا وہ دروازہ جو میڈیسن ایوینیو کی طرف ہے اس کے بالکل ساتھ فٹ پاتھ پر آپ کو بہت سے فوٹوگرافرز نظر آئیں گے جنہوں نے امریکی صدر اور اس کی بیوی کی قد آدم تصویریں ہارڈ پورڈ پر لگا کر کھڑی کی ہوتی ہیں۔ آپ ان گتوں کے بنے امریکی صدر کے ساتھ کھڑے ہو کر تصویر بنوائیں یا اس کی بیوی کے ساتھ یہ آپ کی مرضی۔ بہت سے لوگوں کا وہاں ہجوم ہوتا ہے جو عین وائٹ ہاؤس کے گیٹ کے سامنے یہ تصویریں بنوارہے ہوتے ہیں لیکن کبھی کسی ایس ایچ او نے ان کے خلاف نقصِ امن کا مقدمہ درج کرنے کی دھمکی نہیں دی۔ کوئی میونسپل کمیٹی والا ان سے بھتہ وصول کرنے نہیں آیا اور نہ ہی اس نے ان کا سامان اٹھا کر ٹرک میں پھینکا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس ہفتے میں چار دن کے لیے لوگوں کے لیے کھولا جاتا ہے۔ کچھ دور دوسری سڑک پر ایک ٹکٹ گھر ہے جہاں علی الصبح ایک لمبی لائن میں لگ کر ٹکٹ خریدنا ہوتا ہے۔ آپ صبح نہیں جاسکتے تو کوئی ہرج نہیں عین وائٹ ہاؤس کے سامنے سیاحوں کو سیر کرانے والی بسوں کے کنڈیکٹر آپ کو یہ ٹکٹ بلیک میں بیچتے نظر آئیں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جس وقت یہ سب کچھ وائٹ ہاؤس کے دروازے کے سامنے ہورہا ہوتا ہے یا اس کے کمروں اور راہداریوں میں لوگ سیر کر رہے ہوتے ہیں تو اس کے ایک کمرے "اوول روم" میں امریکہ کا صدر بیٹھا کام کررہا ہوتا ہے۔ اس نے کبھی فون اُٹھا کر علاقے کے پولیس چیف کو یہ نہیں کہا یہ سب کیا بکواس ہے ہٹاؤ ان سب کو یہاں سے۔
بکنگھم پیلس کے گیٹ کے سامنے روز صبح لوگوں کا ایک میلہ لگا ہوتا ہے جو گارڈز کی پریڈ دیکھنے آتے ہیں۔ دروازے، دیواروں اور ریلنگ کے ساتھ کھڑے لوگ تصویریں بنارہے ہوتے ہیں اور وہاں کھڑے گارڈ مسکراتے رہتے ہیں کسی نے کبھی غصے میں آکر اپنی بندوق عوام پر سیدھی نہیں کی اور نہ ہی ڈنڈے سے ہجوم کو پیچھے ہٹایا۔
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ جہاں برطانیہ کے وزیرِاعظم کا دفتر ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے کوئٹہ کے جناح روڈ کی دکانوں کی طرح ایک دکان ہے۔ اس کے سامنے سے گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں۔ ضرورت پڑے تو ہارن بھی بجاتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ہسپتال کے سامنے No Horn کا بورڈ اکھاڑ کر وہاں نہیں لگایا۔ یہ سب بڑے بڑے لوگ جب دفتر آتے ہیں تو نہ ان کی گاڑیاں پورچ میں کھڑی ہوتی ہیں اور نہ ہی کار اسٹینڈ پر یہ لکھا ہوتا ہے یہ جگہ صدر کے لیے ہے، یہ وزیرِاعظم کے لیے، یہ منسٹر کے لیے یا یہ پولیس چیف کے لیے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے تو وہ سویڈن گئے وہاں اولف پالمے وزیر اعظم تھا۔ اس نے بھٹو صاحب کے ہوٹل میں سات بجے آنے کا ٹائم دیا۔ بھٹو باہر انتظار کررہے تھے لیکن کوئی پندرہ منٹ کے بعد اولف پالمے ہانپتا ہوا آیا اور معذرت کرکے کہنے لگا دراصل مجھے پارکنگ کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے کوئی دو فرلانگ دور گاڑی پارک کرے بھاگتا ہوا آرہا ہوں۔ اس سارے واقعے کے بعد کسی نے کرین منگوا کر ان گاڑیوں کو اٹھا کر تھانے میں بند نہیں کیا جو اس ہوٹل کے آس پاس کھڑی تھیں۔
شاید مغربی دنیا اتنی مہذب نہیں جتنے ہم ہیں یا پھر ان کے ہاں شخصیت کی اتنی قدروقیمت نہیں جتنی ہمارے ہاں۔ یہاں جو شخص گلی سے نکل کر سڑک پر اچھا گھر بنالیتا ہے وہ پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اس کے سامنے ایک سپیڈ بریکر بناتا ہے۔ میں نے کوئی دفتر ایسا نہیں دیکھا جہاں بڑے صاحب سے لے کر چھوٹے صاحب تک پارکنگ کے لیے جگہ مخصوص نہ ہو بلکہ بڑے صاحب کی گاڑی تو پورچ میں کھڑی رہتی ہے اور ڈرائیور صبح سے شام تک اسے چمکاتا رہتا ہے۔ مغرب میں لگتا ہے کہ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں جبکہ ہم جانوں کی اس حد تک قدر و قیمت اور تحفظ کرتے ہیں کہ ہمارا بس چلے تو شہر کی سڑک، موڑ اور گلی کی نکڑ پر ایک زنجیر، ڈنڈا یا رکاوٹ کھڑی کرکے کم از کم یہ احساس تو دلائیں کہ یہاں ایک بہت قیمتی جان رہائش پذیر ہے جسے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے۔ یہاں کم از کم یہ اعلان تو ہو کہ یہاں "ہم" رہتے ہیں جیسے سپیڈ بریکر اس بات کا اشتہار ہے کہ ذرا سنبھل کر آؤ یہ ہمارا درِ دولت ہے۔
ہماری انا کے بت اتنے بڑے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کو دکھائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ گاڑی پہ کالے شیشے لگائیں، لال سرخ بتی نصب کریں، سپیڈ بریکر بنائیں، دروازے کے آگے "No Horn" کا بورڈ یا رکاوٹ کھڑی کر کے راستہ روکیں۔ نظر آئے تو ہمارا تفاخر، ہماری انا، ہماری سیکیوٹی کا احساس۔ میں سوچتا تھا کہ جب ہم سب لوگ یہ دنیا چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو سب اسی طرح ایک سادہ سی چارپائی پر بے حس پڑے ہوتے ہیں۔ ہارن بجتے رہیں لوگ آکر ہمارے منہ سے کپڑا اٹھاتے، ڈالتے رہیں ہمارے کانوں کے سامنے زور زور سے روتے چلاتے رہیں ہم کسی محافظ کو اشارہ نہیں کرسکتے کہ یہ سب بکواس بند کراؤ۔ بادشاہ و گدا سب ایک ہی حال میں ہوتے ہیں لیکن تاریخ کے ایک فرعون صفت شخص نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ ابوجہل کو جب جنگِ بدر میں معاذ ؓ اور معوذ ؓ نے پچھاڑ لیا تو وہ اس کے سینے پر چڑھ گئے، موت کو سامنے دیکھ کر اس نے ان سے کہا کہ دیکھو میرا سر گردن سے ذرا نیچے سے کاٹنا تاکہ پتہ چلے کہ یہ کسی عرب سردار کا سر ہے۔ سروں کی لمبی سڑک پر ایسے لگے جیسے کوئی سپیڈ بریکر، کوئی زنجیر، کوئی رکاوٹ۔
کتاب کا نام:
حرفِ راز
تحریر
اوریا مقبول جان
بکنگھم پیلس کے گیٹ کے سامنے روز صبح لوگوں کا ایک میلہ لگا ہوتا ہے جو گارڈز کی پریڈ دیکھنے آتے ہیں۔ دروازے، دیواروں اور ریلنگ کے ساتھ کھڑے لوگ تصویریں بنارہے ہوتے ہیں اور وہاں کھڑے گارڈ مسکراتے رہتے ہیں کسی نے کبھی غصے میں آکر اپنی بندوق عوام پر سیدھی نہیں کی اور نہ ہی ڈنڈے سے ہجوم کو پیچھے ہٹایا۔
10 ڈاؤننگ اسٹریٹ جہاں برطانیہ کے وزیرِاعظم کا دفتر ہے ایسے لگتا ہے جیسے ہمارے کوئٹہ کے جناح روڈ کی دکانوں کی طرح ایک دکان ہے۔ اس کے سامنے سے گاڑیاں گزرتی رہتی ہیں۔ ضرورت پڑے تو ہارن بھی بجاتی ہیں لیکن کبھی کسی نے ہسپتال کے سامنے No Horn کا بورڈ اکھاڑ کر وہاں نہیں لگایا۔ یہ سب بڑے بڑے لوگ جب دفتر آتے ہیں تو نہ ان کی گاڑیاں پورچ میں کھڑی ہوتی ہیں اور نہ ہی کار اسٹینڈ پر یہ لکھا ہوتا ہے یہ جگہ صدر کے لیے ہے، یہ وزیرِاعظم کے لیے، یہ منسٹر کے لیے یا یہ پولیس چیف کے لیے۔ ذوالفقار علی بھٹو جب وزیراعظم تھے تو وہ سویڈن گئے وہاں اولف پالمے وزیر اعظم تھا۔ اس نے بھٹو صاحب کے ہوٹل میں سات بجے آنے کا ٹائم دیا۔ بھٹو باہر انتظار کررہے تھے لیکن کوئی پندرہ منٹ کے بعد اولف پالمے ہانپتا ہوا آیا اور معذرت کرکے کہنے لگا دراصل مجھے پارکنگ کے لیے جگہ نہیں مل رہی تھی۔ اس لیے کوئی دو فرلانگ دور گاڑی پارک کرے بھاگتا ہوا آرہا ہوں۔ اس سارے واقعے کے بعد کسی نے کرین منگوا کر ان گاڑیوں کو اٹھا کر تھانے میں بند نہیں کیا جو اس ہوٹل کے آس پاس کھڑی تھیں۔
شاید مغربی دنیا اتنی مہذب نہیں جتنے ہم ہیں یا پھر ان کے ہاں شخصیت کی اتنی قدروقیمت نہیں جتنی ہمارے ہاں۔ یہاں جو شخص گلی سے نکل کر سڑک پر اچھا گھر بنالیتا ہے وہ پہلا کام یہ کرتا ہے کہ اس کے سامنے ایک سپیڈ بریکر بناتا ہے۔ میں نے کوئی دفتر ایسا نہیں دیکھا جہاں بڑے صاحب سے لے کر چھوٹے صاحب تک پارکنگ کے لیے جگہ مخصوص نہ ہو بلکہ بڑے صاحب کی گاڑی تو پورچ میں کھڑی رہتی ہے اور ڈرائیور صبح سے شام تک اسے چمکاتا رہتا ہے۔ مغرب میں لگتا ہے کہ انسانی جان کی کوئی قدر و قیمت نہیں جبکہ ہم جانوں کی اس حد تک قدر و قیمت اور تحفظ کرتے ہیں کہ ہمارا بس چلے تو شہر کی سڑک، موڑ اور گلی کی نکڑ پر ایک زنجیر، ڈنڈا یا رکاوٹ کھڑی کرکے کم از کم یہ احساس تو دلائیں کہ یہاں ایک بہت قیمتی جان رہائش پذیر ہے جسے ہر وقت جان کا خطرہ رہتا ہے۔ یہاں کم از کم یہ اعلان تو ہو کہ یہاں "ہم" رہتے ہیں جیسے سپیڈ بریکر اس بات کا اشتہار ہے کہ ذرا سنبھل کر آؤ یہ ہمارا درِ دولت ہے۔
ہماری انا کے بت اتنے بڑے ہیں کہ ہم انہیں لوگوں کو دکھائے بغیر چین سے نہیں بیٹھتے۔ گاڑی پہ کالے شیشے لگائیں، لال سرخ بتی نصب کریں، سپیڈ بریکر بنائیں، دروازے کے آگے "No Horn" کا بورڈ یا رکاوٹ کھڑی کر کے راستہ روکیں۔ نظر آئے تو ہمارا تفاخر، ہماری انا، ہماری سیکیوٹی کا احساس۔ میں سوچتا تھا کہ جب ہم سب لوگ یہ دنیا چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو سب اسی طرح ایک سادہ سی چارپائی پر بے حس پڑے ہوتے ہیں۔ ہارن بجتے رہیں لوگ آکر ہمارے منہ سے کپڑا اٹھاتے، ڈالتے رہیں ہمارے کانوں کے سامنے زور زور سے روتے چلاتے رہیں ہم کسی محافظ کو اشارہ نہیں کرسکتے کہ یہ سب بکواس بند کراؤ۔ بادشاہ و گدا سب ایک ہی حال میں ہوتے ہیں لیکن تاریخ کے ایک فرعون صفت شخص نے یہ مسئلہ بھی حل کردیا۔ ابوجہل کو جب جنگِ بدر میں معاذ ؓ اور معوذ ؓ نے پچھاڑ لیا تو وہ اس کے سینے پر چڑھ گئے، موت کو سامنے دیکھ کر اس نے ان سے کہا کہ دیکھو میرا سر گردن سے ذرا نیچے سے کاٹنا تاکہ پتہ چلے کہ یہ کسی عرب سردار کا سر ہے۔ سروں کی لمبی سڑک پر ایسے لگے جیسے کوئی سپیڈ بریکر، کوئی زنجیر، کوئی رکاوٹ۔
کتاب کا نام:
حرفِ راز
تحریر
اوریا مقبول جان