"امید عالم سے کتنی محبّت ہے آپ کو؟"
وہ ان کے سوال پر جھینپ گیا، "یہ میں نہیں جانتا مگر"
ڈاکٹر خورشید نے اس کی بات کاٹ دی- "مگر محبّت ضرور کرتے ہیں-" انھوں نے اسکا ادھورا فقرہ مکمل کر دیا-" وہ خاموش رہا-
"آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نےان کے حصول کے لیے دعا کرتے ہوۓ الله سے کہا تھا کہ اگے آپ کی محبّت میں اخلاص ہے تو وہ آپ کو مل جائے- اب آپ دعا کریں اگر اس عورت سے شادی آپ کے لیے بہتر ہے تو وہ آپ کو ملے ورنہ صرف محبّت کے حصول کی دعا نہ کریں اور پھر آپ مطمئن ہو جائیں گے- الله آپ کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ بنا دے گا-"
"مگر میں تو امید کے بغیر نہیں رہ سکتا-"
"ایمان کے بغیر نہیں رہا جا سکتا اور آپ کے پاس ایمان ہے-" ان کا جواب اتنا ہی بے ساختہ تھا-
"آپ سمجھ نہیں پا رہے- میں، وہ میرے لیے میری سمجھ میں نہیں آ رہا، میں آپ سے اپنی بات کیسے کہوں-" وہ الجھ گیا تھا-
"تو مت کہیے اگر بات کہنے کے لیے لفظ نہ مل رہے ہوں تو اپنی اس بات یا جذبے پر ایک بار پھر سے غور ضرور کرنا چاہیے-"
وہ ان کا منہ دیکھتا رہ گیا- "وہ میری زندگی کا حصّہ بن چکی ہے، اس کے بغیر میں اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا-"
"انسان صرف خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا- باقی ہر چیز کے بغیر رہا جا سکتا ہے- چاہے بہت تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی-"
وو قائل نہیں ہوا تھا مگر سر جھکا کر خاموش رہا-
"جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا اسے یونہی لگتا ہےکہ وہ پیاس سے مر جائے گا مگر پانی کا گھونٹ بھرتے ہی دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے پھر اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر سکتا تھا-" اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر خورشید کو دیکھا-
"مگر لوگ پیاس سے مر بھی جاتے ہیں-"
"نہیں، پیاس سے نہیں مرتے،مرتے تو وہ اپنے وقت پہ ہیں اور اسی طرح جس طرح خدا چاہتا ہے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر ہمیں زندہ رہتے ہوۓ بھی بار بار موت کےتجربے سے گزرنا پڑتا ہے-"
"تو کیا میں اس سے محبّت نہ کروں؟"
"آپ محبّت ضرور کریں مگر محبّت کے حصول کی اتنی خواہش نہ کریں- آپ کے مقدّر میں جو چیز ہو گی وہ آپ کو مل جائے گی مگر کسی چیز کو خواہش بن کر، کائی بن کر اپنے وجود پر پھیلنے مت دیں ورنہ یہ سب سے پہلے ایمان کو نگلے گی- آپ اس عورت کے حصول کے لیے دعا کی کوشش بھی کر رہے ہیں- اب صبر کر لیں اور معاملات الله پر چھوڑ دیں، راتوں کو جاگنے اور سرابوں کے پیچھے بھا گنے سے کسی چیز کو مقدّر نہیں بنایا جا سکتا-"
(عمیرہ احمد کے ناول "ایمان، امید اور محبّت" سے اقتباس)
وہ ان کے سوال پر جھینپ گیا، "یہ میں نہیں جانتا مگر"
ڈاکٹر خورشید نے اس کی بات کاٹ دی- "مگر محبّت ضرور کرتے ہیں-" انھوں نے اسکا ادھورا فقرہ مکمل کر دیا-" وہ خاموش رہا-
"آپ نے مجھے بتایا تھا کہ آپ نےان کے حصول کے لیے دعا کرتے ہوۓ الله سے کہا تھا کہ اگے آپ کی محبّت میں اخلاص ہے تو وہ آپ کو مل جائے- اب آپ دعا کریں اگر اس عورت سے شادی آپ کے لیے بہتر ہے تو وہ آپ کو ملے ورنہ صرف محبّت کے حصول کی دعا نہ کریں اور پھر آپ مطمئن ہو جائیں گے- الله آپ کے لیے کوئی نہ کوئی راستہ بنا دے گا-"
"مگر میں تو امید کے بغیر نہیں رہ سکتا-"
"ایمان کے بغیر نہیں رہا جا سکتا اور آپ کے پاس ایمان ہے-" ان کا جواب اتنا ہی بے ساختہ تھا-
"آپ سمجھ نہیں پا رہے- میں، وہ میرے لیے میری سمجھ میں نہیں آ رہا، میں آپ سے اپنی بات کیسے کہوں-" وہ الجھ گیا تھا-
"تو مت کہیے اگر بات کہنے کے لیے لفظ نہ مل رہے ہوں تو اپنی اس بات یا جذبے پر ایک بار پھر سے غور ضرور کرنا چاہیے-"
وہ ان کا منہ دیکھتا رہ گیا- "وہ میری زندگی کا حصّہ بن چکی ہے، اس کے بغیر میں اپنی زندگی کا تصور نہیں کر سکتا-"
"انسان صرف خدا کے بغیر نہیں رہ سکتا- باقی ہر چیز کے بغیر رہا جا سکتا ہے- چاہے بہت تھوڑی دیر کے لیے ہی سہی-"
وو قائل نہیں ہوا تھا مگر سر جھکا کر خاموش رہا-
"جب تک انسان کو پانی نہیں ملتا اسے یونہی لگتا ہےکہ وہ پیاس سے مر جائے گا مگر پانی کا گھونٹ بھرتے ہی دوسری چیزوں کے بارے میں سوچنے لگتا ہے پھر اسے یہ خیال بھی نہیں آتا کہ وہ پیاس سے مر سکتا تھا-" اس نے سر اٹھا کر ڈاکٹر خورشید کو دیکھا-
"مگر لوگ پیاس سے مر بھی جاتے ہیں-"
"نہیں، پیاس سے نہیں مرتے،مرتے تو وہ اپنے وقت پہ ہیں اور اسی طرح جس طرح خدا چاہتا ہے مگر دنیا میں اتنی چیزیں ہماری پیاس بن جاتی ہیں کہ پھر ہمیں زندہ رہتے ہوۓ بھی بار بار موت کےتجربے سے گزرنا پڑتا ہے-"
"تو کیا میں اس سے محبّت نہ کروں؟"
"آپ محبّت ضرور کریں مگر محبّت کے حصول کی اتنی خواہش نہ کریں- آپ کے مقدّر میں جو چیز ہو گی وہ آپ کو مل جائے گی مگر کسی چیز کو خواہش بن کر، کائی بن کر اپنے وجود پر پھیلنے مت دیں ورنہ یہ سب سے پہلے ایمان کو نگلے گی- آپ اس عورت کے حصول کے لیے دعا کی کوشش بھی کر رہے ہیں- اب صبر کر لیں اور معاملات الله پر چھوڑ دیں، راتوں کو جاگنے اور سرابوں کے پیچھے بھا گنے سے کسی چیز کو مقدّر نہیں بنایا جا سکتا-"
(عمیرہ احمد کے ناول "ایمان، امید اور محبّت" سے اقتباس)