”پروین شاکر کی مُردہ انگلیاں“
پروین شاکر سے میری دوستی یا قربت نہ تھی۔ کبھی کسی ادبی محفل یا دعوت میں آمنا سامنا ھو جاتا تو وہ ماتھے پر ھاتھ رکھ کر سلام میں پہل کرتی ، کیا لکھ رھے ھیں ، کیا پڑھ رھے ھیں اور کبھی کبھار ادب کے حوالے سے کوئی ایک آدھ خط۔۔
’’خوشبو‘‘ سے اُس کی شہرت کا آغاز ھوا جسے ’’التحریر‘‘ کے خالد سیف اللہ نے احمد ندیم قاسمی کے کہنے پر شائع کیا اور یہ ایک عجیب اتفاق تھا کہ اس اشاعتی ادارے نے اپنے آغاز میں جتنی بھی کتابیں نئی یا پرانی شائع کیں وہ سب بے حد مقبول ھوئیں۔ میرزا ادیب کے ’’صحرا نورد کے خطوط‘‘، ممتاز مفتی کی ’’لبیک‘‘، میرے دو سفر نامے ’’نکلے تری تلاش میں‘‘ اور ’’اُندلس میں اجنبی‘‘ اور پروین شاکر کی ’’خوشبو‘‘۔
اسلام آباد کے قبرستان میں پروین کو رخصت کرنے والے بہت کم لوگ تھے، اُس کی عزیز داری کراچی میں تھی اور وھاں سے یہاں آج ھی کے دن پہنچنا مشکل تھا ، کچھ ادیب تھے اور اُس کے محکمے کے کچھ لوگ۔ آخری لمحوں میں اُس کے ایک بھائی بھی پہنچ گئے۔ لیکن اس سے پیشتر یہی مسئلہ در پیش تھا کہ اُسے لحد میں کون اتارے گا کیونکہ کوئی نامحرم ایسا نہیں کر سکتا۔ ھم چار پانچ لوگ قبر کی مٹی کے ڈھیر پر کھڑے تھے اور میرے برابر میں افتخار عارف اپنے آپ کو بمشکل سنبھالتے تھے۔
جنازہ تو ھو چکا تھا جو اہل تشعیع کے عقیدے کی نمائندگی کرتا تھا۔ ھم نے کچھ دیر انتظار کیا اور اس اُلجھن کا شکار رھے کہ اگر اُن کا کوئی نزدیکی عزیز بروقت نہ پہنچا تو پروین کو لحد میں کیسے اتارا جائے گا؟؟ ۔مجھے مکمل تفصیل تو یاد نہیں رھی کہ اس کے بھائی کب پہنچے لیکن یہ یاد ھے کہ کسی نے سفید کفن میں لپٹی پروین شاکر کو افتخار عارف کے بڑھے ھوئے ھاتھوں میں دے دیا۔
افتخار اُسے تھامے ھوئے قبر میں اترنے کو تھے کہ یکدم اُن کا رنگ زرد پڑ گیا، ھاتھ لرزنے لگے۔ شاید انہیں انجائنا کا درد شروع ھو گیا تھا۔ انہوں نے یکدم مجھ سے کہا ’’تارڑ ، پروین کو سنبھال لو۔ میں نے بازو وا کیے اور پروین کے جسد خاکی کو تھام لیا۔
اور تب میں زندگی کے ایک ناقابل بیان تجربے سے دو چار ھُوا جس کے بارے میں اب بھی سوچتا ھُوں تو سناٹے میں آجاتا ھُوں۔ پروین دھان پان سی لڑکی تھی ، موت کے باوجود وہ بہت بھاری نہ تھی۔ میں جان بُوجھ کر اُس جانب نہ دیکھتا تھا جدھر اُس کا چہرہ کفن میں بندھا تھا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ میرے دائیں ھاتھ کی اُنگلیاں کفن میں روپوش پروین کی مردہ اُنگلیوں پر ھیں۔ اُنہیں چھو رھی ھیں۔ انہیں تھام رکھا ھے۔ میں اُن کی بناوٹ محسوس کر رھا تھا۔
اور اُس لمحے مجھے خیال آیا کہ یہ پروین کا لکھنے والا ھاتھ ھے۔ انہی اُنگلیوں سے اُس نے وہ سب شعر لکھے جو ایک زمانے کے دل پسند ھوئے، ایک داستان ھوئے۔ اور پھر مجھے وہ شعر یاد آیا جو ایک خاتون نے لکھ کر مجھے رسوا اور شرمندہ کر دیا تھا، وہ شعر بھی تو انہی انگلیوں نے لکھا تھا۔ اور آج میں انہیں بے جان حالت میں اپنی انگلیوں سے تھامے ھوئے ھوں۔ وہ لمحہ، وہ کیفیت آج تک میرے بدن پر ثبت ھے۔ میں آج بھی پروین کی اُنگلیوں کی موت کو محسوس کرتا ھُوں۔
اس دوران پروین کے بھائی کراچی سے آ چکے تھے، مجھ سے لحد میں اترا نہ جاتا تھا ، کسی اور شخص نے میری مدد کی اور ھم نے اس کے مردہ بدن کو قبر میں کھڑے اُس کے بھائی یا عزیز کے سپرد کر دیا۔ یہ عجیب بات ھے کہ زندگی میں ھم ایک دوسرے کو زیادہ نہ جانتے تھے، یہ موت تھی جو مجھے اُس کے قریب لے آئی۔ میں آج بھی کہیں پروین شاکر کا نام دیکھتا ھوں تو اس کی موت کی کیفیت مجھ پر طاری ھونے لگتی ھے۔
پروین کی جواں سال موت نے پوری ادبی دنیا کو رنجیدہ کر دیا۔ لوگ اُس کے شعر پڑھتے، اُس کے لیے روتے رھے اور اُن میں پروین قادر آغا بھی تھیں اُن کی سب سے عزیز دوست۔ ایک ”گُوڑی سہیلی“ جنہوں نے پروین کے ایک اور دوست مظہر الاسلام کے تعاون سے ”پروین شاکر ٹرسٹ“ قائم کیا جس کے زیر انتظام ھر برس پروین اور اُس کی شاعری کے چرچے ھوتے، شاعری کی نئی کتابوں پر ایوارڈ دیے جاتے، گلوکار اور شاعر اُسے نذرانۂ عقیدت پیش کرتے۔
افسوس کہ میں اُن میں سے کسی محفل میں شریک نہ ھو سکا کیونکہ میں شاعر نہ تھا اور پھر پروین قادر آغا اور مظہر الاسلام نے فیصلہ کیا کہ اس برس ”پروین شاکر اردو لٹریچر فیسٹیول“ کا انعقاد کیا جائے۔ مجھے اور مسعود اشعر کو فکشن کی نمائندگی کرنے کے لیے بلاوا آ گیا۔
میں کیسے نہ جاتا۔ پروین کی مُردہ انگلیاں مجھے بلاتی تھیں۔
”مستنصر حسین تارڑ“