چھوٹا کام
رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالٰی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست کسی نہ کسی طرح اللہ تعالٰی کرتا ہے، لیکن میری پسند کے رزق کا بندوبست نہیں کرتا- میں چاہتا ہوں کہ میری پسند کے رزق کا انتظام ہونا چاہئے- ہم اللہ کے لاڈلے تو ہیں۔ لیکن اتنے بھی نہیں جتنے خود کو سمجھتے ہیں۔
ہمارے بابا جی کہا کرتے تھے کہ اگر کوئی آدمی آپ سے سردیوں میں رضائی مانگے تو اُس کے لیے رضائی کا بندوبست ضرور کریں، کیونکہ اُسے ضرورت ہو گی- لیکن اگر وہ یہ شرط عائد کرے کہ مجھے فلاں قسم کی رضائی دو تو پھر اُس کو باہر نکال دو، کیونکہ اس طرح اس کی ضرورت مختلف طرح کی ہو جائے گی۔
وقت کا دباؤ بڑا شدید ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ برداشت کے ساتھہ حالات ضرور بدل جائیں گے، بس ذرا سا اندر ہی اندر مُسکرانے کی ضرورت ہے- یہ ایک راز ہے جو سکولوں، یونیورسٹیوں اور دیگر اداروں میں نہیں سکھایا جاتا- ایسی باتیں تو بس بابوں کے ڈیروں سے ملتی ہیں- مجھ سے اکثر لوگ پوچھتے ہیں کہ اشفاق صاحب کوئی بابا بتائیں- میں نے ایک صاحب سے کہا کہ آپ کیا کریں گے؟ کہنے لگے، اُن سے کوئی کام لیں گے- نمبر پوچھیں گے انعامی بانڈز کا- میں نے کہا انعامی بانڈز کا نمبر میں آپ کو بتا دیتا ہوں- بتاؤ کس کا چاہئے؟ کہنے لگے، چالیس ہزار کے بانڈ کا- میں نے کہا کہ 931416, کیونکہ تم کبھی کہیں سے اسے خرید نہیں سکو گے- کہاں سے اسے تلاش کرو گے؟ آپ کو انعامی بانڈ کا نمبر آپ کی مرضی کا تو نہیں ملے گا ناں!
آپ بابوں کو بھی بس ایسے ہی سمجھتے ہیں، جیسے میری بہو کو آج کل ایک خانساماں کی ضرورت ہے- وہ اپنی ہر ایک سہیلی سے پوچھتی ہے کہ اچھا سا خانساماں کا تمہیں پتا ہو تو مجھے بتاؤ- اسی طرح میرے سارے چاہنے والے مجھ سے کسی اچھے سے بابے کی بابت پوچھتے ہیں کہ جیسے وہ کوئی خانساماں ہو-ان بابوں کے پاس کچھ اور طرح کی دولت اور سامان ہوتا ہے، جو میں نے متجسّس ہو کر دیکھا، حالانکہ میں تو ولایت میں تھا اور پروفیسری کرتا تھا- میں نے یہاں آکر دیکھا کہ یہ بھی تو ایک علم ہے- یا اللہ! یہ کیسا علم ہے، اسے کس طرح سے آگے چلایا جاتا ہے کہ یہ مشکل بہت ہے- مثال کے طور پر ان کا (بابوں) حکم ہوتا ہے کہ چھوٹے چھوٹے کام کرو، بڑے کام نہ کرو-چھوٹے کاموں کو مت بھولیں، ان کو ساتھ لے کر چلیں- چھوٹے کاموں کی بڑی اہمیت ہوتی ہے، لیکن ہم ان باتوں کو مانتے ہی نہیں کہ بھئی یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ چھوٹا کام بھی اہمیت کا حامل ہو۔
جب ہم بابا جی کے پاس ڈیرے پر گئے تو اُنہوں نے ہمیں مٹر چھیلنے پر لگا دیا- میں نے تھری پیس سوٹ پہن کر ٹائی لگا رکھی تھی، لیکن مٹر چھیل رہا تھا، حالانکہ میں نے ساری زندگی کبھی مٹر نہیں چھیلے تھے- پھر اُنہوں نے لہسن کو چھیلنے پر لگا دیا اور ہاتھوں سے بُو آنا شروع ہو گئی- پھر حکم ہوا کہ میتھی کے پتّے اور " ڈنٹھل“ الگ الگ کرو- اس مشقّت سے اب تو خواتین بھی گھبراتی ہیں- ہماری ایک بیٹی ہے زونیرا، اُس کو کوئی چھوٹا سا کام کہ دیں کہ بھئی یہ خط پہنچا دینا تو کہتی ہے، بابا یہ معمولی سا کام ہے- مجھے کوئی بڑا سا کام دیں- اتنا بڑا کہ میں آپ کو وہ کر کے دکھاؤں (کوئی شٹل میں جانے جیسا کام شاید) میں نے کہا یہ خط تو پہنچا دیتی! کہنےلگی، یہ تو بابا بس پڑا ہی رہ گیا میرے پاس- چھوٹے چھوٹے کاموں سے بابوں کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اس سے ہماری زندگی میں ڈسپلن آئے۔
ہمارے دین میں سب سے اہم چیز ڈسپلن ہے- میں تین چار برس پہلے کینیڈا گیا تھا، وہاں ایک یوری انڈریو نامی ریڈیو اناؤنسر ہے- اب وہ مُسلمان ہو گیا ہے- اُس کی آواز بڑی خوبصورت آواز ہے- میں اس وجہ سے کہ وہ اچھا اناؤنسر ہے اور اب مُسلمان ہو گیا ہے، اُس سے ملنے گیا- وہ اپنے مُسلمان ہونے کی وجوہات کے بارے میں بتاتا رہا- اُس نے مُسلمان ہونے کی وجہ تسمیہ بتاتے ہوئے کہا کہ وہ سورۂ روم پڑھ کر مُسلمان ہوا ہے- میں پھر کبھی آپ کو بتاؤں گا کہ اُس کو سورۂ روم میں کیا نظر آٰیا- میں نے کہا کہ اب ہمارے حالات تو بڑے کمزور ہیں- اُس نے کہا نہیں- اسلام کا نام تو جلّی حروف میں سامنے دیوار پر بڑا بڑا کر کے لکھا ہوا ہے- میں نے کہا، نہیں! ہم تو ذلیل و خوار ہو رہے ہیں- خاص طور پر جس طرح سے ہم کو گھیرا جا رہا ہے، اُس نے کہا ٹھیک ہے گھیرا جا رہا ہے، لیکن اس صورتِ حال میں سے نکلنے کا بھی ایک انداز ہے- ہم نکلیں گے- میں نے کہا ہم کیسے نکلیں گے؟ اُس نے کہا کہ جب کوئی پانچ چھ سات سو امریکی مُسلمان ہو جائیں گے اور اسی طرح سے چھ سات سو کینیڈین مُسلمان ہو جائیں اور ساڑھے آٹھ نو سو سکینڈے نیوین مُسلمان ہوجائیں گے تو پھر ہمارا قافلہ چل پڑے گا، کیونکہ We are Disciplined۔اسلام ڈسپلن سکھاتا ہے، نعرہ بازی کو نہیں مانتا- میں بڑا مایوس، شرمندہ اور تھک سا گیا- اُس کی یہ بات سُن کر اور سوچا کہ دیکھو! ہر حال میں ان کی "چڑھ“ مچ جاتی ہے- یہ جو گورے ہیں یہ یہاں بھی کامیاب ہو جائیں گے-
اسلام، جو ہم کو بہت پیارا ہے- ہم نعرے مار مار کر، گانے گا گا کر یہاں تک پہنچے ہیں اور یہ ہمیں مل نہیں رہا- میں نے اُس سے کہا کہ اس میں ہمارا کوئی حصّہ نہیں ہوگا؟ تو اُس نے کہا کہ نہیں! آپ سے معافی چاہتا ہوں کہ آپ کا اس میں کوئی حصّہ نہیں ہے- میں نے کہا کہ یار! ہمارا بھی جی چاہے گا کہ ہمارا بھی اس میں کوئی حصّہ ضرور ہو- کہنے لگا، ایسا کریں گے کہ جب ہمارا قافلہ چلے گا تو تم بھی بسترے اُٹھا کر پپیچھے پیچھے چلتے آنا اور کہا Sir we are also Muslim - لیکن آپ میں وہ ڈسپلن والی بات ہے نہیں- اور دنیا جب آگے بڑھی ہے تو وہ نظم سے اور ڈسپلن سے ہی آگے بڑھی ہے- جب اس نے یہ بتایا کہ دیکھئے ہمارے دین میں اوقات مقّرر ہیں- وقت سے پہلے اور بعد میں نماز نہیں ہو سکتی- اس کی رکعات مقّرر ہیں- آپ مغرب کی تین ہی پڑھیں گے- آپ چاہیں کہ میں مغرب کی چار رکعتیں پڑھ لوں کہ اس میں اللہ کا بھی فائدہ، اور میرا بھی فائدہ، لیکن اس سے بات نہیں بنے گی- آپ کو فریم ورک کے اندر ہی رہنا پڑے گا- پھر آپ حج کرتے ہیں- اس میں کچھ عبادت نہیں کرنی، طے شدہ بات ہے کہ آج آپ عرفات میں ہیں، کل مزدلفہ میں ہیں- پرسوں منٰی میں ہیں اور بس حج ختم اور کچھ نہیں کرنا، جگہ بدلنی ہے کہ فلاں وقت سے پہلے وہاں پہنچ جانا ہے اور جو یہ کر گیا، اُس کا حج ہو گیا، کچھ لمبا چوڑا کام نہیں -
دین میں ہر معاملے میں ڈسپلن سکھایا گیا ہے- ہمارے بابے کہتے ہیں کہ ڈسپلن چھوٹے کاموں سے شروع ہوتا ہے- جب آپ معمولی کاموں کو اہمیت نہیں دیتے اور ایک لمبا منصوبہ بنا کر بیٹھ جاتے ہیں، اپنا ذاتی اور انفرادی تو پھر آپ سے اگلا کام چلتا نہیں- کافی عرصہ پہلے میں چین گیا تھا- یہ اُس وقت کی بات ہے جب چین نیا نیا آزاد ہوا تھا- ہم سے وہ ایک سال بعد آزاد ہوا- ان سے ہماری محبتّیں بڑھ رہی تھیں اور ہم ان سے ملنے چلے گئے- افریقہ اور پاکستان کے کچھ رائٹر چینی حکّام سے ملے-
]ایک گاؤں میں بہت دُور پہاڑوں کی اوٹ میں کچھ عورتیں بھٹی میں دانے بھون رہی تھیں- دھواں نکل رہا تھا- میرے ساتھ شوکت صدیقی تھے- کہنے لگے، یہ عورتیں ہماری طرح سے ہی دانے بھون رہی ہیں-جب ہم ان کے پاس پہنچے تو دو عورتیں دھڑا دھڑ پھوس، لکڑی جو کچھ ملتا تھا، بھٹی میں جھونک رہی تھیں اپنے رومال باندھے کڑاہے میں کوئی لیکوڈ (مائع) سا تیار کر رہی تھیں- ہم نے اُن سے پوچھا کہ یہ آپ کیا کر رہی ہیں؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ہم سٹیل بنا رہی ہیں- میں نے کہا کہ سٹیل کی تو بہت بڑی فیکٹری ہوتی ہے- اُنہوں نے کہا کہ ہم غریب لوگ ہیں اور چین ابھی آزاد ہوا ہے- ہمارے پاس کوئی سٹیل مل نہیں ہے- ہم نے اپنے طریقے کا سٹیل بنانے کا ایک طریقہ اختیار کیا ہے کہ کس طرح سے سندور ڈال کر لوہے کو گرم کرنا ہے- یہ عورتیں صبح اپنے کام پر لگ جاتیں اور شام تک محنت اور جان ماری کے ساتھ سٹیل کا ایک "ڈلا“ یعنی پانچ چھ سات آٹھ سیر سٹیل تیار کر لیتیں- ٹرک والا آتا اور ان سے آکر لے جاتا-
اُنہوں نے بتایا کہ ہمیں جس چیز کی ضرورت ہوتی ہے ہم اس سٹیل کی بدلے لے لیتے ہیں- میں اب بھی کبھی جب اس بات کو سوچتا ہوں کہ سُبحان اللہ، ان کی کیا ہمت تھی- اُن کو کس نے ایسے بتا دیا کہ یہ کام ہم کریں گی تو مُلک کی کمی پوری ہوگی- چھوٹا کام بہت بڑا ہوتا ہے- اس کو چھوڑا نہیں جا سکتا، جو کوئی اسے انفرادی یا اجتماعی طور پر چھوڑ دیتا ہے، مشکل میں پڑ جاتا ہے-
اٹلی میں ایک مسٹر کلاؤ ایک بڑا سخت قسم کا یہودی تھا- اس کی کوئی تیرا چودہ منزلہ عمارت تھی- صبح جب میں یونیورسٹی جاتا تو وہ وائپر لے کر رات کی بارش کا پانی نکال رہا ہوتا اور فرش پر "ٹاکی“ لگا رہا ہوتا تھا یا سڑک کے کنارے جو پٹڑی ہوتی ہے اُسے صاف کر رہا ہوتا- میں اُس سے پوچھتا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں، اتنے بڑے آدمی ہو کر-اُس نے کہا یہ میرا کام ہے، کام بڑا یا چھوٹا نہیں ہوتا، جب میں نے یہ ڈیوٹی لے لی ہے اور میں اس ڈسپلن میں داخل ہو گیا ہوں تو میں یہ کام کروں گا- میں نے کہا کہ آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ اُس نے کہا کہ یہ انبیاء کی صفّت ہے، جو انبیاء کے دائرے میں داخل ہونا چاہتا ہے- وہ چھوٹے کام ضرور کرے- ہم کو یہ نوکری ملی ہے- حضرت موسٰی علیہ السلام نے بکریاں چَرائی تھیں اور ہم یہودیوں میں یہ بکریاں چَرانا اور اس سے متعلقہ نچلے لیول کا کام موجود ہے تو ہم خود کو حضرت موسٰی علیہ السلام کا پیروکار سمجھیں گے- اُس نے کہا کہ آپ کے نبیؐ اپنا جوتا خود گانٹھتے تھے- قمیض کو پیوند یا ٹانکا خود لگاتے تھے- کپڑے دھو لیتے تھے- راستے سے "جھاڑجھنکار“ صاف کر دیتے تھے، تم کرتے ہو؟ میں کہنے لگا مجھےتو ٹانکا لگانا نہیں آتا، مجھے سکھایا نہیں گیا- وہ آدمی بڑی تول کے بات کرتا تھا- مجھے کہتا تھا دیکھو اشفاق تم اُستاد تو بن گئے ہو، لیکن بہت سی چیزیں تمہیں نہیں آتیں- جب کام کرو چھوٹا کام شروع کرو- اب تم لیکچرار ہو کل پروفیسر بن جاؤ گے- تم جب بھی کلاس میں جانا یا جب بھی لوگوں کو خطاب کرنے لگنا اور کبھی بہت بڑا مجمع تمہارے سامنے ہو تو کبھی اپنے سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں کو مخاطب نہ کرنا- ہمیشہ اپنی آواز کو دور پیچھے کی طرف پھینکنا- وہ لوگ جو بڑے شرمیلے ہوتے تھے، شرمندہ سے جھکے جھکے سے ہوتے ہیں، وہ ہمیشہ پچھلی قطاروں میں بیٹھتے ہیں-آپ کا وصف یہ ہونا چاہئے کہ آپ اپنی بات اُن کے لئے کہیں- جب بات چھوٹوں تک پہنچے گی تو بڑوں تک خود بخود پہنچ جائے گی- میں اُس کی باتوں کو کبھی بُھلا نہیں سکتا- جب میں اپنے بابا جی کے پاس آیا تو میں نے کلاؤ کی یہ بات اُنہیں بتائی، اُنہوں نے کہا کہ دیکھو کچھ ہماری ڈیوٹیاں ہوتی ہیں، مثلاً یہ کہ مجھے سکھایا گیا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- سبزیاں چھیلنے کی تو میری پریکٹس ہو چکی تھی- اب بابا جی نے فرمایا کہ سوئی میں دھاگہ ڈالنا سیکھو- اب یہ بڑا مشکل کام ہے- میں کبھی ایک آنکھ بند کرتا اور کبھی دوسری آنکھ کانی کرتا، لیکن اس میں دھاگہ نہیں ڈالتا تھا-
خیر! میں نے ان سے کہا کہ اچھا جی دھاگہ ڈال دیا، اس کا فائدہ؟ کہنے لگے کہ اس کا یہ فائدہ ہے کہ اب تم کسی کا پھٹا ہوا کپڑا، کسی کی پھٹی ہوئی پگڑی سی سکتے ہو۔ جب تک تمہیں لباس سینے کا فن نہیں آئے گا، تم انسانوں کو کیسے سیؤ گے، تم تو ایسے ہی روگے، جیسے لوگ تقریریں کرتے ہیں۔بندہ تو بندے کے ساتھ جڑے گا ہی نہیں۔ یہ سوئی دھاگے کا فن آنا چاہیئے۔ ہماری مائیں بہنیں بیبیاں جو لوگوں کو جوڑ کے رکھتی تھیں، وہ یہ چھوٹے چھوٹے کاموں سے کرتی تھیں۔
آپ ایک لمحے کے لئے یہ بات سوچیں کہ اس ملک کی آبادی 14 کروڑ ہے اور ان 14 کروڑ بندوں کو کس طرح کھانا مل رہا ہے۔ کیا کوئی فیکٹری انہیں کھانا فراہم کرتی ہے یا کوئی ٹرک آتا ہے؟ آپ اپنے گھر تشریف لے جائیں گے اور ٹھنڈا " بسا" بینگن گرم کرکے یا ا مّاں سے کہیں کہ دال ڈال دیں، مکس کرکے گھی ڈال دیں، اس طرح ہمیں کھانا مل رہا ہے اور ان چھوٹے کاموں سے کتنی بڑی آبادی پل رہی ہے۔ آپ اس بارے ضرور سوچیئے گا کہ اگر کام فیکٹر يوڼڼں اور بڑی بڑی چیزوں سے ہی ہوتے تو پھر تو سب بھوکے رہ جاتے۔ یہ تو خواتین کا ہی خاصا ہے کہ وہ سب کوکھانا بناکر دیتی ہیں۔
آپ ان چند بڑے بڑے اشتہاروں کی طرف نہ دیکھیں، جن میں لڑکیاں برگر کھارہی ہوتی ہیں۔ ان کے ہونٹ آدھے لپ اسٹک سے لال ہوتے ہیں، آدھی کیچپ سے لال۔ بڑا خوبصورت اشتہار ہوتا ہے جیسے شیرنی ہرن کا "پٹھا" کھارہی ہو۔ گھر کے لوگوں کو بسم اللہ پڑھ کر کھانا دینے کا سارا درجہ خواتین ہی کو حاصل ہے۔ جب گھروں میں یہ خواتین کھانا پکانے کے لئے نہ ہوں تو مرد تو بھوکے رہ جائیں۔ ان مردوں کو تو نہ کھانا پکانا آتا ہے نہ گھر چلانا۔
یہ ضرور یاد رکھیئے کہ انبیاء کی غلامی یا ان کے نوکری میں شامل ہونے کے لئے چھوٹے کام کو ضرور اختیار کریں۔اگر آپ ان کی نوکری چاہتے ہیں تو! کیونکہ انہوں نے یہ کام کئے ہیں۔ میرا منجھلا بیٹا جب ایف اے میں تھا تو کہنے لگا مجھے دو بکریاں لے دیں، پیغمبروں نے بکریاں چَرائی ہیں، میں بھی چَراؤں گا، ہم نے اس کو بکریاں لے دیں، لیکن وہ پانچویں چھٹے دن روتا ہوا آگیا اور کہنے لگا یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں ایک کو کھیت سے نکالتا ہوں تو دوسری بھاگ کر ادھر چلی جاتی ہے۔ پھر اس نے دونوں کے گلے میں رسی ڈال دی۔
میں نے باباجی سے پوچھا کہ انبیاء کو بکریاں چَرانے کا حکم کیوں دیا جاتا تھا، تو بابا جی نے فرمایا کہ چونکہ آگے چل کر زندگی میں ان کو نہ ماننے والے لوگوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ ان کا کفار سے واسطہ پڑنا تھا۔ اس لئے ان کو بکریوں کے ذریعے سے سکھایا جاتا تھا، کیونکہ دنیا میں جانوروں میں نہ ماننے والا جانور بکری ہی ہے۔ اپنی مرضی کرتی ہے۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ اب ہمارا کرکٹ کا موسم ہے، جو کہ ہمیشہ ہی رہتا ہے، اس پر غور کریں۔ میں تو اتنا اچھا watcher نہیں ہوں، لیکن میں محسوس کرتا ہوں کہ ہر بیٹسمین اپنے مضبوط ہاتھوں اور مضبوط کندھوں اور پُر استقلال جمائے ہوئے قدموں، اپنے سارے وجود اور اپنے سارے Self کی طاقت کے ساتھہ ہٹ نہیں لگاتا، بلکہ اُس کے سر کی ایک چھوٹی سی جُنبش ہوتی ہے، جو نظر بھی نہیں آتی- اُس جُنبش کے نہ آنے تک نہ چوکا لگتا ہے نہ چھکّا- لگتا ہے جب وہ بیلنس میں آتی ہے، تب شارٹ لگتی ہے- سرکس کی خاتون جب تار پر چلتی ہے وہ بیلنس سے یہ سب کچھہ کرتی ہے- میں ابھی جس راستے سے آیا ہوں، مجھے آدھ گھنٹہ کھڑا رہنا پڑا، کیونکہ ہماری بتّی تو سبز تھی، لیکن دوسری طرف سے آنے والے ہمیں گزرنے نہیں دیتے تھے اور راستہ نہ دے کر کہ رہے تھے کہ کر لو جو کرنا ہے، ہم تو اس ڈسپلن کو نہیں مانتے-
یہ سوچ خطرناک ہے، بظاہر کچھ باتیں چھوٹی ہوتی ہیں، لیکن وہ نہایت اہم اور بڑی ہوتی ہیں- میں نے تھوڑے دن ہوئے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے پوچھا ( جیسا کہ میری عادت ہے ہر ایک سے پوچھتا رہتا ہوں، کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا علم ہوتا ہے) کہ آپ کو سب سے زیادہ کرایہ کہاں سے ملتا ہے- اُس نے کہا سر مجھے یہ تو یاد نہیں کہ کسی نے خوش ہو کر زیادہ کرایہ دیا ہو، البتہ یہ مجھے یاد ہے کہ میری زندگی میں کم سے کم کرایہ مجھے کب ملا اور کتنا ملا- میں نے کہا کتنا، کہنے لگا آٹھ آنے- میں نے کہا وہ کیسے؟ کہنے لگا جی بارش ہو رہی تھی یا ہو چکی تھی، میں لاہور میں نسبت روڈ پر کھڑا تھا، بارش سے جگہ جگہ پانی کے چھوٹے چھوٹے جوہڑ سے بنے ہوئے تھے تو ایک بڑی پیاری سی خاتون وہ اس پٹڑی سے دوسری پٹڑی پر جانا چاہتی تھی لیکن پانی کے باعث جا نہیں سکتی تھی- میری گاڑی درمیان میں کھڑی تھی،اُس خاتون نے گاڑی کا ایک دروازہ کھولا اور دوسرے سے نکل کر اپنی مطلوبہ پٹڑی پر چلی گئی اور مجھے اٹھنی دے دی-
ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں، مسکرانا سیکھنا چاہیئے اور اپنی زندگی کو اتنا"چیڑا“ (سخت) نہ بنا لیں کہ ہر وقت دانت ہی بھینچتے رہیں- مجھے یقین ہے کہ آپ ڈسپلن کے راز کو پا لیں گےاور خود کو ڈھیلا چھوڑیں گے اور Relax رکھیں گے-
اللہ آپ سب کو اور آپ کے عزیز واقارب کو آسانیاں عطا فرمائے اور آسانیاں تقسیم کرنے کا شرف عا فرمائے- اللہ حافظ!!