" پنجاب کا دوپٹہ "
جب وہ لوٹ کر آئی تو تو بہت پریشان تھی ۔ بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔میں نے کہا خیر ہے ! کہنے لگی آپ اٹھیں میرے ساتھ چلیں ۔ میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں ۔ میں اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا ۔ وہاں رات کو دربار کا دروازہ بند کر دیتے ہیں ۔ اور زائرین باہر بیٹھے رہتے ہیں ۔ صبح جب دروازہ کھلتا ہے تو پھر لوگ دعائیں وغیرہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں ۔
جب ہم وہاں گئے تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی آپ ادھر آئیں ۔ شاہؒ کے دروازے کے عین سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔ اس کے سر پر جیسا ہمارا دستر خوان ہوتا ہے اس سائز کی چادر کا ٹکڑا تھا ، اور اس کا اپنا جو دوپٹہ تھا وہ اس نے شاہ ؒ کے دروازے کے کنڈے کے ساتھ گانٹھ دے کر باندھا ہوا تھا ۔ اور اپنے دوپٹے کا آخری کونہ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی ۔ اور بلکل خاموش تھی اسے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہیں ۔
اس کی عمر کوئی سولہ ، سترہ ، یا اٹھارہ برس ہوگی وہ کھڑی تھی لیکن لوگ ایک ہلکا سا حلقہ بنا کر اسے تھوڑی سی آسائش عطا کر رہے تھے تا کہ اس کے گرد جمگھٹا نہ ہو ۔ کچھ لوگ جن میں عورتیں بھی تھیں ایک حلقہ سا بنائے کھڑے تھے ۔
میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ میری بیوی کہنے لگی اس کے پاؤں دیکھیں ۔جب میں نے اس کے پاؤں دیکھیں تو آپ یقین کریں کہ پانچ سات کلو کے اتنا بڑا ہاتھی کا پاؤں بھی نہیں ہوتا ۔ بالکل ایسے تھے جیسے سیمنٹ ، پتھر ، یا اینٹ کے بنے ہوئے ہوں ۔ حالانکہ لڑکی بڑی دھان پان کی اور دبلی پتلی سی تھی ۔ ہم حیرانی اور ڈر کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بات کر رہی تھی ۔
وہاں ایک سندھی بزرگ تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ؟
اس نے کہا سائیں کیا عرض کریں ! یہ بیچاری بہت دکھیاری ہے۔ یہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے ۔ اور ہمارے اندازے کے مطابق ملتان یا بہاولپور سے ہے ۔
یہ گیارہ دن سے اسی طرح کھڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار ، وہ سفید داڑھی والا بزرگ اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ایک کھجور کھانے کے لیے یہ منہ کھول دیتی ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں ۔ میری بیوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور یہ بیچارگی کے عالم میں وہاں سے چل کر یہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کھڑی ہے اور ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ " اے شاہ ؒ ! تُو تو اللہ کے راز جانتا ہے تو میری طرف سے ربّ کی خدمت میں درخواست کر کہ میرے بھائی کو رہائی ملے اور اس پر سے مقدمہ ختم ہو " ۔ وہ بس یہ بات کہہ رہی ہے ۔
شاہؒ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ " اے لوگو ! چودہویں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے ، پہلی کے چاند کو جو نظر بھی نہیں آتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر انگلیون کا اشارہ کر کے اسے دیکھتے ہیں ۔ یہ کیا راز ہے َ تم میرے قریب آؤ میں تمہیں چاند کا راز سمجھاتا ہوں ۔
(یہ شاہ عباللطیف بھٹائی کی نظم کا ایک حصہ ہے )
وہ لڑکی بھی بیچاری کہیں سے چل کر چلتی چلتی پتہ نہیں اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا بھی ہے کہ نہیں لیکن وہ وہاں پہنچ گئی ہے ، اور وہاں کھڑی تھی ۔ چونکہ رات کو مزار کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اس لیے کوئی کنکشن نہیں رہتا اس نے اپنا دوپٹہ وہاں اتار کر وہاں باندھ رکھا ہے ۔ وہ بابا بتا رہا تھا کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے ۔ بڑی مشکل سے قدم اٹھا کر چلتی ہے اور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ ہم اپنا ذاتی کام بھول جاتے ہیں اور اس لڑکی کے لیے اللہ سائیں سے گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تو اس پر فضل کر ۔
کتنی چھوٹی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کیا مصیبت ڈال لی ہے ۔ میں کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کا دوپٹہ اگر سر سے اتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک کا یا کوئی اور کپڑا اس کے سر کے اوپر ڈال دیتے ۔
میں اس کو دیکھتا رہا ۔ مجھے باہر دیکھنا ، وائی سننا ، اور دودھ پینا سب کچھ بھول گیا ۔ میں چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں لیکن حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ وہ اتنے بلند کردار اور طاقت کے مقام پر تھی کہ ظاہر ہے ایک چھوٹا معمولی آدمی اس سے بات نہیں کر سکتا تھا ہمیں وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی ۔ ہم نے وہاں ساری رات گزارنے کا فیصلہ کیا ہم نے ساری رات اس لڑکی کے لیے دعائیں کیں بس ہم اس کے لیے کچی پکی دعائیں کرتے رہے ۔ صبح میں نے اپنی بیوی سے چلتے ہوئے کہا جب تک پنجاب کا دوپٹہ شاہ عباللطیف بھٹائی کے کنڈے سے بندھا ہے ۔ پنجاب اور سندھ میں کسی قسم کا کریک نہیں آ سکتا ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 پنجاب کا دوپٹہ صفحہ 9،10
جب وہ لوٹ کر آئی تو تو بہت پریشان تھی ۔ بہت گھبرائی ہوئی تھی ۔ اس کی سانس پھولی ہوئی تھی ۔میں نے کہا خیر ہے ! کہنے لگی آپ اٹھیں میرے ساتھ چلیں ۔ میں آپ کو ایک چیز دکھانا چاہتی ہوں ۔ میں اٹھ کر اس کے ساتھ چل پڑا ۔ وہاں رات کو دربار کا دروازہ بند کر دیتے ہیں ۔ اور زائرین باہر بیٹھے رہتے ہیں ۔ صبح جب دروازہ کھلتا ہے تو پھر لوگ دعائیں وغیرہ مانگنا شروع کر دیتے ہیں ۔
جب ہم وہاں گئے تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگی آپ ادھر آئیں ۔ شاہؒ کے دروازے کے عین سامنے ایک لڑکی کھڑی تھی ۔ اس کے سر پر جیسا ہمارا دستر خوان ہوتا ہے اس سائز کی چادر کا ٹکڑا تھا ، اور اس کا اپنا جو دوپٹہ تھا وہ اس نے شاہ ؒ کے دروازے کے کنڈے کے ساتھ گانٹھ دے کر باندھا ہوا تھا ۔ اور اپنے دوپٹے کا آخری کونہ ہاتھ میں پکڑے کھڑی تھی ۔ اور بلکل خاموش تھی اسے آپ بہت ہی خوبصورت لڑکی کہہ سکتے ہیں ۔
اس کی عمر کوئی سولہ ، سترہ ، یا اٹھارہ برس ہوگی وہ کھڑی تھی لیکن لوگ ایک ہلکا سا حلقہ بنا کر اسے تھوڑی سی آسائش عطا کر رہے تھے تا کہ اس کے گرد جمگھٹا نہ ہو ۔ کچھ لوگ جن میں عورتیں بھی تھیں ایک حلقہ سا بنائے کھڑے تھے ۔
میں نے کہا یہ کیا ہے ؟ میری بیوی کہنے لگی اس کے پاؤں دیکھیں ۔جب میں نے اس کے پاؤں دیکھیں تو آپ یقین کریں کہ پانچ سات کلو کے اتنا بڑا ہاتھی کا پاؤں بھی نہیں ہوتا ۔ بالکل ایسے تھے جیسے سیمنٹ ، پتھر ، یا اینٹ کے بنے ہوئے ہوں ۔ حالانکہ لڑکی بڑی دھان پان کی اور دبلی پتلی سی تھی ۔ ہم حیرانی اور ڈر کے ساتھ اسے دیکھ رہے تھے تو وہ منہ ہی منہ میں کچھ بات کر رہی تھی ۔
وہاں ایک سندھی بزرگ تھے ہم نے ان سے پوچھا کہ آخر یہ معاملہ کیا ہے ؟
اس نے کہا سائیں کیا عرض کریں ! یہ بیچاری بہت دکھیاری ہے۔ یہ پنجاب کے کسی گاؤں سے آئی ہے ۔ اور ہمارے اندازے کے مطابق ملتان یا بہاولپور سے ہے ۔
یہ گیارہ دن سے اسی طرح کھڑی ہے اور اس مزار کا بڑا خدمتگار ، وہ سفید داڑھی والا بزرگ اس کی منت سماجت کرتا ہے تو ایک کھجور کھانے کے لیے یہ منہ کھول دیتی ہے ۔ چوبیس گھنٹے میں ۔ میری بیوی کہنے لگی کہ اسے ہوا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ اس کے بھائی کو پھانسی کی سزا ہوئی ہے اور یہ بیچارگی کے عالم میں وہاں سے چل کر یہاں پہنچی ہے اور اتنے دن سے کھڑی ہے اور ایک ہی بات کہہ رہی ہے کہ " اے شاہ ؒ ! تُو تو اللہ کے راز جانتا ہے تو میری طرف سے ربّ کی خدمت میں درخواست کر کہ میرے بھائی کو رہائی ملے اور اس پر سے مقدمہ ختم ہو " ۔ وہ بس یہ بات کہہ رہی ہے ۔
شاہؒ اپنی ایک نظم میں فرماتے ہیں کہ " اے لوگو ! چودہویں کے چاند کو جو بڑا خوبصورت اور دلکش ہوتا ہے ، پہلی کے چاند کو جو نظر بھی نہیں آتا اور لوگ چھتوں پر چڑھ کر انگلیون کا اشارہ کر کے اسے دیکھتے ہیں ۔ یہ کیا راز ہے َ تم میرے قریب آؤ میں تمہیں چاند کا راز سمجھاتا ہوں ۔
(یہ شاہ عباللطیف بھٹائی کی نظم کا ایک حصہ ہے )
وہ لڑکی بھی بیچاری کہیں سے چل کر چلتی چلتی پتہ نہیں اس نے اپنے گھر والوں کو بتایا بھی ہے کہ نہیں لیکن وہ وہاں پہنچ گئی ہے ، اور وہاں کھڑی تھی ۔ چونکہ رات کو مزار کا دروازہ بند ہوجاتا ہے اس لیے کوئی کنکشن نہیں رہتا اس نے اپنا دوپٹہ وہاں اتار کر وہاں باندھ رکھا ہے ۔ وہ بابا بتا رہا تھا کہ اب اس کا چلنا مشکل ہے ۔ بڑی مشکل سے قدم اٹھا کر چلتی ہے اور ہم سب لوگ اس لڑکی کے لیے دعا کرتے ہیں ۔ ہم اپنا ذاتی کام بھول جاتے ہیں اور اس لڑکی کے لیے اللہ سائیں سے گڑ گڑا کر دعا کرتے ہیں کہ اللہ تو اس پر فضل کر ۔
کتنی چھوٹی سی جان ہے اور اس نے اپنے اوپر کیا مصیبت ڈال لی ہے ۔ میں کھڑا اس لڑکی کو دیکھ رہا تھا ۔ اس کا دوپٹہ اگر سر سے اتر جاتا تو وہاں کے لوگ اپنے پاس سے اجرک کا یا کوئی اور کپڑا اس کے سر کے اوپر ڈال دیتے ۔
میں اس کو دیکھتا رہا ۔ مجھے باہر دیکھنا ، وائی سننا ، اور دودھ پینا سب کچھ بھول گیا ۔ میں چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں لیکن حوصلہ نہیں پڑ رہا تھا کیونکہ وہ اتنے بلند کردار اور طاقت کے مقام پر تھی کہ ظاہر ہے ایک چھوٹا معمولی آدمی اس سے بات نہیں کر سکتا تھا ہمیں وہاں کھڑے کھڑے کافی دیر ہو گئی ۔ ہم نے وہاں ساری رات گزارنے کا فیصلہ کیا ہم نے ساری رات اس لڑکی کے لیے دعائیں کیں بس ہم اس کے لیے کچی پکی دعائیں کرتے رہے ۔ صبح میں نے اپنی بیوی سے چلتے ہوئے کہا جب تک پنجاب کا دوپٹہ شاہ عباللطیف بھٹائی کے کنڈے سے بندھا ہے ۔ پنجاب اور سندھ میں کسی قسم کا کریک نہیں آ سکتا ۔
اشفاق احمد زاویہ 2 پنجاب کا دوپٹہ صفحہ 9،10