خوشبو
آج پھر وہ اپن اس کے سامنے قدرتی حسن کے ساتھ کھڑی تھی اس کے قدرتی حسن سے اس کی آنکھیں چمک اٹھیں تھیں اور اس کے بال اس کے شانوں سے ہوتے ہوئے اس کی کمر کی پتلی بل کھاتی لکیر کو چھپا رہے تھے او ر بالوں کی لٹیں کچھ جھوم کر اس کے کندھوں سے کھیلتی ہوئی
گلابی نارنگیوں کو چھپا رہیں تھیں وہ اس کے اس قدرتی حسن میں ایسا کھویا ہوا تھا کہ اس کو کچھ ہوش نہیں تھا اور ایک کھنکھناتی ہنسی نے سکوت کو توڑا بولی : کہاں کھوگئے ہو: اس نے اپنی آنکھیں بوجھل کرتے ہوئے پھر بولی" اس حسن کو پیو گے نہیں " وہ اس کو حیرت کدہ سے دیکھ رہا تھا