محبت پرندوں کو دانہ ڈالتی ایک چھوٹی لڑکی ہے زندگی نام کا ایک خوشرنگ پرندہ جس کے پاس تھوڑی دیر کو ٹھہر گیا ہے۔ پرندہ جو کچھ امید اور ایک بہت بڑی بے یقینی کے ساتھ اسکے گرد چکر لگاتا ہے۔ چند قدم پھدکتے ہوئے دانوںکے قریب آتا ہے اور لڑکی کی ذرا سی جنبش پہ وحشت بھری بے مروتی سے پر پھڑپھڑاتا دور چلا جاتا ہے۔ پھر واپس آتا ہے اور پھر چلا جاتا ہے۔
امید اور بے یقینی کا یہ کھیل وہ تب تک کھیلتا ہے جب تک لڑکی کے ہاتھوں میں ایک بھی دانہ باقی ہے۔ دانے ختم ہونے پر وہ الوداعی نظر ڈالے بنا اوپر آسمانوں کو اڑ جاتا ہے کچھ ایسے کہ اسکے دل میں شکر گذاری تلک نہیں ہوتی۔
پرندے کو آزادی کا جنوں ہے۔وہ ایسی رفعتوں کا باسی ہے جہاں سے وہ لڑکی تو کیا پورا شہر ہی اتنا چھوٹا نظر آتا ہے جس کے بارے میں سوچنا بھی اسے کارِ زیاں لگتا ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ یہ لڑکی کے پھینکے انہی دانوں کی طاقت ہے جو اسے یہاں اڑائے پھرتی ہے ورنہ تو وہ پیٹ کے بل زمین پر رینگتا ہوتا۔
لڑکی کو پرندے کی بے مروتی پر کبھی افسوس نہیں ہوتا۔ اسکے گھر کی پرچھتی کے نیچے ایسے ایسے مضبوط پنجرے اور دھوکے سے بھرے جال رکھے ہیں کہ کوئی بھی پرندہ جن کے سایوں میں آزادی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انہیں کبھی نہیں نکالتی۔ وہ بس انتظار کرتی ہے۔ اِک اگلی صبح کا جب بھو ک کی رسی سے بندھا وہ پرندہ پھر سے اس کی منڈیر پر آئے گا اور اپنی دلفریب آواز میں اسے ان رفعتوں اور انجانی دنیاﺅں کے گیت سنائے گا جہاں وہ گئے دن گھومتا رہا تھا۔
امید اور بے یقینی کا یہ کھیل وہ تب تک کھیلتا ہے جب تک لڑکی کے ہاتھوں میں ایک بھی دانہ باقی ہے۔ دانے ختم ہونے پر وہ الوداعی نظر ڈالے بنا اوپر آسمانوں کو اڑ جاتا ہے کچھ ایسے کہ اسکے دل میں شکر گذاری تلک نہیں ہوتی۔
پرندے کو آزادی کا جنوں ہے۔وہ ایسی رفعتوں کا باسی ہے جہاں سے وہ لڑکی تو کیا پورا شہر ہی اتنا چھوٹا نظر آتا ہے جس کے بارے میں سوچنا بھی اسے کارِ زیاں لگتا ہے۔ اسے کون سمجھائے کہ یہ لڑکی کے پھینکے انہی دانوں کی طاقت ہے جو اسے یہاں اڑائے پھرتی ہے ورنہ تو وہ پیٹ کے بل زمین پر رینگتا ہوتا۔
لڑکی کو پرندے کی بے مروتی پر کبھی افسوس نہیں ہوتا۔ اسکے گھر کی پرچھتی کے نیچے ایسے ایسے مضبوط پنجرے اور دھوکے سے بھرے جال رکھے ہیں کہ کوئی بھی پرندہ جن کے سایوں میں آزادی کا خواب بھی نہیں دیکھ سکتا پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انہیں کبھی نہیں نکالتی۔ وہ بس انتظار کرتی ہے۔ اِک اگلی صبح کا جب بھو ک کی رسی سے بندھا وہ پرندہ پھر سے اس کی منڈیر پر آئے گا اور اپنی دلفریب آواز میں اسے ان رفعتوں اور انجانی دنیاﺅں کے گیت سنائے گا جہاں وہ گئے دن گھومتا رہا تھا۔