ایک دفع کا ذکر ہے
ایک دفع کا ذکر ہے' تاہم باور رہے اس دفع کا تعلق زمانہ قبل از مسیح سے نہیں' یہی کوئی چار چھے ماہ پہلے کی بات ہے۔ میں حکیم صاحب سے شفائی پڑیاں لے کر' سڑک کے بالکل نکرے لگا واپس گھر آ رہا تھا۔
اگرچہ گھر والوں کو' عمر رسیدگی کے سبب میری خاص یا عام ضرورت نہ تھی' اس کے باوجود رواجا اور عادت کے ہاتھوں مجبور' آ رہا تھا۔ نہ آتا تب برا آتا تب سیاپا۔ جو بھی سہی' ایک مدت سے گھر میرا آنا جانا تھا۔ یا یوں سمجھ لیں' گھر آنا
میری فطرت ثانیہ بن چکی تھی۔ فطرت ثانیہ کو' عادت سے مجبور بھی کہا جاتا ہے۔
ہر کوئی خوب خوب جانتا ہے' سگریٹ انتہائی خطرناک ہے' اس کے باوجود پیتا ہے۔ اپنی اصل میں' یہ ہی فطرت ثانیہ یا عادت سے مجبوری ہے۔ ہر مرتشی جانتا ہے' کہ رشوت خور کو جہنم جانے کی خوش خبری دی گئی ہے۔ یہ محض ڈراوا نہیں پتھر پر لکیر ہے۔ بےشک لکیر ضعف کا ہی سبب نہیں بنتی' بزتی بدنامی سے بھی دو چار کرتی ہے اور ہر چند تعداد میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ سماج میں ابا سے' ماما یعنی ماموں کے عرفی نام سے' اپنی جان پہچان حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ شرمندگی سے زیادہ' اس کار دراز میں فخر محسوس کرکے' غیر متعلق لکیر کی فقیری میں' بڑی دل جمعی اور جان فشانی سے' عمر تمام کر دیتا ہے۔ اسی میں کامیابی اور کامرانی تصور کرتا ہے۔
ابھی گھر سے تھوڑا دور ہی تھا کہ پیچھے سے ایک کھوتی ریڑھی والا' بڑی تیزی سے آیا۔ شاید اس کے پیچھے ہلکا کتا یا پولیس پیچھے لگی ہوئی تھی۔ اس کی جلدیوں سے صاف ظاہر ہو رہا تھا کہ ایمرجنسی کا مریض تھا۔ کچھ معاملات واقعتا ایمرجنسی میں داخل ہوتے ہیں' کچھ یوں بلاتکلف بنا لیے گیے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات' ایمرجنسی کی عادت یوں ہی ترکیب پا گئی ہوتی ہے۔ اگر اسے ہولناک قسم کی ایمرجنسی ہوتی' تو اپنی بےسری آواز میں اکرم راہی کا گانا نہ گا رہا ہوتا۔ مجھے بےسری شاید اس لیے لگی کہ بلاساز تھی۔
خیر جو بھی سہی' اس دفع کا ذکر ہے کہ محتاط روی اختیار کرنے اور نکرے نکرے چلنے کے باوجود' اس نے کھوتی پر تو قابو رکھا' لیکن ریڑھی بےمہار ہونے کے باعث' بڑے کرارے بدذوق انداز میں آ لگی اور میں منہ کے بل وہ جا گرا۔ مجھے انسانی ہمدردی اور صلحہء رحمی کے ناتے ریڑھی سے نیچھے قدم رنجہ فرما کر' اٹھانے کی بجائے' یہ کہہ کر بابا ویکھ کے چل' چلتا بنا۔
اس بار کے ذکر میں اصل حیرت کی بات یہ تھی کہ اسے روکنے کی بجائے اکرم راہی کے سر میں کہے گیے باوزن جملے
بابا ویکھ کے چل
پر لوگ کھل کھلا کر ہنس پڑے۔ میں ان کی پیروی میں' زہے نصیب ہنس تو نہ سکا' البتہ بےہوش سا ضرور ہو گیا۔ مجھ پر اس جملہ نما مصرعے پر بےہوشی کے ساتھ 'چوٹ بھی آئی اور درد بھی اٹھ رہا تھا۔ اس کے بعد کا ذکر ہے' کہ کئی دن بستر لگا رہا۔ خرچہ اٹھا اور حضرت زوجہ ماجدہ کی بڑبڑ اور کڑ کڑ بھی سنتا رہا۔
اول آلذکر اور آخرالذکر کوئی نئی چیز نہ تھے۔ یہ دونوں معمول میں داخل تھے۔ آخرالذکر تو میری زندگی میں ہمزاد کی طرح داخل رہے ہیں۔ عزت بچانے اور جان کی امان پانے کے لیے' بیگمی بڑبڑ اور گرجن برسن بہرطور ضروری تھا۔ ضمنا اس سے' تھوڑا پہلے کا ذکر ہے کہ اچانک میرے سینے میں شدت کا درد اٹھا' میں نے بصد احترام اپنی اوپر والی زوجہ ماجدہ کو آواز دی
زکراں۔۔۔۔۔ زکراں۔۔۔۔۔۔زکراں
کافی دیر بعد سہی' بڑی مہربانی فرماتے ہوئے تشریف و غضب لے کر آ گئی۔
گھورتی نظروں کے ساتھ پوچھا: کیا ہے' کیوں چیخ و پکار رہے ہو۔
سراپا احترام میں غرق آواز کو چیخ و پکار کا نام دے رہی تھی۔
خیر میں نے منمناتے ہوئے کہا: سینے میں سخت درد اٹھ رہا ہے' لگتا ہے جا ہوں۔
بس اتنی سی بات پر آوازیں دے رہے تھے۔ میں گھبرا گئی تھی' پتا نہیں کیا ہو گیا ہے۔
میرا خیال تھا کہ کہے گی'
ہائے میں مر گئی' جائیں آپ کے دشمن۔
بہرکیف تکلیف اپنی جگہ میری خوش فہمی کرچی کرچی ہو گئی۔
پہلے دفع کے ذکر میں ثانی الذکر کا تذکرہ باقی ہے۔ تکلیفیں تو زندگی میں آتی جاتی رہتی ہیں۔ لکشمی ایک بار ہاتھ سے نکل جائے' تو پھر دوسری بار بڑے نصیب محنت' مشقت اور گراں قدر ہیرا پھیری سے ہاتھ لگتی ہے۔ مجھے افسوس ہے کہ حضرت بےغم صاحبہ کو' میری ہی جھڑی ہوئی ناچیز رقم' میرے علاج معالجے پر خرچ کرنا پڑی۔ تاہم اس بار اس کی توپ کا دھانہ میری طرف ہی نہ رہا۔ کھوتی ریڑھی والے کا اٹھتی بیٹھتی خصوصا' دوا دارو کے حوالہ سے جھڑتی ناصرف بےحجاب گالیاں بکتی بلکہ بدعائیں بھی دیتی۔ اس پر مجھے رائی بھر افسوس نہ ہوتا۔ پتا نہیں بدعاؤں کے نتیجہ میں اس کا کچھ ہوا یا نہیں' میں اس کی خبر نہیں رکھتا۔ ہاں جب ڈاکٹر کو جھڑنے کے ردعمل میں گالیاں بکتی یا بد دعائیں دیتی تو مجھے بہت برا لگتا۔ ان کا رویہ قصابی سہی ' پھر بھی غیرفطری انداز میں کسی حد تک گراں وصولی کے ساتھ مریضوں کے کام تو آتے ہیں۔
میرے' سب کے الله کا ہر کرنا پرحکمت' پرعدل' برحق' برموقع' ہر قسم کی کجی خامی سے بالاتر' بے مشاورت' بلا تعاون اور آلودگی و آلائش سے پاک ہوتا ہے۔
اس اٹل حقیقت کے باوجود' میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ الله نے گریب اور کم زور طبقے کو' پیچھے دیکھنے کی شکتی کیوں عطا نہیں فرمائی۔
مقتدرہ اور ان کے دور نزدیک کےگمشتگان کو' اس کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ پیچھے پیچھے چلتے' بڑی باریک بینی سے دیکھنے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔ خیر ان کے آگے چلنے والے لاٹھی بردار' لوگوں کو پیچھے دیکھ کر چلنے کی دعوت دیتے آئے ہیں۔ دائیں بائیں چلنے والے' ان کے قریب نہ جانے کی' باذریعہ لاٹھی' دعوت دیتے آ رہے ہیں۔ آج یہ رویہ کچھ نیا نہیں ہمیشہ کا ہے۔ جب بادشاہ کی بگی گزرتی' لاٹھ بردار دائیں بائیں اورسٹرک پر چلنے والوں کے خوب پاسے سیکتے۔ یہ کھلا درس ہوتا' کہ شاہ اور اس کے دور نزدیک کے جھولی چھولی چکوں کے قریب جانے سے پرہیز رکھو۔
اس کھلی وراننگ اور الڑٹ کے باوجود' لوگ بڑے بےاثرے اور ڈھیٹ رہے ہیں۔ ان کی مثل ایسی رہی ہے۔
پلے نئیں دھیلا کر دی پھرے میلہ میلہ
جب جیب خالی ہے' تو پرائیویٹ ڈاکٹروں اور سرکاری ہسپتالوں میں کیا لینے جاتے ہو۔ 'موت کا ایک دن معین ہے' سب جانتے ہیں' اس کے باوجود پرخراٹا نیند سوتے ہیں اور صبح اٹھ کر' یا بےایمانی تیرا آسرا' کہہ کر کام پر روانہ ہو جاتے ہیں۔ بیمار کو' زندگی میں پہلی بار' بیماری نہیں ہوتی' جو فکرمندی سے کام لیا جائے۔ سانیس باقی ہوئیں تو اسے کچھ نہیں ہو گا۔ اتنے تردد کی ضرورت کیا ہے۔ دوسرا ڈاکٹر فیس رکھوائی اور ٹسٹ لکھائی کے سوا' جانتے ہی کیا ہیں۔ اس سے تین فائدے ہوں گے۔
فضول خرچی نہ ہو سکے گی اور وہی رقم' گھر کے کسی دوسرے رفاعی کام میں' صرف ہو سکے گی۔
جب مریض مرے گا' دیکھا جائے گا' کامے تسلی سے' اپنے اپنے کام پر جا سکیں گے۔
مریض گھر پر' بڑی تسلی سے' اپنی آئی پر' اپنے بستر پر دم توڑے گا.
شاہ اپنی عیش کوشی اور تاج محل سازی کے لیے' بےمعنی اور بےمعنی ٹیکس وصول کرتے ہیں' تو واپڈا' ٹیلی فون' اکاؤنٹ آفس' نادرہ والے وغیرہ کس حساب میں' مفتوں کے کیوں کام کریں۔ اعلی شکشا منشی اور اس سے متعلق وصولی گاہوں نے' کمال کی انھی مچا رکھی ہے۔ کوئی کام ہو یا کسی حق کی وصولی کا معاملہ ہو'تو صبر شکر سے کام لیں۔ آخر یہ صبر شکر ہوتے کس لیے ہیں۔ میں بھی ایسی حماقتیں کرتا رہا ہوں۔ مجھے ناکامی نامرادی اور خطرناک چپ کے سوا' کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ اپنے ایم فل کے الاؤنس کے لیے 1997 سے درخواست بازی کرتا آ رہا ہوں۔ جواب میں خوفناک چپ کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگا۔ اب میں نے بھی غصہ میں آ کر' پکی پکی چپ وٹ لی ہے۔ نئیں تے ناسہی۔
انھیں اپنے موجود یا سابقہ کارکنوں کی پرواہ نہیں' تو میں ان کے کیوں قدم لیتا رہوں۔ ایک سوچ یہ بھی آتی ہے' کہ بار بار ان کے بیش بہا جوتے چھونے سے' گربت' عسرت' بےچارگی' بےبسی اور میں میں' کی آلودگی منتقل تو ہو گی ہی۔ بےشک یہ معاملہ سوچن ایبل ہے۔
ایک دفع کے ذکر کے حوالہ سے' ایک بات ذہن میں آتی ہے' اگر مقتدرہ طبقہ حکم جاری کر دے' کہ ہر چھوٹی بڑی گاڑی خصوصا ریڑھی والے' چار نہیں تو دو ملازم رکھے' جو آگے آگے چل کر لوگوں کو پیچھے کے احوال سے آگاہ کرتے جائیں۔ اس سے' ان کے ایک طبقہ کی مٹھی گرم ہوتی رہے گی۔ بےروزگاروں کو روزگار مل جائے گا۔ بےگناہ' کوسنوں اور بےنکاحی گالیوں سے بچ جائیں گے۔