گرمی کی سخت پیاس میں ٹھنڈک کا دلبریں احساس
فصل ربیع کا تیسرا مہینہ مئی ہے چونکہ اس ماہ سے ہمارے ملک (پاکستان) میں خاصی گرمی شروع ہوجاتی ہے۔ موسم سرما کے اثرات مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں اس لیے ہوا میں نمی کم ہوکر حرارت تیز تر ہونے لگتی ہے جس کی بنا پر ہوا کا بھاری پن ختم ہوجاتا ہے اور ہوا گرم ہوکر بالائی فضاء میں چلی جاتی ہے اور اس خلا کو پر کرنے کیلئے ٹھنڈی ہوا آجاتی ہے۔ ہوا کے اس مسلسل چکر کے باعث ہوا کی کثافتیں کم ہوکر ہمیں صاف ہوا ملنے لگتی ہے۔
سورج اور دھوپ کی شدید حرارت کے باعث فضا گرم ہوجاتی ہے جس سے انسانی اجسام بھی متاثر ہوتے ہیں اور نہ صرف بدن کی بیرونی جلد کا ہی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی ایک آدھ فارن ہیٹ زیادہ ہوجاتا ہے۔ حرارت کے باعث رطوبات بدن کم ہوکر پیاس میں شدت آجاتی ہے اور چونکہ نمک رطوبتوں کو اکٹھا کرکے اخراج کا باعث بنتا ہے اس لیے اس موسم میں زیادہ نمکین چیزیں کھانے سےپرہیز واجب ہے۔
اسی طرح زیادہ حرارت کی وجہ سے معدہ کمزور ہوجاتا ہے اور سری‘ گائے کا گوشت وغیرہ انتہائی ثقیل غذاؤں کو خاطر خواہ ہضم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ گائے اور بکری کا دودھ اس موسم میں بنسبت بھینس کے دودھ کے اجزاء ترکیبی اور تاثیر کے لحاظ سے زیادہ فائدہ مند سمجھا گیا ہے۔
جہاں تک ورزش کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں حرکت سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور جبکہ گرم موسم کے باعث پہلے ہی بدن متاثر ہورہا ہو تو اسے مزید متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ مگر طلوع آفتاب سے قبل اگر معمولی قسم کی ورزش کر بھی لی جائے تو زیادہ نقصان دہ نہیں۔ ہمارے ملکی حالات کے اس موسم میں دن میں دو یا تین بار غسل کرنا بھی بیحد مفید ہے تاکہ پسینہ کی بدبو اور میل کچیل صاف ہوکر جلد کے مسامات کھل جائیں۔
اس ماہ میں صبح کی ابتداء چائے کی بجائے کسی ٹھنڈے مشروب سے کرنی چاہیے جیسے شربت صندل‘ شربت کیوڑہ‘ شربت بزوری یا بادام سے تیار شدہ سردائی وغیرہ۔ ناشتہ میں مچھلی‘ گوشت اور انڈوں کی بجائے دودھ‘ دہی‘ مکھن اور لسی زیادہ مفید ہے۔اسی طرح دوپہر اور رات کے کھانوں میں سبز پتوں والی سبزیاں اور دالیں زیادہ استعمال کریں۔ کھانے کےہمراہ انار دانہ‘ پودینہ یا دھنیا کی چٹنی‘ پیاز اور سلاد بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ سوڈا واٹر‘ چائے‘ کافی‘ قہوہ وغیرہ سے حتی الوسع پرہیز کریں تو آپ کی صحت کیلئےزیادہ بہتر ہوگا۔
دھوپ میں زیادہ دیر ٹھہرنے‘ کام کرنےیا سفر کرنے میں احتیاط رکھیں۔ ضرورت کے وقت سر پر چھجے دار تنوں کی بنی ہوئی ٹوپی استعمال کریں تاکہ سورج کی شعاعیں براہ راست ننگے سر یا گردن پر نہ پڑیں۔ ورنہ سردرد‘ بخار‘ نزلہ زکام‘ آشوب چشم‘ سوء مزاج حار اور گردن توڑ جیسی بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے۔ باہر سے آکر فوراً بجلی کے پنکھے نیچےیا ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھنا مضرصحت ہے۔
اس ماہ میں لباس عام سوتی کپڑے کا پہنیں تاکہ بدن تک سورج کی شعاعیں پہنچنے میں مناسب رکاوٹ رہے۔ ویسے بھی اس قسم کے لباس میں آکر جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ بالکل باریک ململ یا وائل کے کپڑے نقصان دہ ہوتے ہیں اور ریشمی کپڑے پہننا تو اپنےجسم پر ظلم کرنا ہے۔
رات کھلی ہوا میں پلنگ پر مچھر دانی لگا کر سوئیں تاکہ مچھروں سے محفوظ رہ سکیں ورنہ ملیریا بخار کا خطرہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس مچھر دانی نہ ہو بدن کے کھلے حصوں پر مچھر مار کریم یا سرسوں کے تیل کی مالش کرکے سوئیں۔
موسم گرما اور مشروبات
مشروبات کو موسم کی مطابقت کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں پسینہ کا زیادہ آنا انسانی جسم میں پانی کی کمی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا موسم گرما میں پانی کا زیادہ استعمال صحت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ گرمیوں کے مشروبات میں مندرجہ ذیل خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔ جسم میں پانی کو قدرے دیر تک ٹھہرائے رکھے۔ 2۔ تیزابیت کو کم کرے۔ 3۔ پیشاب آور ہو کہ جسم میں جمع فالتو نمکیات کا اخراج ممکن ہوسکے۔ 4۔ ٹانک خصوصیات کا حامل ہو۔ 5۔ بلڈپریشر کم کرے۔6۔ پیاس کی قدرتی خواہش پر اثرانداز نہ ہو۔ 7۔ نمکیات کسی حد تک موجود ہوں۔ قدیم زمانہ سے اس خطہ میں چند ایک مشروبات بہت مشہور ہیں اور ان میں اوپر بیان کردہ خصوصیت موجود ہیں۔
1۔ پکی لسی۔ 2۔کچی لسی۔ 3۔شربت بزوری۔ 4۔شربت صندل۔ 5۔گنے کا رس۔ 6۔ لیموں کی سکنجبین۔ 7۔صندل پر مبنی دوسرے مشروبات (جو مقامی کمپنیاں بناتی ہیں۔)
8۔ سردائی (خشخاش‘ مغز کھیرہ‘ کالی مرچ‘ سونف)
9۔ کاہو‘ کدو‘ کاسنی کھیرہ کے بیج کی سردائی۔
جہاں تک پکی لسی اور کچی لسی کا تعلق اس کو اپنی پسند کے مطابق نمک یا چینی ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پیشاب آور خصوصیات کی وجہ سے مثانہ اور معدہ کی گرمی کو ختم کرتی ہیں۔ کیلشیم کی موجودگی بلڈپریشر کو نارمل رکھتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ قدرتی اجزاء مبنی پیشاب آور مشروبات انسانی جسم کے اندر کے نمکیات کے توازن کو خراب نہیں کرتے جبکہ مصنوعی مرکبات اس توازن کو خراب کردیتے ہیں اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
شربت بزوری اور صندل قدرتی جڑی بوٹیوںکے جوشاندے سے تیار کیے گئے مشروبات ہیں اور اس کی افادیت سے تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ یہ دونوں مشروبات ایک طرف بلڈپریشر کو کم کرتے ہیں پانی کو جسم کے اندر قدرے زیادہ دیر تک ٹھہرائے رکھتے ہیں‘ پیاس کی شدت کو کم کرتے ہیں پیشاب آور ہیں اور قدرتی پیاس کے رجحان کو متاثر نہیں کرتے۔ معدہ‘ مثانہ کی گرمی کو ختم کرتے ہیں جسم کے اندرونی درجہ حرارت کو نارمل رکھتے ہیں۔ دل کی دھڑکن کو نارمل رکھتے ہیں اور انسانی جسم کو لو لگنے سے بچاتے ہیں۔
چینی کی موجودگی انسانی جسم کو غذائیت مہیا کرتی ہے۔ گنے کے رس میں پوٹاشیم کی موجودگی اس کو قدرتی طور پرکم کرتی ہے اور جلد سے جلد جزوبدن بن جاتی ہے۔ پیاس کی شدت کو ختم کرتی ہے۔ قدرتی پیاس کے رجحان کو قائم رکھتی ہے۔ سردائی وغیرہ ان اجزاء پر مبنی ہوتی ہے جن میں سردو تر مزاج ہوتا ہے اور جسم کے درجہ حرارت کو زیادہ نہیں ہونے دیتی‘ پیشاب آور ہوتی ہیں‘ اعصاب اور عضلات کو سکون دیتی ہیں۔ خصوصیات کے لحاظ سے مسکن ہوتی ہے۔ بلڈپریشر کو کم کرتی ہے۔ دل کی دھڑکن کو تیز ہونے سے روکتی ہے۔نبض کو نارمل رکھتی ہے۔
source---ubqari
فصل ربیع کا تیسرا مہینہ مئی ہے چونکہ اس ماہ سے ہمارے ملک (پاکستان) میں خاصی گرمی شروع ہوجاتی ہے۔ موسم سرما کے اثرات مکمل طور پر ختم ہوجاتے ہیں اس لیے ہوا میں نمی کم ہوکر حرارت تیز تر ہونے لگتی ہے جس کی بنا پر ہوا کا بھاری پن ختم ہوجاتا ہے اور ہوا گرم ہوکر بالائی فضاء میں چلی جاتی ہے اور اس خلا کو پر کرنے کیلئے ٹھنڈی ہوا آجاتی ہے۔ ہوا کے اس مسلسل چکر کے باعث ہوا کی کثافتیں کم ہوکر ہمیں صاف ہوا ملنے لگتی ہے۔
سورج اور دھوپ کی شدید حرارت کے باعث فضا گرم ہوجاتی ہے جس سے انسانی اجسام بھی متاثر ہوتے ہیں اور نہ صرف بدن کی بیرونی جلد کا ہی درجہ حرارت بڑھ جاتا ہے بلکہ اندرونی طور پر بھی ایک آدھ فارن ہیٹ زیادہ ہوجاتا ہے۔ حرارت کے باعث رطوبات بدن کم ہوکر پیاس میں شدت آجاتی ہے اور چونکہ نمک رطوبتوں کو اکٹھا کرکے اخراج کا باعث بنتا ہے اس لیے اس موسم میں زیادہ نمکین چیزیں کھانے سےپرہیز واجب ہے۔
اسی طرح زیادہ حرارت کی وجہ سے معدہ کمزور ہوجاتا ہے اور سری‘ گائے کا گوشت وغیرہ انتہائی ثقیل غذاؤں کو خاطر خواہ ہضم کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا‘ گائے اور بکری کا دودھ اس موسم میں بنسبت بھینس کے دودھ کے اجزاء ترکیبی اور تاثیر کے لحاظ سے زیادہ فائدہ مند سمجھا گیا ہے۔
جہاں تک ورزش کا تعلق ہے آپ جانتے ہیں حرکت سے حرارت پیدا ہوتی ہے اور جبکہ گرم موسم کے باعث پہلے ہی بدن متاثر ہورہا ہو تو اسے مزید متاثر کرنے کا سبب بنتی ہے۔ مگر طلوع آفتاب سے قبل اگر معمولی قسم کی ورزش کر بھی لی جائے تو زیادہ نقصان دہ نہیں۔ ہمارے ملکی حالات کے اس موسم میں دن میں دو یا تین بار غسل کرنا بھی بیحد مفید ہے تاکہ پسینہ کی بدبو اور میل کچیل صاف ہوکر جلد کے مسامات کھل جائیں۔
اس ماہ میں صبح کی ابتداء چائے کی بجائے کسی ٹھنڈے مشروب سے کرنی چاہیے جیسے شربت صندل‘ شربت کیوڑہ‘ شربت بزوری یا بادام سے تیار شدہ سردائی وغیرہ۔ ناشتہ میں مچھلی‘ گوشت اور انڈوں کی بجائے دودھ‘ دہی‘ مکھن اور لسی زیادہ مفید ہے۔اسی طرح دوپہر اور رات کے کھانوں میں سبز پتوں والی سبزیاں اور دالیں زیادہ استعمال کریں۔ کھانے کےہمراہ انار دانہ‘ پودینہ یا دھنیا کی چٹنی‘ پیاز اور سلاد بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ سوڈا واٹر‘ چائے‘ کافی‘ قہوہ وغیرہ سے حتی الوسع پرہیز کریں تو آپ کی صحت کیلئےزیادہ بہتر ہوگا۔
دھوپ میں زیادہ دیر ٹھہرنے‘ کام کرنےیا سفر کرنے میں احتیاط رکھیں۔ ضرورت کے وقت سر پر چھجے دار تنوں کی بنی ہوئی ٹوپی استعمال کریں تاکہ سورج کی شعاعیں براہ راست ننگے سر یا گردن پر نہ پڑیں۔ ورنہ سردرد‘ بخار‘ نزلہ زکام‘ آشوب چشم‘ سوء مزاج حار اور گردن توڑ جیسی بیماری کا حملہ ہوسکتا ہے۔ باہر سے آکر فوراً بجلی کے پنکھے نیچےیا ایئرکنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھنا مضرصحت ہے۔
اس ماہ میں لباس عام سوتی کپڑے کا پہنیں تاکہ بدن تک سورج کی شعاعیں پہنچنے میں مناسب رکاوٹ رہے۔ ویسے بھی اس قسم کے لباس میں آکر جسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ بالکل باریک ململ یا وائل کے کپڑے نقصان دہ ہوتے ہیں اور ریشمی کپڑے پہننا تو اپنےجسم پر ظلم کرنا ہے۔
رات کھلی ہوا میں پلنگ پر مچھر دانی لگا کر سوئیں تاکہ مچھروں سے محفوظ رہ سکیں ورنہ ملیریا بخار کا خطرہ ہے۔ جن لوگوں کے پاس مچھر دانی نہ ہو بدن کے کھلے حصوں پر مچھر مار کریم یا سرسوں کے تیل کی مالش کرکے سوئیں۔
موسم گرما اور مشروبات
مشروبات کو موسم کی مطابقت کے ساتھ استعمال نہ کیا جائے تو انسانی صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ گرمیوں کے موسم میں پسینہ کا زیادہ آنا انسانی جسم میں پانی کی کمی پیدا کرسکتا ہے۔ لہٰذا موسم گرما میں پانی کا زیادہ استعمال صحت کو قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ گرمیوں کے مشروبات میں مندرجہ ذیل خوبیوں کا ہونا ضروری ہے۔
1۔ جسم میں پانی کو قدرے دیر تک ٹھہرائے رکھے۔ 2۔ تیزابیت کو کم کرے۔ 3۔ پیشاب آور ہو کہ جسم میں جمع فالتو نمکیات کا اخراج ممکن ہوسکے۔ 4۔ ٹانک خصوصیات کا حامل ہو۔ 5۔ بلڈپریشر کم کرے۔6۔ پیاس کی قدرتی خواہش پر اثرانداز نہ ہو۔ 7۔ نمکیات کسی حد تک موجود ہوں۔ قدیم زمانہ سے اس خطہ میں چند ایک مشروبات بہت مشہور ہیں اور ان میں اوپر بیان کردہ خصوصیت موجود ہیں۔
1۔ پکی لسی۔ 2۔کچی لسی۔ 3۔شربت بزوری۔ 4۔شربت صندل۔ 5۔گنے کا رس۔ 6۔ لیموں کی سکنجبین۔ 7۔صندل پر مبنی دوسرے مشروبات (جو مقامی کمپنیاں بناتی ہیں۔)
8۔ سردائی (خشخاش‘ مغز کھیرہ‘ کالی مرچ‘ سونف)
9۔ کاہو‘ کدو‘ کاسنی کھیرہ کے بیج کی سردائی۔
جہاں تک پکی لسی اور کچی لسی کا تعلق اس کو اپنی پسند کے مطابق نمک یا چینی ملا کر استعمال کرتے ہیں۔ اپنی پیشاب آور خصوصیات کی وجہ سے مثانہ اور معدہ کی گرمی کو ختم کرتی ہیں۔ کیلشیم کی موجودگی بلڈپریشر کو نارمل رکھتی ہے۔ یہ خیال رہے کہ قدرتی اجزاء مبنی پیشاب آور مشروبات انسانی جسم کے اندر کے نمکیات کے توازن کو خراب نہیں کرتے جبکہ مصنوعی مرکبات اس توازن کو خراب کردیتے ہیں اور انسان مختلف بیماریوں کا شکار ہوجاتا ہے۔
شربت بزوری اور صندل قدرتی جڑی بوٹیوںکے جوشاندے سے تیار کیے گئے مشروبات ہیں اور اس کی افادیت سے تقریباً ہر شخص واقف ہے۔ یہ دونوں مشروبات ایک طرف بلڈپریشر کو کم کرتے ہیں پانی کو جسم کے اندر قدرے زیادہ دیر تک ٹھہرائے رکھتے ہیں‘ پیاس کی شدت کو کم کرتے ہیں پیشاب آور ہیں اور قدرتی پیاس کے رجحان کو متاثر نہیں کرتے۔ معدہ‘ مثانہ کی گرمی کو ختم کرتے ہیں جسم کے اندرونی درجہ حرارت کو نارمل رکھتے ہیں۔ دل کی دھڑکن کو نارمل رکھتے ہیں اور انسانی جسم کو لو لگنے سے بچاتے ہیں۔
چینی کی موجودگی انسانی جسم کو غذائیت مہیا کرتی ہے۔ گنے کے رس میں پوٹاشیم کی موجودگی اس کو قدرتی طور پرکم کرتی ہے اور جلد سے جلد جزوبدن بن جاتی ہے۔ پیاس کی شدت کو ختم کرتی ہے۔ قدرتی پیاس کے رجحان کو قائم رکھتی ہے۔ سردائی وغیرہ ان اجزاء پر مبنی ہوتی ہے جن میں سردو تر مزاج ہوتا ہے اور جسم کے درجہ حرارت کو زیادہ نہیں ہونے دیتی‘ پیشاب آور ہوتی ہیں‘ اعصاب اور عضلات کو سکون دیتی ہیں۔ خصوصیات کے لحاظ سے مسکن ہوتی ہے۔ بلڈپریشر کو کم کرتی ہے۔ دل کی دھڑکن کو تیز ہونے سے روکتی ہے۔نبض کو نارمل رکھتی ہے۔
source---ubqari