Originally posted by saraah
View Post
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
غصہ اور برداشت
Collapse
X
-
Originally posted by aabi2cool View Postغصہ کیا ہے ؟
اسکا جواب یہ ہے کہ غصہ اور جارحیت انسان کا ایک فطری جذبہ ہے جو اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اسے کسی مقصد کے حصول میں رکاوٹ پیش آئے ہو یا اپنی خواہش اور رضا مندی سے وہ جو کچھ کرنا چاہے اور نہ کر سکے۔ غصہ
چونکہ انسانی فطرت کا حصہ ہے اس لیے یہ ایک غیر اختیاری فعل ہے اس لیے غصے کا آجانا انسان کہ بس میں نہیں لیکن اس کو کنٹرول میں کرنا ضرور انسانی بس میں ہے ۔اب چونکہ یہ انسانی فطرت کا تقاضا ہے لہزا مطلقا کسی بھی ذات میں غصہ کا پایا جانا بُرا نہیں بلکہ بُرا یہ ہے کہ کوئی بھی شخص غصہ میں آجانے کہ بعد اس پر قابو نہ رکھ سکے اور بے جا غصہ کرنا شروع کردے اور اسطرح کرنا انتہائی قبیح فعل ہے۔ اور اسی طرح بالکل اس کہ برعکس وہ مقامات کہ جہاں ایک اور انسانی فطرت یعنی غیرت کا تقاضا ہو وہاں پر غصہ کیا جائے مگر کوئی انسان اگر وہاں پر غصہ نہ کرے تو یہ بھی ایک بیماری ہے ۔ غصہ اور غیرت دونوں انسانی فطرت کا حصہ ہیں لہذا جس طرح بے جا اور ہر وقت کا غصہ بجا نہیں بالکل اسی طرح بجا طور پر اور جائز غصہ اور غیرت کا اظہار نہ کرنا بھی صحت کی نہیں بلکہ بیماری کی علامت ہے البتہ غصہ اور غیرت کے اظہار میں اخلاقیات اور قانون کے دائرے کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔ اب آتے ہیں اس سوال کی طرف کہ .....
غصہ کیوں آتا ہے ؟
تو اسکا جواب یہ ہے کہ چونکہ یہ انسانی فطرت کا حصہ ہے لہزا جب جب انسان ایسے حالات سے گزرتا ہے کہ جن کی وجہ سے انسانی فطرت غصہ کی طرف مائل ہو تو انسان کو غصہ آہی جاتا ہے بنیادی طور پر ہر انسان میں غصہ کا ایلیمنٹ جدا جدا ہے کسی کو بہت جلد غصہ آجاتا ہے اور کسی کو بدیر کسی جلد آتا ہے دیر سے جاتا ہے اور کسی کو دیر سے آتا ہے اور جلدی جاتا ہے غصہ کا تعلق جنس سے بھی ہے اسی لیے مردوں کو خواتین کی بنسبت زیادہ غصہ آتا ہے غصہ کا تعلق عمر سے بھی اسی لیے بوڑھوں کہ مقابلے میں نوجوانوں کو زیادہ غصہ آتا ہے ۔
اور غصہ کا تعلق انسانی شعور سے بھی ہے اسی لیے آپ نے دیکھا ہوگا کہ ایک عام دیہاتی کہ مقابلے میں زیادہ پڑھے لکھے اور باشعور انسان کو غصہ کم آتا ہے ۔ ۔ ۔ اور ان سب کہ بعد غصہ کا سب سے زیادہ تعلق انسانی معاشرتی حالات پر ہے اور انسانی نفسیات سے بھی ہے معاشرتی حالات پر یوں کہ وہ لوگ جو جاگیرداری یا وڈیرہ شاہی کہ نظام کہ تابع اور محکوم ہوتے ہیں وہ جلد غصہ میں آجاتے ہیں ان لوگوں کہ مقابلے میں جو کہ متوسط یا امیر طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور نفسیات سے یوں کہ جب بھی انسان کوئی کام کرنا چاہے اور اور میں کوئی رکاوٹ واقع ہو تو انسان جھنجھلا اٹھتا ہے اور یہی جھنجھلاہٹ غصہ کا باعث بنتی ہے اسی طرح بعض اوقات غصہ عبارت ہوتا انسانی کامیابیوں اور ناکامیوں سے ایک ناکام آدمی کامیاب کہ مقابلے میں بہت جلد غصہ میں آجاتا ہے ۔۔ بالکل اسی طرح غصہ کا ایک بہت بڑا عنصر عبارت ہے روز مرہ کی انسانی زندگی کی تلخیوں سے کہ یہ تلخیاں کسی بھی انسان کہ اندر اتنی کڑواہٹ بھر دیتی ہیں کہ ایسا انسان چاہے وہ کسی بھی طبقے سے تعلق رکھتا ہو جلد غصہ میں آجاتا ہے اور ہمہ وقت غصہ میں رہتا ہے اس کہ علاوہ بھی غصہ کی متعدد وجوہات ہیں سردست فقط انہی پر اکتفا کرتا ہوں ....
غصے کا علاج کیا ہے یا اس پر کسی کنٹرول کیا جائے ۔ ۔ ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہم چونکہ سب سے پہلے مسلمان ہیں لہزا اس سلسلے میں ہمارے لیے سب سے بڑھ کر تعلیمات وہی ہیں جو کہ ہمارے دین نے ہمیں سکھائی ہیں اور وہ تعلیمات ہمارے سامنے موجود ہیں ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کہ پیارے پیارے اسوہ حسنہ کی صورت میں لہزا صرف اسی سے چند مثالیں ذکر کرکے اس موضوع کو ختم کروں گا ۔ ۔ ۔
(البخاری، جلد نمبر 3، صفحہ نمبر 395)
فرمایا۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اس کہ قبیلے کہ ایک ہزار لوگ یہ منظر دیکھ کر اسلام لے آئے ۔ ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان تھا : وہ نہیں جو کسی دوسرے کو پچھاڑ دے بلکہ اصل طاقتور وہ ہے جو غصے کے وقت خود پر قابو
(مسلم، حدیث نمبر 2014)
ایک مرتبہ ایک شخص نے نصیحت سننے کی خواہش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
(البخاری، جلد4، صفحہ نمبر 139)
ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک مسلمان قبیلے کے قحط دور کرنے کی خاطر ایک یہودی زید بن سعید سے اسّی دینار قرض لیا۔ چنانچہ اس سے قبیلے کو خوراک مہیا کردی گئی۔ ادائیگی کے وقت سے پہلے ہی زید، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور گستاخانہ انداز میں رقم کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اس کی گستاخی کو برداشت نہ کرسکے اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کا سر قلم کرنے کی اجازت چاہی، مگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
(اردو دائرہ معارف اسلامیہ، جلد19، صفحہ نمبر 129)
یہ تو تھے پاک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ کردار کہ چند عملی نمونے اس کہ علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہ کچھ قولی ارشادات بھی ایسے ہیں کہ جن کی روشنی میں انسان غصے پر قابو پایا جاسکتا ہے مثلا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غصے کا یہ حل تجویز فرمایا کہ جب کسی کو غصہ آئے تو وہ اگر کھڑا ہے تو بیٹھ جائے اور بیٹھا ہے تو لیٹ جائے۔ اسی طرح آپ نے غصے کی حالت میں وضو کر کے اسے ٹھنڈا کرنے کا حکم دیا ہے ۔ ۔
اس کہ علاوہ علماء نے بھی غصہ پر قابو پانے کے لئے چند نسخے تجویز کئے ہیں۔
۱. اَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمِ کہنا۔
۴. جگہ بدل دے کہ شیطان نے جناب موسیٰ علیہ السلام سے گفتگو کرتے ہوئے یہ نصیحت کی کہ جب تمہیں غصہ آئے تو اپنی جگہ بدل دینا ورنہ میں مصیبت میں مبتلا کردوں گا۔
روایات میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص اپنے غصّہ کو روک لے گا، پروردگار روز قیامت اسے معاف کرے گا اور اس کے گناہوں کی پردہ پوشی کرے گا اور اسے جنت عطا فرمائے گا۔
اگلی نشست میں ہم برداشت پر گفتگو کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔
برداشت
اسلام علیکم معزز قارئین کرام !
برداشت کیا ہے ؟؟؟؟؟؟
اکثر ایک جملہ زبان زد عام رہتا ہے کہ برداشت کی بھی ایک حد ہوتی ہے یہ برداشت آخر ہے کیا ؟؟؟؟؟ اور اسکی حد آخر کیا ہے ؟؟؟؟
تو ہمارے نزدیک برداشت یعنی Temperament ایک " ایسی ادراکی " قوت ہے کہ جسکی ضد " اظہار غصہ " ہے سو اس اعتبار سے اس کی حد یہی کہلائی کہ جب کہیں کسی بات پر آپ کو غصہ آجائے اور آپ اسکا برملا اظہار بھی کردیں تو وہ آپکی قوت برادشت کے ختم ہونے کے اعلان کے مترادف ہوگا ۔
خیر انسان کی قوت برداشت بھی اس کی شخصیت کا ایک اہم اور نمایاں پہلو ہے ۔ دنیا میں اکثر ایساہوتا ہے کہ ماحول و حالات ہمارے لئے سازگار نہیں ہوتے یا پھر ایسا ہوتا ہے کہ لوگوں کا عمومی رویہ ہماری بابت ہمارے مزاج کہ عین مطابق نہیں ہوتا تو ایسے میں ہم لوگ اکثر اپنا " Temperament lose " کرجاتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا یقینا ہماری شخصیت کے ایک ایسے منفی اور کمزور پہلو کی نشاندہی کرتا ہے جو کہ ہمارے شخصی کردار کی تشکیل میں ایک بہت بڑی رکاوٹ کا باعث بھی بن سکتی ہے کیونکہ ایسے میں پھر اکثر لوگ ہمیں ہمارے اسی وصف یعنی " عدم برداشت " کی بنا پر کمزور شخصیت کا مالک گرداننے لگتے ہیں جبکہ اس کے برعکس وہ لوگ جو اس قسم کے معاملات میں رواداری کا عملی مظاہرہ کرتے ہوئے تحمل اور بردباری سے مسائل کا سامنا کریں وہ لوگ دوسروں کی نظروں میں اہم مقام حاصل کر لیتے ہیں۔ یہ بھی درست ہے کہ قوت برداشت کو بڑھانا خاصا مشکل اور کٹھن کام ہے مگر یہ ناممکن نہیں لہزا میری نظر میں جو اس کا ایک حل سمجھ میں آتا ہے وہ یہ ہے کہ آدمی بظاہر اپنی مرضی کے خلاف ہونے والی تمام چھوٹی چھوٹی باتوں اور رویوں کو ignore کرے اور ایسے افراد کے حلقہ احباب میں خود کو محدود کرئے کہ جو اعلٰی درجہ کی بردبار شخصیت کے مالک ہوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ غصہ کی بنسبت برداشت ایک اختیاری فعل ہے غصہ کا آجانا چونکہ غیر اختیاری ہوتا ہے مگر غصہ پر کنٹرول اختیاری امر ہے بالکل اسی طرح قوت برداشت اور اس میں "بڑھوتری " ایک اختیاری امر ہے جو کہ یقینا شخصیت کی تکمیل میں ایک مثبت اقدام کی حیثیت رکھتا ہے ۔ اسیے میں دعا ہے کہ اللہ مجھ سمیت آپ سب کو قوت برادشت کی قوی دولت سے مالا مال کرے آمین نیز امید ہے ]آپ لوگوں کی سمع خراشی بحیثیت قوت برداشت پر ہماری معروضات گراں نہیں گذری ہونگی والسلامساقیا ہور پلا ہور پلا ہور پلا
Comment
Comment