پاکستانی طالبان سے امن مذاکرات
پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انتہاپسندی اور دہشت گردی ہے اور دہشت گردی کی حالیہ وارداتوں سے ملک لرز کر رہ گیا ہے. اسلام کے نام پر بننے والا پاکستان، دہشتستان بن چکا ہے ۔ نیز دہشت گردی ملک کی معاشی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی ہے۔ دہشتگرد ملک کو اقتصادی اور دفاعی طور پر غیر مستحکم اور تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں. گذشتہ دس سالوں سے پاکستان دہشت گردی کے ایک گرداب میں بری طرح پھنس کر رہ گیا ہے اور قتل و غارت گری روزانہ کا معمول بن کر رہ گئی ہےاور ہر طرف خوف و ہراس کے گہرے سائے ہیں۔ کاروبار بند ہو چکے ہیں اور ملک کی اقتصادی حالت دگرگوں ہے۔ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستانی معیشت کو 100ارب ڈالر کا نقصان ہواہے۔45000 سے زیادہ معصوم پاکستانی مسلمان اپنی جان سے گئے۔
قرآن مجید، مخالف مذاہب اور عقائدکے ماننے والوں کو صفحہٴ ہستی سے مٹانے کا نہیں بلکہ ’ لکم دینکم ولی دین‘ اور ’ لااکراہ فی الدین‘ کادرس دیتاہے.اسلام امن،سلامتی،احترام انسانیت کامذہب ہے ، نفرت اور دہشت کا نہیں۔ آ نحضرت صلعم دنیا میں رحمت العالمین بن کر آ ئے۔ اسلام اور دہشت گردی دو متضاد نظریات ہیں ۔اسلام احترام انسانیت کا درس دیتاہے جب کہ دہشت گردی بے گناہ انسانیت کے قتل اور خوف وہراس پیدا کرتی ہے۔ چند انتہاپسندعناصرکی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کاامیج خراب ہورہا ہے۔ ہر چیز کی ایک انتہا ہوتی ہے ۔ دہشت گردی کا پانی سروں سے گزر چکا ہے اور بھوت بن کر ہمارے ذہنوں پر مسلط ہو گیا۔طالبان کو یہ جان لینا چاہئیے کہ تشدد مسائل کا حل نہ ہے بلکہ مزید مسائل کو جنم دیتا ہے اور اب تک کے تشدد سے طالبان کی حمایت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے۔
ابھی حال ہی میں منعقد ہونے والی کل جماعتی کانفرنس میں مشترکہ قرارداد منظورکی گئی ہےجس میں طالبان سے مذاکرات کا فیصلہ ہوا۔ ادہر طالبان نے بات چیت کو خوش آئند قرار دیا ہے تاہم کہا ہےکہ ٹی ٹی پی شوریٰ اجلاس کے بعد مذاکرات کی پیشکش کا باضابطہ رد عمل ظاہر کیا جائے گا۔ دوسری طرف فوجی قیادت نے یہ واضح کردیا کہ یہ مذاکرات صرف ان لوگوں سے ہوں گے جن کا تعلق پاکستان سے ہے، نہ کہ ان غیرملکی عناصر کے ساتھ جو پاکستان کے قبائلی علاقوں میں متحرک ہیں۔فوجی قیادت نے بتایا کہ فوج کو جن مشکلات کا سامنا اس خطے میں کرنا پڑرہا ہے، ان میں سے غیرملکی جنگجوؤں کی بڑی تعداد میں موجودگی، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے مختلف دھڑے اور خصوصاً شمالی وزیرستان میں حکومتی رِٹ کی عدم موجودگی زیادہ اہم ہیں. امن ایک خوش آئند بات ہے اور اگرپر امن جدوجہد و مذاکرات سےدیر پا امن آسکتا ہے تو ہمیں مذاکرات سے انکار نہیں کرنا چاہئیے. طالبان سے مذاکرات کر کے امن و آتشتی کی راہ ہموار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے اس سے خون خرابہ ختم ہو گا اور ملک میں امن قائم ہو سکتا ہے مگر طالبان کو بھی امن کی اس خواہش کو ہماری کمزوری نہ سمجھنا چاہئیے۔
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار نے کہاکہ نائن الیون کے بعد پاکستان کی سرزمین اور سرحدوں پر جو آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے اس میں فورسز کے اہلکاروں سمیت ہزاروں معصوم شہری لقمہ اجل بن چکے ہیں، ہمیں اس پر غور کرنا چاہئے کہ یہ شروع کیوں ہوا اور اس کے اثرات پاکستان اور افغانستان پر ہی کیوں مرتب ہوئے، فاٹا میں ڈکٹیٹر کی جانب سے فوج کو بھیجا گیا تو آگ لگ گئی، وہاں ہتھیار اٹھانے والے لوگ ہمارے اپنے ہی ہیں۔ انہوں نے کہاکہ پاکستان کو آگ اور خون کی ہولی سے نکالنے لئے ہوم ورک کافی عرصے سے جاری تھا اور اس کا فریم ورک تیار ہے. وفاقی وزیر داخلہ نے کہاکہ میڈیا سمیت بہت سے دوستوں نے کہاکہ دہشت گردوں سے سختی سے نمٹا جائے،ہماری فوج کا شمار اعلیٰ ترین فورسز میں شمار ہوتا ہے اس لئے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنا کوئی مشکل بات نہیں مگر ہم نے حکمت عملی اور دانشمندی سے پاکستان کو اس صورتحال سے نکالنا ہے۔ انہوں نے کہاکہ اے پی سی میں مذاکرات کا جو راستہ اختیار کیا گیا ہے وہ پاکستان کا فیصلہ ہے..
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ طالبان سے مذاکرات کر کے پاکستان ،طالبان کی طاقت و حثیت کو قانونی ہونے کا جواز فراہم کر دے گاکوئ غیرت مند ریاست ، مسلح عسکریت پسندوں کی شناخت تسلیم نہیں کرسکتی.یہ ایک زندہ حقیقت ہے کہ ماضی میں طالبان نے معاہدوں کو اپنی طاقت بڑہانے کے لئے استعمال کیا ہے۔کیا آزمائے ہوئے کو آزمانہ بیوقوفی نہ ہے؟ معاہدوں کی خلاف ورزی کے معاملہ میں طالبان کا ریکارڈ یقینا اچھا نہ ہے۔
بعض تجزیہ نگاروں کے مطابق اگر تحریک طالبان سے مذاکرات ہو جائیں تو ملک میں امن کی ضمانت یقینی ہے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن نے کہا ہے کہ حکومت کو طالبان سے مذاکرات کو سنجیدگی سے لینا چاہئیے تب ہی خطے میں امن کے حوالے سے کوئی اہم پیش رفت ہو سکتی ہے. امیرجماعت اسلامی سید منور حسن کا کہنا ہے کہ طالبان کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے دیکھ لیا۔ خطے میں بحالی امن کے مسئلے کا واحد حل مذاکرات ہیں.
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کےساتھ مذاکرات،طالبان کی طرف سے ، ماضی کی طرح وقت حاصل کرنے کا ایک حربہ بھی ہو سکتا ہے۔ اور یہ کہ ان قاتلوں سے مذاکرات جنہوں نے ہزاروں بے گناہ پاکستانی مردوں ،عورتوں اور بچوں کو شہید کر دیا ہے اور ملکی اقتصادیت کا بھرکس نکال کر رکھ دیا ،کمزاوری کی علامت ہے۔ ان دہشت گردوں کو گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے،جن کے ہاتھوں پر معصوم پاکستانیوں کا خون ہے۔
“ پاکستان میں شاید ہی دہشت گردی کی کوئی بڑی یا چھوٹی ایسی وردات ہوگی جس کی ذمہ داری طالبان نے قبول نہ کی ہو۔فوجی ہیڈکوارٹرز پر حملوں سے لیکر سکولوں کی تباہی تک فوجی جوانوں کے گلے کاٹنے سے لیکر ملالہ یوسفزئی پرقاتلانہ حملے تک سب کا سہرا طالبان فخر سے اپنے سر باندھتے ہیں، لیکن پھر بھی عمران خان، منور حسن اور فضل الرحمان جیسے کئی سیاستدان ان سے مذاکرات کا پرچار کرتے ہیں۔
ان میں سے کبھی کسی نے یہ نہیں بتایا کہ دہشت گردوں کے مطالبات کیا ہوسکتے ہیں اور کم سے کم وہ کس پر’ راضی‘ ہو سکتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کی بات کر کے ہر کوئی اپنے لیے ’لائف انشورنس‘ لیے پھرتا ہے۔”
انصارالامہ کے سربراہ فضل الرحمن خلیل نے نوائے وقت سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کی راہ اختیار کر کے حکومت نے دانش مندی کا ثبوت دیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے ضمن میں حکومت اور تمام ادارے پوری طرح متفق ہیں۔ حکومت اور طالبان دونوں ملک میں امن کے قیام کے لئے پوری طرح مخلص ہیں۔ ہم مدت سے کہہ رہے ہیں کہ طاقت کا استعمال نقصان دہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض حلقوں کی طرف سے یہ غلط تاثر دیا جا رہا ہے کہ طالبان پاکستان کے آئین کو نہیں مانتے۔ یہ الزام عائد کرنے والے دستور کو جانتے ہی نہیں۔ طالبان آئین کو نہ صرف پوری طرح مانتے ہیں بلکہ ملک میں نفاذ اسلام کے متمنی بھی ہیں البتہ حکمرانوں کی پالیسیوں سے انہیں ضرور اختلاف ہے۔ فضل الرحمن خلیل نے کہا کہ تمام گروپ تحریک طالبان پاکستان کے پلیٹ فارم پر حکیم اللہ محسود کی قیادت میں متحد ہیں۔ ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت نے بھی اگر ان مذاکرات کو محض سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا تو ملک میں قیام امن کا ایک سنہری موقع گنوا دیا جائے گا۔ اور شاید پھر یہ موقع میسر نہ آئے۔ ثناءنیوز کے مطابق مولانا فضل الرحمن خلیل نے کہاہے کہ تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ حکیم اللہ محسود سے مذاکرات ہوں گے چھوٹے گروپس کو ٹی ٹی پی کی قیادت اعتمادمیں لے گی حکومت مذاکرات کے حوالے سے جلد روڈمیپ کا اعلان کرے۔
مذاکرات کی حکومتی پیش کش پر مشاورت کیلئے سینئر پاکستان طالبان کمانڈروں کا اجلاس نا معلوم مقام پر شروع ہوگیا ہے صدارت حکیم اللہ محسود کر رہے ہیں۔ طالبان ترجمان کا کہنا ہے کہ شوریٰ کے فیصلے کا اعلان جلد کریں گے۔ اجلاس کے بعد مختلف طالبان کمانڈروں نے اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے قیدیوں کی رہائی اور ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین کیلئے معاوضہ چاہتے ہیں ، ماضی کی حکومتوں نے وعدے پورے نہیں کئے اس لئے اب ضمانت چاہتے ہیں۔ امکان ہے کہ تحریک طالبان رہنماوٴں کے مشاورتی عمل کا یہ سلسلہ کئی دنوں تک جاری رہے گا۔ دو طالبان کمانڈروں نے اس حوالے سے کہاکہ مجموعی صورتحال اور حکومتی پیشکش پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔ کالعدم تحریک طالبان کے ترجمان شاہد اللہ شاہد نے خبر ایجنسی کو بتایا کہ ہم جلد اپنے فیصلوں سے میڈیا کو آگاہ کریں گے ایک اور طالبان کمانڈر نے کہا مجلس شوریٰ مجموعی صورتحال پر غور کر رہی ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ تمام پاکستانی لیڈر امن مذاکرات شروع کرنے پر متفق ہیں۔ انہوں نے کہاکہ فوج ہمارے خلاف تمام آپریشنز بند کرے اور شمالی مغربی علاقے میں امریکی ڈرون حملے بھی بند کئے جائیں۔ دوسرے طالبان کمانڈر نے کہاکہ ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے تمام قیدی رہا کئے جائیں اور فوجی آپریشن میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائے جبکہ تیسرے طالبان کمانڈر نے کہا کہ شوریٰ کے اجلاسوں میں مذاکرات کے ناموں کو حتمی شکل دی جائے گی اور تحریک طالبان کے قیدیوں کی فہرست تیاری کی جائے گی انہوں نے توقع کا اظہار کیا کہ شوریٰ آئندہ 5 سے 6 روز میں تمام امور پر فیصلہ کر لے گی ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکومت سے ضمانت چاہتے ہیں اور اس حوالے سے طالبان کمانڈروں نے کہاہے کہ ماضی میں حکومتی نے اپنے وعدے پورے نہیں کئے اور ہم یہ عمل دوبارہ دہرانا نہیں چاہتے۔
http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=128420
اب تک کی خبروں سے پتا چلتا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان امن معاہدے کے تحت طالبان عسکریت پسندوں کی عام معافی، جہادیوں کی رہائی، افغان جنگ میں عدم مداخلت اور آئین میں شریعت کی حاکمیت سے متعلق ترامیم جیسے مطالبے و طالبان کے زیر تسلط رہنے والے علاقوں سے پاک فوج کے انخلا کا مطالبہ سامنے رکھ سکتے ہیں۔اس سے پہلے ٹی ٹی پی نے القاعدہ اور لشکر جھنگوی سے علیحدگی سے متعلق حکومتی مطالبے پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکمرانوں کی فرمائش دیوانے کا خواب ہے، یہ دونوں ہمارے وجود کا حصہ ہیں۔ مگر بات چیت کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کےلئے طالبان کو لمبے چوڑے، ناممکن و ناقابل عمل و قبول مطالبات سے گریز کرنا چاہئیے کیونکہ حکومت کی جانب سے ان مطالبات کو پورا کرنا نہایت مشکل ہوگا اور وہ بھی ایک ایسے وقت پر جب یہ مطالبات اعلیٰ فوجی افسر کی شہادت کے چند گھنٹوں بعد پیش کئے گئے ہوں اور جن کی شہادت کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کی ہواور اپنے موقف میں ملکی مفاد کو مقدم جاننا چاہئیے ۔ دہشت گردی ترک کرنے اور القائدہ سے قطع تعلق کرنے سے مذاکرات کی ابتدا ہونی چاہئیے۔
طالبان کو تاریخ اور القائدہ کی پر تشدد تحریک کی ناکامی سے سبق حاصل کرنا چاہئیےکیونکہ تشدد و دہشت گردی سے لوگوں کو اپنے ساتھ نہ ملایا جاسکتا اور نہ ہی لوگوں کے دل جیتے جا سکتے ہیں اور نہ ہی تشدد سے کامیابی حاصل ہو سکتی ہے۔مذاکرات اور پر امن جمہوری جدوجہد سے ہی مسائل کا دیر پا حل ممکن ہےدنیا بھر میں آج تک صرف اور صرف پر امن جمہوری تحریکیں ہی کا میابی سے ہمکنار ہوئی ہیں جس میں تحریک حصول پاکستان شامل ہے۔
مزید براں، طالبان کو مذاکرات کےلئے اپنی نیک نیتی ثابت کرتے ہوئے ،مذاکرات سے پہلےخودکش حملوں سے معصوم و بے گناہوںپاکستانی مسلمانوں کا خون بہانا اور پاکستانی سیکورٹی فورسز پر حملے فوری طور پر بند کر دینا چاہئیں.
طالبان سے ہونے والے مذاکرات نہایت پیچیدہ اور صبر آزما ہونگے کیونکہ فریقیں میں بہت سی بدگمانیان پائی جاتی ہیں اور نہ ہی کسی فوری بریک تھرو کی امید رکھنی چاہئیے۔مگر طالبان کی طرف سے اب تک ملنے والے اشاروں اور حکومتی ارادوں سے ایسا لگتا ہے کہ اس بار امن مزاکرات کامیابی سے ہمکنار ہوسکتے ہیں۔