ملالہ اور بی بی سی۔ بد
دیانتی کی دانش گری(۱)
ابو زید
abuzaid@eeqaz.org
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے بلاگ
نگار اپنے میدان میں بہت خوب لکھتے ہوں گے مگر۔۔۔ اقبال، جہاد اور ہماری قرونِ اولی
کی خواتین کی یاد تازہ کرنے والی ایک ننھی روح فاطمہ بنت عبداللہ ایسے موضوعات ان
صاحب کی زبان پر یوں محسوس ہوئے جیسے رحمٰن ملک کی زبان پر سورۃ الاخلاص! جس کا کام
اُسی کو ساجھے! فاطمہ بنت عبداللہ سامراج کے خلاف مزاحمت کی ایک رمز تھی، اور وسعت
اللہ خان کی ممدوحہ سامراج کے سالار اعلی باراک اوباما کی ایک سرگرم مداح، دونوں کو
ایک کرکے کمال ہی تو کردیا عوامی ذہن سازی کےلیے سرگرم اس غیرملکی ادارے کے قلم
نگار نے!
برطانیہ عظمی اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو ایک وضع دار
خاندانی رئیس اور کسی نو دولتیے میں ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی فرق برطانوی میڈیا اور
امریکی میڈیا میں نظر آتا ہے۔ آپ امریکی ٹی وی سی این این کی ویب سائٹ دیکھیں اور
بی بی سی ویب سائٹ دیکھیں تو فرق واضح ہوجائے گا۔آج بھی بی بی سی کی اردو سروس اور
بی بی سی اردو ویب سائٹ اردو زبان میں خبروں، معلومات اور تجزیوں کا بہترین ذریعہ
ہے۔ بی بی سی اردو نے بہترین اردو دان صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی خدمات حاصل کی
ہوئی ہیں اور انہیں اس حد تک آزادی دی ہوئی ہے کہ وہ برطانوی نیم خود مختار سرکاری
ادارے کے تنخواہ دار ہونے کے باوجود برطانوی حکومت اور اس کی پالیسی پر بے دھڑک
تنقید اور طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بہترین معیار، قوت برداشت اور غیرجانبداری کا بھرم اپنی
جگہ پر۔ خاندانی رئیس ہزار کسی نودولتیے سے مختلف ہوں لیکن ساری دنیا کی "بے غرض"
خدمات کوئی ایسے ہی انجام نہیں دیتا۔
بی بی سی کے ان بے لاگ تجزیہ نگاروں میں ایک وسعت اللہ خان
بھی ہیں جو کہ ہر ہفتے "بات سے بات "کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور اسے بی بی سی
ریڈیو میں بھی پابندی کے ساتھ سنایا جاتا ہے۔عموماً گرما گرم موضوع ہوتا ہے اور
قارئین کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ، انداز دھیما، ہلکا سا طنز
اور بات میں خوب کاٹ ہوتی ہے۔ کالم کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہر سمجھدار اور سنجیدہ قاری
کا پسندیدہ کالم ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملالہ یوسف زئی کا موضوع زبان زد عام ہے اور
"بات سے بات" کے لئے بھی یہی موضوع چنا گیا۔
پیش نظر چودہ اکتوبر ۲۰۱۲ کا کالم بات سے بات ہے اور عنوان
ہے " ملالہ ہی کیوں؟" نیچے دئے گئے لنک سے براہ راست اس کا مطالعہ کیا جاسکتا
ہے
*BBC Urdu - *آپ کی آواز - *ایک ملالہ ہی کیوں ؟
کالم میں بعض اسلام پسند جذباتی لوگوں کی اس بات کا جواب
دیا گیا ہے کہ ملالہ کو کیوں اتنی اہمیت دی جارہی ہے جبکہ ہزاروں کے حساب سے بے
گناہ عورتیں اور بچے ڈرون اور دوسرے حملوں میں مارے گئے ہیں۔ کالم کا خلاصہ یہ ہے
کہ بعض افراد قوموں کی تاریخ میں اتفاقی طور پر شجاعت و حریت کےآئیکون یا علامت بن
جاتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کئی مثالیں دیں، مثلاً جون آف آرک، ۱۹۱۱ میں اطالویوں
کے ہاتھوں شہید ہوئی گیا رہ سالہ ترکی بچی فاطمہ بنت عبداللہ، بھگت سنگھ اور تیونس
کا محمد بو عزیزی جس کی خود سوزی کے بعد عرب سپرنگ پھوٹ پڑی۔ ان کے الفاظ اس بارے
میں یہ ہیں۔
بات شاید یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک
سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر
ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ
سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔
بات متاثر کن اور دل لگتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
موصوف کالم نگار نے جن چار شخصیات کا نام دیا ہے ان کے بارے یہ بات قابل بحث ہوگی
کہ یہ چاروں شخصیات نے واقعی میں تاریخ میں وہی مقام حاصل کیا ہے جیسا کہ ان کا
دعوی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جون آف آرک اور بھگت سنگھ کے بارے میں تو ان کی بات
صحیح ہے اور باقی دو مسلمانوں کا ذکر انہوں نے صرف خانہ پری کے لئے کردیا ہے ورنہ
مسلمانوں کی تاریخ اتنی مفلس نہیں ہے کہ اتفاقات سے کسی کو ہیرو بنادیا جائے۔ وسعت
اللہ خان جیسے انٹلکچول کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے کہ عین میدان جنگ
میں دشمنوں کے درمیان سپاہیوں کو پانی پلانے اور ڈائری لکھ کر حملہ آور ممالک اور
ان کے گماشتوں سے ایوارڈ لینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سو فاطمہ بنت عبدا للہ کی
اساطیریت کم عمری کے باوجود اس کے جذبہ ایمانی اور قربانی کے بسبب ہے۔ اسے تاریخی
اتفاق قرار دینا کسی مقصد سے ہی ہوسکتا ہے۔ رہی بو عزیزی کی بات تو اس کے لیجنڈ
بننے کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں ہوسکتا۔
سچی بات یہ ہے کہ موصوف تجزیہ نگار کو اپنی تھیسس ثابت
کرنے کے لئے ٹھیک سے تاریخ سے مثالیں فراہم نہیں ہوسکیں۔ موضوع بحث دوسرا ہے ورنہ
اسلامی تاریخ میں قربانی اور جدوجہد کی تاریخ پر اگر ہلکی سی بھی روشنی ڈالنے کی
کوشش کی جائے تو صفحےکے صفحے بھر ہوجائیں۔ مسلمان اپنے ہیرووں کو اچھی طرح سے
پہچانتے ہیں۔
ان سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی اگر کالم کا مطالعہ
کیا جائے تو بھی وسعت اللہ خان نے ملالہ کے لئے جو مقام تجویز کیا ہے وہ واقعی حیرت
انگیز ہے۔ کیا تین سالوں میں کسی کے لیجنڈ بننے کا فیصلہ کیا جاتا ہے؟ اقوام عالم
کے تاریخ کی اساطیری شخصیات کا مطالعہ کریں کہ کتنی قربانیوں سے لوگ لیجنڈ بنتے ہیں
اور پھر کتنے عرصے بعدانہیں لیجنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ تاریخ کی اس بھیڑ میں ملالہ کو
کس حیثیت سے لیجنڈ قرار دیا گیا ہے؟ صحافتی کرم فرمائیوں کی یہ بوالعجبی کہ انتہائی
احمقانہ اور بے تکی بات کو انٹلکچول(Intellectual) انداز میں پیش کریں تو وہ بڑی ہی
معقول نظر آنے لگتی ہے۔ملالہ کی پوری کہانی کو جس طرح سے پیش کیا جاتا ہے اگر اس کو
ویسے ہی مانا جائے تو اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ملالہ کو تعلیم حاصل کرنے میں
دشواریاں پیش آرہی تھی، اور اسے برقعہ پہن کر چلنے میں تکلیف ہورہی تھی سو اس نے
ڈائری لکھی۔ باقی کام وضع دار قسم کے خاندانی رئیس برطانیہ عظمی کے نشریاتی ادارے
نے ادا کیا اور پھر چونکہ یہ ڈائری مغربی مفادات سے مطابقت رکھتی تھی اس لئے اس بچی
کو ایوارڈوں اور خطابات سے نواز کر خوب استعمال کیا گیا۔ سیکولر خاندانی پس منظر نے
ملالہ کی زبان سے کچھ بیانات دلوائے جسے سیکولر اداروں نے اپنے مفادات کے لئے
ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کیا ملالہ کی ڈائری کا بی بی سی میں شائع کیا جانابی بی سی کا
صحافتی کارنامہ نہیں تھا یا اس میں ملالہ کا اپنا کوئی کمال تھا؟ کیا ملالہ کے
علاوہ کسی اور نے ڈائری نہیں لکھی ہوگی؟ ملالہ کوڈائری لکھنے کے لئے کسی نے اُکسایا
تھایا اس نے خود لکھا تھا؟ ملالہ نےیہ ڈائری اپنے لئے لکھی تھی یا بی بی سی کے لئے؟
اگر ایسی ہی ڈائری کسی اور پختون نے لکھی ہوتی اور لکھی بھی ہوگی جس میں نیٹو کے
مظالم کا ذکر ہوتو کیا اسے بھی شائع کیا جاتا؟ الغرض پوری صورت حال کے تناظر میں یہ
بات طے شدہ ہے کہ ملالہ کی تخلیق بی بی سی نے کی ہے اب بھی بی بی سی میں جو کچھ
آرہا ہے وہ اپنی تخلیق کی نوک پلک سنوارنے کی کوشش ہے اور وسعت اللہ خان کا یہ کالم
بھی اسی تصویر میں رنگ بھرنے کی ایک کوشش ہے۔اس لیجنڈ کو بنانے میں بی بی سی اتنی
مستعد ہے کہ برمنگھم کے ڈاکٹر کا یہ بیان"ملالہ مضبوط اعصاب کی مالک ہے" بی بی سی
اردو ویب سائٹ میں شہ سرخی کی جگہ لے لیتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ بچی بچ نہ پائے
تو بی بی سی کی بنائی ہوئی یہ تصویر اور زیادہ پرفیکٹ ہوجائے گی اور ویسے بھی
پاکستان میں زندوں سے زیادہ مردوں پر ہی دھندہ چلتا ہے۔
الغرض ملالہ کروڑوں تعلیم حاصل کرنے کی مشتاق لڑکیوں اور
لاکھوں ڈائری لکھنے والی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی ہے جسے ایک حملہ آور ملک کا میڈیا
اپنے مخصوص مفاد کے پیش نظر لیجنڈ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور جب اس پر معقول قسم
کا اعتراض کیا جاتا ہے تو نامعقول قسم کے انٹلکٹ کی ملمع سازی کر کے اپنی بات پر
اصرار کیا جارہا ہے۔
آخر کوئی تو بات ہے کہ تاریخ کی فضاؤں کے ساتھ سید قطب کی
حق گوئی کا سُر مناسبت پیدا کرسکااور نہ ہی عافیہ کی بے چینیاں اور مظلومیت ان
فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرسکی۔ ہاں ملالہ کی ڈائری استعماری قوتوں، میڈیا اور دیسی
لبرلز کے نزدیک اس کو لیجنڈ بنانے کے لئے کافی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک حملہ
آور قوم اپنی مفتوحہ اقوام کے لئے بھی لیجنڈ کا فیصلہ کر کے دیتی ہے اور کتنی غریب
ہے وہ مفتوحہ قوم جو اپنے آقاؤں کی تجویز کردہ لیجنڈ کو قبول بھی کرلیتی ہے چاہے وہ
گیارہ سال کی ڈائری لکھنے والی بچی ہی کیوں نہ ہو۔
بہرحال ایک خاندانی رئیس کسی نودولیتے سے زیادہ وضع
دارضرور ہوتا ہے لیکن جب دیوالیہ پن سامنے دکھائی دیتا ہے تو سفید پوشی کا بھرم
رکھنے کے لئے ڈائری لکھنے والی بچی کو استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔
دیانتی کی دانش گری(۱)
ابو زید
abuzaid@eeqaz.org
برٹش براڈکاسٹنگ کارپوریشن کے بلاگ
نگار اپنے میدان میں بہت خوب لکھتے ہوں گے مگر۔۔۔ اقبال، جہاد اور ہماری قرونِ اولی
کی خواتین کی یاد تازہ کرنے والی ایک ننھی روح فاطمہ بنت عبداللہ ایسے موضوعات ان
صاحب کی زبان پر یوں محسوس ہوئے جیسے رحمٰن ملک کی زبان پر سورۃ الاخلاص! جس کا کام
اُسی کو ساجھے! فاطمہ بنت عبداللہ سامراج کے خلاف مزاحمت کی ایک رمز تھی، اور وسعت
اللہ خان کی ممدوحہ سامراج کے سالار اعلی باراک اوباما کی ایک سرگرم مداح، دونوں کو
ایک کرکے کمال ہی تو کردیا عوامی ذہن سازی کےلیے سرگرم اس غیرملکی ادارے کے قلم
نگار نے!
برطانیہ عظمی اور امریکہ میں وہی فرق ہے جو ایک وضع دار
خاندانی رئیس اور کسی نو دولتیے میں ہوتا ہے۔ کچھ ایسا ہی فرق برطانوی میڈیا اور
امریکی میڈیا میں نظر آتا ہے۔ آپ امریکی ٹی وی سی این این کی ویب سائٹ دیکھیں اور
بی بی سی ویب سائٹ دیکھیں تو فرق واضح ہوجائے گا۔آج بھی بی بی سی کی اردو سروس اور
بی بی سی اردو ویب سائٹ اردو زبان میں خبروں، معلومات اور تجزیوں کا بہترین ذریعہ
ہے۔ بی بی سی اردو نے بہترین اردو دان صحافیوں اور تجزیہ نگاروں کی خدمات حاصل کی
ہوئی ہیں اور انہیں اس حد تک آزادی دی ہوئی ہے کہ وہ برطانوی نیم خود مختار سرکاری
ادارے کے تنخواہ دار ہونے کے باوجود برطانوی حکومت اور اس کی پالیسی پر بے دھڑک
تنقید اور طنز کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
بہترین معیار، قوت برداشت اور غیرجانبداری کا بھرم اپنی
جگہ پر۔ خاندانی رئیس ہزار کسی نودولتیے سے مختلف ہوں لیکن ساری دنیا کی "بے غرض"
خدمات کوئی ایسے ہی انجام نہیں دیتا۔
بی بی سی کے ان بے لاگ تجزیہ نگاروں میں ایک وسعت اللہ خان
بھی ہیں جو کہ ہر ہفتے "بات سے بات "کے نام سے کالم لکھتے ہیں اور اسے بی بی سی
ریڈیو میں بھی پابندی کے ساتھ سنایا جاتا ہے۔عموماً گرما گرم موضوع ہوتا ہے اور
قارئین کو تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کی کوشش کی جاتی ہے ، انداز دھیما، ہلکا سا طنز
اور بات میں خوب کاٹ ہوتی ہے۔ کالم کچھ ایسا ہوتا ہے کہ ہر سمجھدار اور سنجیدہ قاری
کا پسندیدہ کالم ہوسکتا ہے۔ اس وقت ملالہ یوسف زئی کا موضوع زبان زد عام ہے اور
"بات سے بات" کے لئے بھی یہی موضوع چنا گیا۔
پیش نظر چودہ اکتوبر ۲۰۱۲ کا کالم بات سے بات ہے اور عنوان
ہے " ملالہ ہی کیوں؟" نیچے دئے گئے لنک سے براہ راست اس کا مطالعہ کیا جاسکتا
ہے
*BBC Urdu - *آپ کی آواز - *ایک ملالہ ہی کیوں ؟
کالم میں بعض اسلام پسند جذباتی لوگوں کی اس بات کا جواب
دیا گیا ہے کہ ملالہ کو کیوں اتنی اہمیت دی جارہی ہے جبکہ ہزاروں کے حساب سے بے
گناہ عورتیں اور بچے ڈرون اور دوسرے حملوں میں مارے گئے ہیں۔ کالم کا خلاصہ یہ ہے
کہ بعض افراد قوموں کی تاریخ میں اتفاقی طور پر شجاعت و حریت کےآئیکون یا علامت بن
جاتے ہیں۔ اس کے لئے انہوں نے کئی مثالیں دیں، مثلاً جون آف آرک، ۱۹۱۱ میں اطالویوں
کے ہاتھوں شہید ہوئی گیا رہ سالہ ترکی بچی فاطمہ بنت عبداللہ، بھگت سنگھ اور تیونس
کا محمد بو عزیزی جس کی خود سوزی کے بعد عرب سپرنگ پھوٹ پڑی۔ ان کے الفاظ اس بارے
میں یہ ہیں۔
بات شاید یہ ہے کہ تاریخ ایک مسلسل گیت ہے جسے ایک سے ایک
سریلا میسر ہے۔ مگر ایک خاص فضا اور موقع پر ہزاروں لاکھوں میں سے کسی ایک کا سر
ایسے لگ جاتا ہے کہ چھت پھٹ جاتی ہے، شیشہ تڑخ جاتا ہے یا بارش ہوجاتی ہے۔ یوں وہ
سریلا اور سر اجتماعی یادداشت کا حصہ بن جاتا ہے۔
بات متاثر کن اور دل لگتی ہے۔ لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے؟
موصوف کالم نگار نے جن چار شخصیات کا نام دیا ہے ان کے بارے یہ بات قابل بحث ہوگی
کہ یہ چاروں شخصیات نے واقعی میں تاریخ میں وہی مقام حاصل کیا ہے جیسا کہ ان کا
دعوی ہے۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ جون آف آرک اور بھگت سنگھ کے بارے میں تو ان کی بات
صحیح ہے اور باقی دو مسلمانوں کا ذکر انہوں نے صرف خانہ پری کے لئے کردیا ہے ورنہ
مسلمانوں کی تاریخ اتنی مفلس نہیں ہے کہ اتفاقات سے کسی کو ہیرو بنادیا جائے۔ وسعت
اللہ خان جیسے انٹلکچول کو یہ سمجھانے کی ضرورت نہیں پڑنی چاہئے کہ عین میدان جنگ
میں دشمنوں کے درمیان سپاہیوں کو پانی پلانے اور ڈائری لکھ کر حملہ آور ممالک اور
ان کے گماشتوں سے ایوارڈ لینے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔سو فاطمہ بنت عبدا للہ کی
اساطیریت کم عمری کے باوجود اس کے جذبہ ایمانی اور قربانی کے بسبب ہے۔ اسے تاریخی
اتفاق قرار دینا کسی مقصد سے ہی ہوسکتا ہے۔ رہی بو عزیزی کی بات تو اس کے لیجنڈ
بننے کا فیصلہ اتنی جلدی نہیں ہوسکتا۔
سچی بات یہ ہے کہ موصوف تجزیہ نگار کو اپنی تھیسس ثابت
کرنے کے لئے ٹھیک سے تاریخ سے مثالیں فراہم نہیں ہوسکیں۔ موضوع بحث دوسرا ہے ورنہ
اسلامی تاریخ میں قربانی اور جدوجہد کی تاریخ پر اگر ہلکی سی بھی روشنی ڈالنے کی
کوشش کی جائے تو صفحےکے صفحے بھر ہوجائیں۔ مسلمان اپنے ہیرووں کو اچھی طرح سے
پہچانتے ہیں۔
ان سب باتوں کو ایک طرف رکھتے ہوئے بھی اگر کالم کا مطالعہ
کیا جائے تو بھی وسعت اللہ خان نے ملالہ کے لئے جو مقام تجویز کیا ہے وہ واقعی حیرت
انگیز ہے۔ کیا تین سالوں میں کسی کے لیجنڈ بننے کا فیصلہ کیا جاتا ہے؟ اقوام عالم
کے تاریخ کی اساطیری شخصیات کا مطالعہ کریں کہ کتنی قربانیوں سے لوگ لیجنڈ بنتے ہیں
اور پھر کتنے عرصے بعدانہیں لیجنڈ قرار دیا جاتا ہے۔ تاریخ کی اس بھیڑ میں ملالہ کو
کس حیثیت سے لیجنڈ قرار دیا گیا ہے؟ صحافتی کرم فرمائیوں کی یہ بوالعجبی کہ انتہائی
احمقانہ اور بے تکی بات کو انٹلکچول(Intellectual) انداز میں پیش کریں تو وہ بڑی ہی
معقول نظر آنے لگتی ہے۔ملالہ کی پوری کہانی کو جس طرح سے پیش کیا جاتا ہے اگر اس کو
ویسے ہی مانا جائے تو اس سے صرف یہ پتا چلتا ہے کہ ملالہ کو تعلیم حاصل کرنے میں
دشواریاں پیش آرہی تھی، اور اسے برقعہ پہن کر چلنے میں تکلیف ہورہی تھی سو اس نے
ڈائری لکھی۔ باقی کام وضع دار قسم کے خاندانی رئیس برطانیہ عظمی کے نشریاتی ادارے
نے ادا کیا اور پھر چونکہ یہ ڈائری مغربی مفادات سے مطابقت رکھتی تھی اس لئے اس بچی
کو ایوارڈوں اور خطابات سے نواز کر خوب استعمال کیا گیا۔ سیکولر خاندانی پس منظر نے
ملالہ کی زبان سے کچھ بیانات دلوائے جسے سیکولر اداروں نے اپنے مفادات کے لئے
ہاتھوں ہاتھ لیا۔ کیا ملالہ کی ڈائری کا بی بی سی میں شائع کیا جانابی بی سی کا
صحافتی کارنامہ نہیں تھا یا اس میں ملالہ کا اپنا کوئی کمال تھا؟ کیا ملالہ کے
علاوہ کسی اور نے ڈائری نہیں لکھی ہوگی؟ ملالہ کوڈائری لکھنے کے لئے کسی نے اُکسایا
تھایا اس نے خود لکھا تھا؟ ملالہ نےیہ ڈائری اپنے لئے لکھی تھی یا بی بی سی کے لئے؟
اگر ایسی ہی ڈائری کسی اور پختون نے لکھی ہوتی اور لکھی بھی ہوگی جس میں نیٹو کے
مظالم کا ذکر ہوتو کیا اسے بھی شائع کیا جاتا؟ الغرض پوری صورت حال کے تناظر میں یہ
بات طے شدہ ہے کہ ملالہ کی تخلیق بی بی سی نے کی ہے اب بھی بی بی سی میں جو کچھ
آرہا ہے وہ اپنی تخلیق کی نوک پلک سنوارنے کی کوشش ہے اور وسعت اللہ خان کا یہ کالم
بھی اسی تصویر میں رنگ بھرنے کی ایک کوشش ہے۔اس لیجنڈ کو بنانے میں بی بی سی اتنی
مستعد ہے کہ برمنگھم کے ڈاکٹر کا یہ بیان"ملالہ مضبوط اعصاب کی مالک ہے" بی بی سی
اردو ویب سائٹ میں شہ سرخی کی جگہ لے لیتا ہے۔ خدا نخواستہ اگر یہ بچی بچ نہ پائے
تو بی بی سی کی بنائی ہوئی یہ تصویر اور زیادہ پرفیکٹ ہوجائے گی اور ویسے بھی
پاکستان میں زندوں سے زیادہ مردوں پر ہی دھندہ چلتا ہے۔
الغرض ملالہ کروڑوں تعلیم حاصل کرنے کی مشتاق لڑکیوں اور
لاکھوں ڈائری لکھنے والی لڑکیوں میں سے ایک لڑکی ہے جسے ایک حملہ آور ملک کا میڈیا
اپنے مخصوص مفاد کے پیش نظر لیجنڈ بنانے کی کوشش کر رہا ہے اور جب اس پر معقول قسم
کا اعتراض کیا جاتا ہے تو نامعقول قسم کے انٹلکٹ کی ملمع سازی کر کے اپنی بات پر
اصرار کیا جارہا ہے۔
آخر کوئی تو بات ہے کہ تاریخ کی فضاؤں کے ساتھ سید قطب کی
حق گوئی کا سُر مناسبت پیدا کرسکااور نہ ہی عافیہ کی بے چینیاں اور مظلومیت ان
فضاؤں میں ارتعاش پیدا کرسکی۔ ہاں ملالہ کی ڈائری استعماری قوتوں، میڈیا اور دیسی
لبرلز کے نزدیک اس کو لیجنڈ بنانے کے لئے کافی ہے۔ کتنی عجیب بات ہے کہ ایک حملہ
آور قوم اپنی مفتوحہ اقوام کے لئے بھی لیجنڈ کا فیصلہ کر کے دیتی ہے اور کتنی غریب
ہے وہ مفتوحہ قوم جو اپنے آقاؤں کی تجویز کردہ لیجنڈ کو قبول بھی کرلیتی ہے چاہے وہ
گیارہ سال کی ڈائری لکھنے والی بچی ہی کیوں نہ ہو۔
بہرحال ایک خاندانی رئیس کسی نودولیتے سے زیادہ وضع
دارضرور ہوتا ہے لیکن جب دیوالیہ پن سامنے دکھائی دیتا ہے تو سفید پوشی کا بھرم
رکھنے کے لئے ڈائری لکھنے والی بچی کو استعمال کرنے سے بھی نہیں چوکتا۔