اسلام علیکم پیغام دوستو ایک تلخ حقیقت کے ساتھ حاضر ہونا چاہتا ہوں
*ایک کہاوت -کوا چلا ہنس کی چال- جو صادق آتی ہے ہمارے حکمرانوں پہ جیسے کہ
ہمارے حکمران جب قوم سے خطاب کرتے ہیں توانگریزی میں خطاب نہ فرمائیں توعوام ان کو اپنے جیسا سمجھ کر گاما شیدا ساجا کہہ کر آوازیں دے گی۔
اب ظاہر ھے حکمران بننے کیلئے بندہ انگریزی میں تعلیم و تربیت حاصل کر تا ھے۔بچپن سے لیکر حکمران بننے تک ٹونی شانی مانی جانی جونی جیسے ناموں سے پکارا اور پہچانا جاتا ھے۔
اب اگر عوام سے اردو میں خطابت کر کے عوامی ناموں سے پکارا جائے تو یہ زمرہ توہین میں آتا ھے جی۔
اب ان چمکتے دھمکتے لشکارے مارتے شیٹی باڈی ٹائٹ قسم کے حکمرانوں کو دیکھ کر عوام کوشش کرتی ھے کہ ہمارے بچے بھی ان جیسے ھوں اور حکمرانی کریں گامے شیدے ساجے کسیٹے پر۔
ان عوام میں قسمت کی غلطی سے کچھ زیادہ ہی پڑھ لکھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھنا شروع ھو جاتے ہیں۔اس سمجھنا سمجھنا میں ہر فن مولا ھونے کے خبط میں مبتلا ھو کر الٹی سیدھی تعلیمی قسم کی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔
اگر کوئی اعتراض کر دے تو انگاروں پہ بیٹھ کر انگارے چبانا شروع ھو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کو یقین ہے کہ دنیا کے تما م علوم صرف انگلش میں ہیں اور تمام نوح انسانی کو انگلش اہل زبا ن سے بھی اچھی آنی چاھئے۔
اب دیکھیں جی۔یہ فرانس والے ہیں انہوں بھی پہلے انگش بولنا سیکھی اس کے بعد سایئنسی ترقی کی۔
ہر فرانسیسی فرفرانگلش بولتا ھے جی۔
یہ لال ریچھ روسی فرفر انگلش بولتے ہیں۔اتنی فرفر بولتے ہیں کہ اپنی روسی زبان بھول چکے ہیں۔
جرمن جو ہیں ان کے ملک سے بھی ان کی جرمنی زبان ختم ھو چکی ھے۔
ایسے ھی چینی جو ہیں وہ بھی اب صرف انگلش بولتے ہیں۔
جاپانی یہ بھی صرف انگلش بولتے ہیں۔
کوریا اور تائیوان والوں کا بھی یہی حال ھے۔
ان لوگاں کی اپنی زبان اب صرف آثار قدیمہ سے کبھی کھبار ملتی ھے۔نادرونایاب چیزوں کی طرح۔
جناب ان کی سایئنسی و صنعتی ترقی تو آپ کو معلوم ھی ھے۔ یہ دنیا کےترقی یافتہ ممالک میں شمار ھوتے ہیں۔
وجہ یہی ھے کہ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے بچوں کو انگلش ہی پڑھائی ھے۔
ان کی اپنی زبان تو اس قابل تھی ہی نہیں کہ اس میں یہ علم حاصل کر تے۔
ان تمام ممالک کے دفاتر میں انگلش لکھی اور پڑھی جاتی ھے۔
ان کے لکچرار یونیورسٹیوں میں انگلش میں لکچر دیتے ہیں۔
ان کے تمام انجینیئر سیاست دان حتی کے معاشیت دان وغیرہ صرف انگلش سمجھتے اور بولتے ہیں۔
اگر آپ سمجتے ہیِں ایسا نہیں تو ایسا دہرا معیار کیوں ہمارے ملک میں؟
*ایک خواہش ھے پاکستان کے تمام بچے ایک جیسی تعلیم حاصل کریں چاھے امیر کے ھوں یا غریب کے۔چاھے تختی قلم دوات اور گاچی سے ہی کیوں نہ تعلیم حاصل کریں۔
کہ معاشرے میں جو تفریق ھے یہ ختم ھو ۔اور معاشرے میں جو ڈبل سٹنڈرد ھے یہ ختم ھو
یہ تو میری خوائش اب آپ بتائیں پیغام کی توسط سے آپ کیا سوچتے ھیں
*ایک کہاوت -کوا چلا ہنس کی چال- جو صادق آتی ہے ہمارے حکمرانوں پہ جیسے کہ
ہمارے حکمران جب قوم سے خطاب کرتے ہیں توانگریزی میں خطاب نہ فرمائیں توعوام ان کو اپنے جیسا سمجھ کر گاما شیدا ساجا کہہ کر آوازیں دے گی۔
اب ظاہر ھے حکمران بننے کیلئے بندہ انگریزی میں تعلیم و تربیت حاصل کر تا ھے۔بچپن سے لیکر حکمران بننے تک ٹونی شانی مانی جانی جونی جیسے ناموں سے پکارا اور پہچانا جاتا ھے۔
اب اگر عوام سے اردو میں خطابت کر کے عوامی ناموں سے پکارا جائے تو یہ زمرہ توہین میں آتا ھے جی۔
اب ان چمکتے دھمکتے لشکارے مارتے شیٹی باڈی ٹائٹ قسم کے حکمرانوں کو دیکھ کر عوام کوشش کرتی ھے کہ ہمارے بچے بھی ان جیسے ھوں اور حکمرانی کریں گامے شیدے ساجے کسیٹے پر۔
ان عوام میں قسمت کی غلطی سے کچھ زیادہ ہی پڑھ لکھ جاتے ہیں اور اپنے آپ کو عالم فاضل سمجھنا شروع ھو جاتے ہیں۔اس سمجھنا سمجھنا میں ہر فن مولا ھونے کے خبط میں مبتلا ھو کر الٹی سیدھی تعلیمی قسم کی حرکتیں شروع کر دیتے ہیں۔
اگر کوئی اعتراض کر دے تو انگاروں پہ بیٹھ کر انگارے چبانا شروع ھو جاتے ہیں۔
ان لوگوں کو یقین ہے کہ دنیا کے تما م علوم صرف انگلش میں ہیں اور تمام نوح انسانی کو انگلش اہل زبا ن سے بھی اچھی آنی چاھئے۔
اب دیکھیں جی۔یہ فرانس والے ہیں انہوں بھی پہلے انگش بولنا سیکھی اس کے بعد سایئنسی ترقی کی۔
ہر فرانسیسی فرفرانگلش بولتا ھے جی۔
یہ لال ریچھ روسی فرفر انگلش بولتے ہیں۔اتنی فرفر بولتے ہیں کہ اپنی روسی زبان بھول چکے ہیں۔
جرمن جو ہیں ان کے ملک سے بھی ان کی جرمنی زبان ختم ھو چکی ھے۔
ایسے ھی چینی جو ہیں وہ بھی اب صرف انگلش بولتے ہیں۔
جاپانی یہ بھی صرف انگلش بولتے ہیں۔
کوریا اور تائیوان والوں کا بھی یہی حال ھے۔
ان لوگاں کی اپنی زبان اب صرف آثار قدیمہ سے کبھی کھبار ملتی ھے۔نادرونایاب چیزوں کی طرح۔
جناب ان کی سایئنسی و صنعتی ترقی تو آپ کو معلوم ھی ھے۔ یہ دنیا کےترقی یافتہ ممالک میں شمار ھوتے ہیں۔
وجہ یہی ھے کہ انہوں نے بچپن سے ہی اپنے بچوں کو انگلش ہی پڑھائی ھے۔
ان کی اپنی زبان تو اس قابل تھی ہی نہیں کہ اس میں یہ علم حاصل کر تے۔
ان تمام ممالک کے دفاتر میں انگلش لکھی اور پڑھی جاتی ھے۔
ان کے لکچرار یونیورسٹیوں میں انگلش میں لکچر دیتے ہیں۔
ان کے تمام انجینیئر سیاست دان حتی کے معاشیت دان وغیرہ صرف انگلش سمجھتے اور بولتے ہیں۔
اگر آپ سمجتے ہیِں ایسا نہیں تو ایسا دہرا معیار کیوں ہمارے ملک میں؟
*ایک خواہش ھے پاکستان کے تمام بچے ایک جیسی تعلیم حاصل کریں چاھے امیر کے ھوں یا غریب کے۔چاھے تختی قلم دوات اور گاچی سے ہی کیوں نہ تعلیم حاصل کریں۔
کہ معاشرے میں جو تفریق ھے یہ ختم ھو ۔اور معاشرے میں جو ڈبل سٹنڈرد ھے یہ ختم ھو
یہ تو میری خوائش اب آپ بتائیں پیغام کی توسط سے آپ کیا سوچتے ھیں