پیو ریسرچ سینٹر کےزیر اہتمام پاکستان میں کرائے جانے والے رائے عامہ کے ایک جائزےسے ظاہر ہوا ہے کہ پاکستان میں تقریباً ہر دس میں سے ایک شخص امریکہ کو دشمن سمجھتا ہے، افغانستان میں جنگ کے خلاف ہے اور وہ طالبان اور القاعدہ کے بڑھتے ہوئے خطرے کے بارے میں زیادہ فکر مندنہیں ہے۔
امریکہ میں قائم پیوریسرچ سینٹر کی جانب سے اس ہفتے جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد اور امریکہ کی جانب سے بھرپور توجہ کے باوجود پاکستانی واشنگٹن کی سوچ کے انتہائی مخالف ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے صدر اینڈریو کوہٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کے بارے میں تصور مجموعی طورپر بہت منفی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 ممالک میں کرائے جانے والے اس جائزے میں امریکہ کے بارے میں پاکستانیوں ، ترکوں اور مصریوں کی ریٹنگ سب سے کم تھی۔ اور صدر اوباما کی عالمی سطح پر مقبولیت کے اثرات بھی پاکستان میں دکھائی نہیں دیے۔ جب ہم نے لوگوں سے امریکہ کےبارے میں خصوصیت سے سوالات کیے تو واضح ا کثریت کا کہناتھا کہ وہ امریکہ کو پاکستان کے دوست کی بجائے ایک دشمن سمجھتے ہیں ۔
کوہٹ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ واشنگٹن کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ سروے میں جواب دینے والے 53 فی صد لوگوں کا کہناتھا کہ وہ اسے پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے بارے پائے جانے والے کئی خدشات کا تعلق بھارت سے متعلق پاکستانیوں کی گہری تشوش سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی خطرے کے سلسلے میں پاکستانیوں کو سب سے زیادہ پریشانی بھارت سے ہے اوراس کے بعد وہ ملک کے اندر موجود انتہاپسندوں کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے خراب تعلقات میں تاریخ نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔
1980ء کے عشرے میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر سویت یونین کے خلاف جنگ میں افغان گوریلوں کی مدد کی تھی۔ اور جب افغانوں نے سویت فورسز کو کامیابی کے ساتھ اپنے ملک سے نکال باہر کیا تو امریکہ نے اپنی مدد اچانک ختم کردی۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے جمعرات کے روز واشنگٹن میں ایک نیوزکانفرنس میں کہا تھا کہ واشنگٹن اس اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اب بھی کوششیں کررہاہے جسے ماضی کے برسوں میں ہم نے کھودیاتھا۔ ان کا کہنا تھاکہ امریکہ کو افغانستان اور پاکستان میں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کوشدت سے یاد رکھاہے کہ ہم نے انہیں اپنی سیکیورٹی کی صورتحال سے خود نمٹنے کے لیے 1989ء میں تنہا چھوڑ دیاتھا ۔ ان حالات کی وجہ سے اور یہ تعین نہ ہونے کی وجہ سے کہ انہیں ہم پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں، وہ جس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، ہمیں اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
واشنگٹن نے اگلے پانچ برسوں کے دوران لوگوں کی حمایت جیتنے کے لیے، جوپاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف امریکہ کی جنگ کو شک وشہبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسلام آباد کو ساڑھے ساب ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے ۔
بڑے پیمانے پرغیر ملکی امداد کے باوجود پیوریسرچ پولز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ صرف 17 فی صد پاکستانیوں نے امریکہ کے حق میں اپنی رائے دی اور صرف 11 فی صد کا یہ خیال تھا کہ وہ امریکہ کو ایک شراکت دار کے طورپر دیکھتے ہیں۔
پیوکے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق کچھ پاکستانی اس صورت حال پر خوش ہے جس سے ان کا ملک گذر رہاہے۔
اس سال اپریل میں جن 2000 بالغ پاکستانیوں سے انٹرویوز کیے گئے تھے، ان میں سے 84 فی صد کا کہناتھا کہ وہ ملک کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں۔ اور صرف 20 فی صد پاکستانیوں نےصدر آصف علی زرداری کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا۔ اس خراب ریٹنگ کی وجہ دہشت گردی، جرائم، سیاسی بدعنوانی، کمزور معیشت اور مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تنازع پر بڑے پیمانے پائے جانے والے تحفظات تھے۔
امریکہ میں قائم پیوریسرچ سینٹر کی جانب سے اس ہفتے جاری ہونے والی جائزہ رپورٹ یہ ظاہر کرتی ہے کہ اربوں ڈالر کی امداد اور امریکہ کی جانب سے بھرپور توجہ کے باوجود پاکستانی واشنگٹن کی سوچ کے انتہائی مخالف ہیں۔
پیو ریسرچ سینٹر کے صدر اینڈریو کوہٹ کہتے ہیں کہ پاکستان میں امریکہ کے بارے میں تصور مجموعی طورپر بہت منفی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 20 ممالک میں کرائے جانے والے اس جائزے میں امریکہ کے بارے میں پاکستانیوں ، ترکوں اور مصریوں کی ریٹنگ سب سے کم تھی۔ اور صدر اوباما کی عالمی سطح پر مقبولیت کے اثرات بھی پاکستان میں دکھائی نہیں دیے۔ جب ہم نے لوگوں سے امریکہ کےبارے میں خصوصیت سے سوالات کیے تو واضح ا کثریت کا کہناتھا کہ وہ امریکہ کو پاکستان کے دوست کی بجائے ایک دشمن سمجھتے ہیں ۔
کوہٹ کہتے ہیں کہ کچھ لوگ واشنگٹن کے بھارت کے ساتھ قریبی تعلقات کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں، جب کہ سروے میں جواب دینے والے 53 فی صد لوگوں کا کہناتھا کہ وہ اسے پاکستان کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ امریکہ کے بارے پائے جانے والے کئی خدشات کا تعلق بھارت سے متعلق پاکستانیوں کی گہری تشوش سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ بیرونی خطرے کے سلسلے میں پاکستانیوں کو سب سے زیادہ پریشانی بھارت سے ہے اوراس کے بعد وہ ملک کے اندر موجود انتہاپسندوں کو خطرہ تصور کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے ساتھ واشنگٹن کے خراب تعلقات میں تاریخ نے بھی ایک کردار ادا کیا ہے۔
1980ء کے عشرے میں امریکہ نے پاکستان کے ساتھ مل کر سویت یونین کے خلاف جنگ میں افغان گوریلوں کی مدد کی تھی۔ اور جب افغانوں نے سویت فورسز کو کامیابی کے ساتھ اپنے ملک سے نکال باہر کیا تو امریکہ نے اپنی مدد اچانک ختم کردی۔
امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے جمعرات کے روز واشنگٹن میں ایک نیوزکانفرنس میں کہا تھا کہ واشنگٹن اس اعتماد کو بحال کرنے کے لیے اب بھی کوششیں کررہاہے جسے ماضی کے برسوں میں ہم نے کھودیاتھا۔ ان کا کہنا تھاکہ امریکہ کو افغانستان اور پاکستان میں جن چیلنجوں کا سامنا ہے ان میں سے ایک یہ ہے کہ انہوں نے اس بات کوشدت سے یاد رکھاہے کہ ہم نے انہیں اپنی سیکیورٹی کی صورتحال سے خود نمٹنے کے لیے 1989ء میں تنہا چھوڑ دیاتھا ۔ ان حالات کی وجہ سے اور یہ تعین نہ ہونے کی وجہ سے کہ انہیں ہم پر بھروسہ کرنا چاہیے یا نہیں، وہ جس ردعمل کا اظہار کرتے ہیں، ہمیں اس پر حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
واشنگٹن نے اگلے پانچ برسوں کے دوران لوگوں کی حمایت جیتنے کے لیے، جوپاکستان اور ہمسایہ ملک افغانستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف امریکہ کی جنگ کو شک وشہبے کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اسلام آباد کو ساڑھے ساب ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے ۔
بڑے پیمانے پرغیر ملکی امداد کے باوجود پیوریسرچ پولز سے یہ ظاہر ہوا ہے کہ صرف 17 فی صد پاکستانیوں نے امریکہ کے حق میں اپنی رائے دی اور صرف 11 فی صد کا یہ خیال تھا کہ وہ امریکہ کو ایک شراکت دار کے طورپر دیکھتے ہیں۔
پیوکے رائے عامہ کے جائزے کے مطابق کچھ پاکستانی اس صورت حال پر خوش ہے جس سے ان کا ملک گذر رہاہے۔
اس سال اپریل میں جن 2000 بالغ پاکستانیوں سے انٹرویوز کیے گئے تھے، ان میں سے 84 فی صد کا کہناتھا کہ وہ ملک کے موجودہ حالات سے مطمئن نہیں ہیں۔ اور صرف 20 فی صد پاکستانیوں نےصدر آصف علی زرداری کے بارے میں مثبت رائے کا اظہار کیا۔ اس خراب ریٹنگ کی وجہ دہشت گردی، جرائم، سیاسی بدعنوانی، کمزور معیشت اور مسئلہ کشمیر پر بھارت کے ساتھ تنازع پر بڑے پیمانے پائے جانے والے تحفظات تھے۔