جب سے شریفیوں کی جیل کی سزا معطل ہوئی ہے میڈیا کیساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی ایک ہنگامِ بدتمیزی مچا ہو ہے کہ انصاف کا جنازہ نکل گیا، انصاف بک گیا، حکومت بک گئی، ڈیل ہو گئی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ ایسا کیوں ہو رہا ہے، آئیے اس پر ایک نظر ڈالتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔۔۔
سقوطِ ڈھاکہ لیکرشریفیوں کی سزا کی معطلی تک اگر پاکستان کے انصاف پر نظر ڈالی جائے تو ایک ہی تصویر سامنے آتی ہے: مونالیزا نے انتہائی بھیانک میک اپ کیا ہوا ہے اور اسکی سمائیل پاکستانی قوم کے منہ پر طمانچہ ہے!.
انصاف کا سب سے پہلا قتل اس وقت جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کو امریکہ نے جنرل ضیا کی معاونت سے انصاف کے ہاتھوں قتل کروایا، بے گناہ، بے جا، ظلم، بربریت، اسٹیٹ قتل! یہ وہ حرام کی شراب تھی جو غیرمنصفانہ منہ کو پہلی بار لگی!(بیشک اس سے پہلے بھی انصاف کا قتل ہوتا رہا ہو گا، مگر وہ بہت چھوٹی سطح پر).
اسکے بعد فوجی حکومتی سرپرستی میں سندھ میں عورتوں کو برھنہ سرِبازار پھیرایا گیا مگر انصاف ناپید رھا، سیاسی قتل پہ قتل ہوئے، میرمرتضی بھٹو،شاہنوازبھٹو جو ضیا کی حکومت کا نشانہ بنے اور خود میرمرتضی بھٹو کی الذوالفقار نے سابق صدر چودھری ظہورالہی کا قتل کروایا انصاف نایاب رہا۔۔۔ اور اس کا نشانہ بننے والی سب سے بڑا نام بینظیر بھٹو خود زرداری نے مراوایا اور انصاف نایاب رہا۔۔۔
ہم نے اس ملک میں انصاف کو کہاں کہاں اور کس کس مقام پر بے آبرو ہوتے نہیں دیکھا؟ الیکشن میں دھاندلی سے لیکر مفادپرست تحریکوں تک انصاف کے رکھوالے اپنا ضمیر بیچتے چلے آئے ہیں۔ہماری نسلیں ایسی بے انصافیوں میں پلتی رہی ہیں لہذا بے انصافی ہماری رگوں میں رچی بسی ہے، ہمارے لیے سب سے شوکنگ نیوز یہ ہوتی ہے اگر کسی کو انصاف مل گیا ہو!عوامی سطح پر انصاف دیوانی عدالتوں کے صحنوں میں دولت دیکھکر کیا جاتا ہے، جسکی جیب جتنی بڑی اور وزنی ہو، اسکا کیس اتنا مضبوط ہو جاتا رہا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کیسے نوازشریف ایک ٹیلیفون کال پر فیصلے لکھواتا رہا ہے، سپریم کورٹ پر حملے کروا کے ججز کو دہشتگردی کا نشانہ بناتا رھا ہے،کس طرح نیکونام منصفوں کے بیٹیوں کی عصمت دری کا دھونس رچا کر فیصلے لیتا رہا ہے۔۔
ایسے میں اگر - آؤٹ آف بلیو – پاکستان میں ایک گروپ ایسے ججز کا کہیں سے ٹپک پڑا ہے جو ان حالات کو بدلنا چاھتا ہے تو اول تو ہمیں اس پر یقین ہی نہیں آتا، دوم ہمیں ان ہی کی صداقت پر بھروسہ نہیں ہوتا، سوم ہماری عقل تسلیم ہی نہیں کر پاتی کہ پاکستان میں انصاف ہو سکتا ہے۔
نوازشریف کیخلاف جو کیسز بنے ان کی مکمل تفصیلی اور گہرائی میں جاکر تفتیش ضروری تھی، اس میں رتی برابر شک نہیں کہ نوازشریف کرپٹ ہے، اس نے پاکستان کا خزانہ لوٹا ہے، مگر کرپشن ایک ایسی شے ہے جسے دنیا بھی میں ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا عنقا!
اس کو جوسزاملی وہ بھی درست تھی! اور اب جس جج نے اسے آزاد کیا وہ بھی درست ہے، کیونکہ پاکستان میں آج بھی ایسے ججز موجود ہیں جو کرپشن کے اس مافیا کے دئیے پر پل رہے ہیں، جنکی تمام تر وفائیں اس کرپٹ مافیا کیساتھ ہیں، انکا دین ایمان پیسہ ہے اور انہیں ایسا حرام کا پیسہ صرف اور صرف ایسا ہی کرپٹ مافیا دے سکتا ہے۔
ایسے میں ضرورت اب اس بات کی ہے کہ جب پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے عمران خان جیسا حکمران عطا کر ہی دیا ہے جو اس نظام کر بدلنا چاھتا ہے، جو اداروں کو مضبوط کرنا چاھتا ہے تو اس کے لیے بیحد ضروری ہے کہ اسے پانچ سال پوری دلجمعی کیساتھ کام کرنے دیا جائے، اسے ان اداروں کو بدلنے کی اور انہیں مضبوط کرنے کا وقت دیا ہے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اسکے پاس الہ دین کا چراغ ہے جسے گھماتے ہی وہ سارا نظام بدل دے گا تو یہ جہالت ہے! ایک نظام جو کم سے کم 30 سالوں سے ابتری اور بدکاری کی جانب بڑھتا جا رہا تھا، اسے تیس دن یا سو دن میں درست نہیں کیا جا سکتا، جہاں ایسے ججزموجود ہوں جو اپنا ضمیر بیچنے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کریں۔
اس معطلی کا ایک دوسرا پہلو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جب نوازشریف کو سزاسنائی گئی تھی اسوقت وہ غالباً ملک سے باہر تھا، ملک میں واپس لانے کے لیے اسے اپیل کا حق دینا چاھیے تھا ورنہ اسکا واپس آنا ناممکن ہوتا، وہ پاکستان صرف اور صرف ایک اپیل پر آیا تھا، اب اپیل ہو گئی اور سزا معطل ہو گئی، مگر ختم نہیں ہوئی، وہ آج بھی مجرم ہے، سزا آج بھی وہی کی وہی برقرار ہے، اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ اس سزا کو پھر سے جاری کرتی ہے کہ معطلی کو بحال کر دیتی ہے، اگر سزا پھر سے جاری کر دی جاتی ہے تو پھر تو اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا! پھر تو تاعمر اندر!
کچھ بھی ہےنوازشریف کی سیاست کا پرچم سرنگوں ہو چکا ہے! نوازشریف ماضی کا حصہ بن چکا ہے، اب جو بھی ہے وہ گوشت کا وہ ٹکڑا ہے جو کٹ جانے کے بعد کچھ دیر تک ترپتا رہتا ہے۔
اس کو مکمل موت مرنے کے لیے اس نظام کا بدلنا اور اسکا مضبوط ہونا اشدضروری ہے جہاں ادارے خودمختارہوں اور کسی کے ماتحت کام نہ کریں، ایسے ادارے صرف اور صرف عمران خان کی حکومت ہی بنا سکتی ہے، بشرطیکہ اسے وقت دیا جائے۔
نوازشریف کے کیسز ابھی ختم نہیں ہوئے، زرداری بھی نرغے میں ہے،اس وقت ملک کی دو بڑی مچھلیاں جال میں پھنس رہی ہیں، شہبازشریف اور چند ایک اور بڑے نام بھی عنقریب اس شکنجے میں پھنسنے والے ہیں، ہم عنقریب بہت مختلف حالات دیکھیں گے کیونکہ ایک بات جو انتہائی اہم اورپتھر پر لکیر ہے وہ یہ کہ عمران خان کی حکومت میں کسی کو ڈیل نہیں ملے گی! عمران خان کی حکومت میں کسی میڈیا کو حرام کا پیسہ نہیں ملے گا یہاں تک کہ وہ چینلز جو دورانِ انتخابات عمران خان کی حمایت میں تھے انہیں بھی کچھ نہیں ملے گا، لہذا کیا میڈیا کیا سوشل میڈیا پر نون لیگی اور پی پی پی کے لوگ شور مچائیں گے ، جھوٹی سےجھوٹی اور فریب زدہ خبر چلائیں گے کہ یہ ہو گیا وہ ہوگیا ، ڈیل ہو گئی ، حکومت بک گئی۔۔۔ ایسا کم سے کم اس حکومت میں نہیں ہوگا!
ایک دوسری بات عوام کو سمجھ لینی چاھیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جیسے کہ اوپر لکھا جاچکا ہے انصاف امیر کے گھر کی طوائف رھا ہے، وہاں ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی مجرم اور ایک عام مجرم میں فرق ہوتا ہے! اور خاص کر جہاں بات ایک ایسے مجرم کی ہو جو تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو۔ لہذا یہ شور مچانا کہ عمران کی حکومت میں بھی انصاف سب کے لیے برابر نہیں، حماقت ہے، اور شدید حماقت اس وقت جب ابھی عمران کو آئے تیس دن بھی نہیں ہوئے، ابھی اس نے ان اداروں کو ہاتھ تک نہیں لگایا! افسوس سے یہ بکواس مخالف تو کر ہی رہے ہیں، چند احمق اور جلدباز حمائتی بھی بک رہے ہیں، انکو نہ ہی تو سیاست کی سمجھ ہے اور نہ ہی حالات کی نذاکت کی!
پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بہت اہم وقت ہے،سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اوٹ پٹانگ بکواس کرنے کی بجائے اگر عمران خان کو اس مقام پر پہنچایا ہے تو اسے پانچ سے مزید سپورٹ کرو پھر دیکھو!
سقوطِ ڈھاکہ لیکرشریفیوں کی سزا کی معطلی تک اگر پاکستان کے انصاف پر نظر ڈالی جائے تو ایک ہی تصویر سامنے آتی ہے: مونالیزا نے انتہائی بھیانک میک اپ کیا ہوا ہے اور اسکی سمائیل پاکستانی قوم کے منہ پر طمانچہ ہے!.
انصاف کا سب سے پہلا قتل اس وقت جب جناب ذوالفقار علی بھٹو کو امریکہ نے جنرل ضیا کی معاونت سے انصاف کے ہاتھوں قتل کروایا، بے گناہ، بے جا، ظلم، بربریت، اسٹیٹ قتل! یہ وہ حرام کی شراب تھی جو غیرمنصفانہ منہ کو پہلی بار لگی!(بیشک اس سے پہلے بھی انصاف کا قتل ہوتا رہا ہو گا، مگر وہ بہت چھوٹی سطح پر).
اسکے بعد فوجی حکومتی سرپرستی میں سندھ میں عورتوں کو برھنہ سرِبازار پھیرایا گیا مگر انصاف ناپید رھا، سیاسی قتل پہ قتل ہوئے، میرمرتضی بھٹو،شاہنوازبھٹو جو ضیا کی حکومت کا نشانہ بنے اور خود میرمرتضی بھٹو کی الذوالفقار نے سابق صدر چودھری ظہورالہی کا قتل کروایا انصاف نایاب رہا۔۔۔ اور اس کا نشانہ بننے والی سب سے بڑا نام بینظیر بھٹو خود زرداری نے مراوایا اور انصاف نایاب رہا۔۔۔
ہم نے اس ملک میں انصاف کو کہاں کہاں اور کس کس مقام پر بے آبرو ہوتے نہیں دیکھا؟ الیکشن میں دھاندلی سے لیکر مفادپرست تحریکوں تک انصاف کے رکھوالے اپنا ضمیر بیچتے چلے آئے ہیں۔ہماری نسلیں ایسی بے انصافیوں میں پلتی رہی ہیں لہذا بے انصافی ہماری رگوں میں رچی بسی ہے، ہمارے لیے سب سے شوکنگ نیوز یہ ہوتی ہے اگر کسی کو انصاف مل گیا ہو!عوامی سطح پر انصاف دیوانی عدالتوں کے صحنوں میں دولت دیکھکر کیا جاتا ہے، جسکی جیب جتنی بڑی اور وزنی ہو، اسکا کیس اتنا مضبوط ہو جاتا رہا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کیسے نوازشریف ایک ٹیلیفون کال پر فیصلے لکھواتا رہا ہے، سپریم کورٹ پر حملے کروا کے ججز کو دہشتگردی کا نشانہ بناتا رھا ہے،کس طرح نیکونام منصفوں کے بیٹیوں کی عصمت دری کا دھونس رچا کر فیصلے لیتا رہا ہے۔۔
ایسے میں اگر - آؤٹ آف بلیو – پاکستان میں ایک گروپ ایسے ججز کا کہیں سے ٹپک پڑا ہے جو ان حالات کو بدلنا چاھتا ہے تو اول تو ہمیں اس پر یقین ہی نہیں آتا، دوم ہمیں ان ہی کی صداقت پر بھروسہ نہیں ہوتا، سوم ہماری عقل تسلیم ہی نہیں کر پاتی کہ پاکستان میں انصاف ہو سکتا ہے۔
نوازشریف کیخلاف جو کیسز بنے ان کی مکمل تفصیلی اور گہرائی میں جاکر تفتیش ضروری تھی، اس میں رتی برابر شک نہیں کہ نوازشریف کرپٹ ہے، اس نے پاکستان کا خزانہ لوٹا ہے، مگر کرپشن ایک ایسی شے ہے جسے دنیا بھی میں ثابت کرنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے جتنا عنقا!
اس کو جوسزاملی وہ بھی درست تھی! اور اب جس جج نے اسے آزاد کیا وہ بھی درست ہے، کیونکہ پاکستان میں آج بھی ایسے ججز موجود ہیں جو کرپشن کے اس مافیا کے دئیے پر پل رہے ہیں، جنکی تمام تر وفائیں اس کرپٹ مافیا کیساتھ ہیں، انکا دین ایمان پیسہ ہے اور انہیں ایسا حرام کا پیسہ صرف اور صرف ایسا ہی کرپٹ مافیا دے سکتا ہے۔
ایسے میں ضرورت اب اس بات کی ہے کہ جب پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے عمران خان جیسا حکمران عطا کر ہی دیا ہے جو اس نظام کر بدلنا چاھتا ہے، جو اداروں کو مضبوط کرنا چاھتا ہے تو اس کے لیے بیحد ضروری ہے کہ اسے پانچ سال پوری دلجمعی کیساتھ کام کرنے دیا جائے، اسے ان اداروں کو بدلنے کی اور انہیں مضبوط کرنے کا وقت دیا ہے، اگر ہم سمجھتے ہیں کہ اسکے پاس الہ دین کا چراغ ہے جسے گھماتے ہی وہ سارا نظام بدل دے گا تو یہ جہالت ہے! ایک نظام جو کم سے کم 30 سالوں سے ابتری اور بدکاری کی جانب بڑھتا جا رہا تھا، اسے تیس دن یا سو دن میں درست نہیں کیا جا سکتا، جہاں ایسے ججزموجود ہوں جو اپنا ضمیر بیچنے میں لمحہ بھر کی دیر نہ کریں۔
اس معطلی کا ایک دوسرا پہلو بھی دیکھا جا سکتا ہے، جب نوازشریف کو سزاسنائی گئی تھی اسوقت وہ غالباً ملک سے باہر تھا، ملک میں واپس لانے کے لیے اسے اپیل کا حق دینا چاھیے تھا ورنہ اسکا واپس آنا ناممکن ہوتا، وہ پاکستان صرف اور صرف ایک اپیل پر آیا تھا، اب اپیل ہو گئی اور سزا معطل ہو گئی، مگر ختم نہیں ہوئی، وہ آج بھی مجرم ہے، سزا آج بھی وہی کی وہی برقرار ہے، اب یہ سپریم کورٹ پر ہے کہ وہ اس سزا کو پھر سے جاری کرتی ہے کہ معطلی کو بحال کر دیتی ہے، اگر سزا پھر سے جاری کر دی جاتی ہے تو پھر تو اپیل کا کوئی حق نہیں ہوگا! پھر تو تاعمر اندر!
کچھ بھی ہےنوازشریف کی سیاست کا پرچم سرنگوں ہو چکا ہے! نوازشریف ماضی کا حصہ بن چکا ہے، اب جو بھی ہے وہ گوشت کا وہ ٹکڑا ہے جو کٹ جانے کے بعد کچھ دیر تک ترپتا رہتا ہے۔
اس کو مکمل موت مرنے کے لیے اس نظام کا بدلنا اور اسکا مضبوط ہونا اشدضروری ہے جہاں ادارے خودمختارہوں اور کسی کے ماتحت کام نہ کریں، ایسے ادارے صرف اور صرف عمران خان کی حکومت ہی بنا سکتی ہے، بشرطیکہ اسے وقت دیا جائے۔
نوازشریف کے کیسز ابھی ختم نہیں ہوئے، زرداری بھی نرغے میں ہے،اس وقت ملک کی دو بڑی مچھلیاں جال میں پھنس رہی ہیں، شہبازشریف اور چند ایک اور بڑے نام بھی عنقریب اس شکنجے میں پھنسنے والے ہیں، ہم عنقریب بہت مختلف حالات دیکھیں گے کیونکہ ایک بات جو انتہائی اہم اورپتھر پر لکیر ہے وہ یہ کہ عمران خان کی حکومت میں کسی کو ڈیل نہیں ملے گی! عمران خان کی حکومت میں کسی میڈیا کو حرام کا پیسہ نہیں ملے گا یہاں تک کہ وہ چینلز جو دورانِ انتخابات عمران خان کی حمایت میں تھے انہیں بھی کچھ نہیں ملے گا، لہذا کیا میڈیا کیا سوشل میڈیا پر نون لیگی اور پی پی پی کے لوگ شور مچائیں گے ، جھوٹی سےجھوٹی اور فریب زدہ خبر چلائیں گے کہ یہ ہو گیا وہ ہوگیا ، ڈیل ہو گئی ، حکومت بک گئی۔۔۔ ایسا کم سے کم اس حکومت میں نہیں ہوگا!
ایک دوسری بات عوام کو سمجھ لینی چاھیے کہ پاکستان جیسے ملک میں جہاں جیسے کہ اوپر لکھا جاچکا ہے انصاف امیر کے گھر کی طوائف رھا ہے، وہاں ایک اعلیٰ پائے کے سیاسی مجرم اور ایک عام مجرم میں فرق ہوتا ہے! اور خاص کر جہاں بات ایک ایسے مجرم کی ہو جو تین بار وزیراعظم رہ چکا ہو۔ لہذا یہ شور مچانا کہ عمران کی حکومت میں بھی انصاف سب کے لیے برابر نہیں، حماقت ہے، اور شدید حماقت اس وقت جب ابھی عمران کو آئے تیس دن بھی نہیں ہوئے، ابھی اس نے ان اداروں کو ہاتھ تک نہیں لگایا! افسوس سے یہ بکواس مخالف تو کر ہی رہے ہیں، چند احمق اور جلدباز حمائتی بھی بک رہے ہیں، انکو نہ ہی تو سیاست کی سمجھ ہے اور نہ ہی حالات کی نذاکت کی!
پی ٹی آئی کے کارکنوں کے لیے بہت اہم وقت ہے،سوشل میڈیا پر بیٹھ کر اوٹ پٹانگ بکواس کرنے کی بجائے اگر عمران خان کو اس مقام پر پہنچایا ہے تو اسے پانچ سے مزید سپورٹ کرو پھر دیکھو!