امر ناتھ یاترا یا آتنک واد یاترا
کالم زبیراحمد ظہیر
کیاکشمیر خریدا جا سکتا ہے؟ بھارت پورے کشمیر پر قابض ہے، پھر8 سو کنال زمین کی الاٹمنٹ منسوخ کرانی کیوں ضروی ہوگئی تھی کہ اس وجہ سے جموں اور سری نگر 3 ماہ سے فسادات اور احتجاج کی علامت بن کر رہ گے؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں مقبوضہ کشمیر کے زمینی حقائق کا جائزہ لینا ہوگا۔ جموںمیںمختلف قومیںآباد ہیں 1846میں انگریزوں اور سکھوںمیںلڑائی ہوئی ہندوڈوگرانے سکھوں سے غداری کی جس کے نتیجے میں سکھوں کوشکست ہوئی انگریز نے انعام کے طور پر معمولی قیمت میں کشمیر کی ریاست ہندوڈوگرا کے حوالے کردی اور یوں سادھؤںکی آمد ورفت میں اضافہ ہوا ، ہندو سادھواس خوصورت جنگل میں دنیا سے کنارہ کش ہو کر پوجا پاٹ کرتے اور یہیں مربھی جاتے تھے، اس طرح جموں میںسادھؤں سنیاسیوں کی یہ آماجگاہ مندروں کا شہر بن گئی اور یوں ان مندروں نے جموں کی ہزاروں ایکٹر اراضی نگل لی ۔ مقبوضہ کشمیر میں بڑے مندروں کی کل تعداد 12ہے، جن میں سے8جموں میں ہیں۔
جموں اور وادی کو آگ میںجھونکنے کا سبب بننے والی امرنا تھ یاترا ہی کو دیکھ لیں، سیاحتی مرکز پہلگام کے قریب14 ہزار فٹ بلندی پر واقع اس انتہائی دشوار گزار غار تک چند سال قبل تک سینکڑوں لوگ ہی بمشکل پہنچ پاتے تھے اوراس وقت یہ مذہبی میلہ15دن کا تھا 14ہزار فٹ کی پہاڑی پریہ کوہ پیمائی کٹرسادھو کرتے تھے یہ زور آزمائی عام آدمی کے بس میں نہ تھی اس لیے عام زائرین بہت کم جاتے تھے مگر گزشتہ 3،4برس سے اس کے یاتری لاکھوںہیں اس کادورانیہ 15دن سے 2ماہ کر دیا گیا ہے دوماہ کے دورانیے اور لاکھوں یاتریوں کی آمد کی آڑ میں شرائن بورڈ نے اس کے لیے 8 سوکنال رقبہ حاصل کر لیا ۔برسوں گزر گے کشمیر کے مندورں کوکسی بورڈ کی ضرورت نہ پڑی ہندوانتہا پسندگورنر نے شرائن بورڈ نام کی نئی بدعت ایجاد کرائی جس میں ہندو انتہاپسندوں کو اہم عہدے دلائے گئے ۔ انہیں اقتدار سے مریضانہ حد لگاؤ تھانئے گورنر ووہرا کے آنے کے باوجودجنرل سنہا سرکاری رہائش گاہ پر قابض رہے۔ امر ناتھ یاترا کی قیادت کے ایک ذمہ دار سادھو دہندر گری نے گھر کے بھید ی ہوکر لنکا ڈھادی انہوں نے سرعام احتجاجی مظاہرے میں گورنر سنہا کے کردار پر کڑی تنقید کی اور برملا کہا 15دنوں کی یاترا کو 2ماہ کرنا درست نہیں۔انہوں نے شرائن بورڈ جیسے ادارے کے تعمیرات میں ملوث ہونے کو غیر ضروری قراردیا ۔دراصل امر تاتھ یاتراجموں کے انتہاپسندوں کے روزگار کا سوال ہے لہذا انکااس تجارت کوسارے موسم گرما تک لے جانے کا منصوبہ ہے۔۔ہندوانتہا پسندبنیئے کی اس کاروباری ذہنیت نے کشمیر کا امن غارت کردیا ۔ محکمہ جنگلات کی8 سو کنال یہ زمین یاتریوں کی رہائش ،ہوٹل ،قہوہ خانوںاور ریسٹ ہاوس کے لیے استعمال ہونی تھی۔ہندو احتجاجی تحریک میں شامل22 تنظیموں کے لیڈروں کو اس تعمیر کے ٹھیکے ملنے تھے اس موسمی تجارت کی جب یہ امید پوری ہوتی دکھائی نہ دی تو انہوں جموں کا واحد راستہ بند کر دیا اور کشمیر کی معاشی ناکہ بندی کر ڈالی ،مندورں کی آڑ میں زمین ہتھیانے کے اس انتہا پسند منصوبے میںاصل رکاوٹ کیا بنی اور وہ کشمیری خاموشی جن کی عادت ثانیہ بن چکی ہے انہوں نے یک زبان اس خاموشی کوکیسے توڑڈالا ،آخر کیا وجہ تھی صرف 8سوکنال زمین پر کشمیر آگ اور خون میں نہا گیا۔