مجھے قبول نہیں


تمام شہر میں اب تو ہے راج کانٹوں کا
مجھے قبول نہیں یہ سماج کانٹوں کا


چلو کہ کچھ تو تسلٌی ہوئی مرے دل کو
اسی میں خوش ہوں کہ پایا خراج کانٹوں کا


ہمارے پھول سے چہروں کو نوچنے والو
کبھی تو تم پہ بھی اترے اناج کانٹوں کا


سنبھال سکتے نہیں ہم یہ غم کی جاگیریں
اتار لیجئے سر سے یہ تاج کانٹوں کا


یہ اور بات کہ گل کی طرح مہکتے رہے
وگرنہ رکھتے تھے ہم بھی مزاج کانٹوں کا


بہت عجیب سے لہجے میں بات کرتا ہے
ہے آج پھول میں کچھ امتزاج کانٹوں کا